بھارتی اور بنگلہ دیشی میڈیا کے ساتھ ساتھ وطن ِعزیزکے وہ صحافی حضرات اور ا ینکرز‘ جو مکتی باہنی کیلئے ہمدردیاں اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے پر انعام کے حقدار پاتے ہیں اور جنہیں حسینہ واجد ایوارڈ دینے کیلئے خصوصی طور پر شاہانہ انداز کی سہولتیں مہیا کرتے ہوئے ڈھاکہ بلایا جاتا ہے‘ گزشتہ دنوں ایک ساتھ اور ہم زبان ہو کر اڈیالہ جیل میں کرپشن کے جرم میں بند ایک سزا یاب اور نا اہل وزیراعظم اور اس کی بیٹی کیلئے ایسے چیخ پکار رہے ہیں کہ جیسے درد سے کراہ رہے ہوں‘ لیکن ان کی زبانیں اور قلم ایک دوسری قیدی عورت ‘جو اسی کی طرح سابق وزیر اعظم رہی ہے‘ پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مسلسل خاموش چلی آ رہی ہے۔
پہلی خاتون کا تعلق پاکستان سے‘ جبکہ دوسری کا بنگلہ دیش سے ہے۔ پاکستان میں جس خاتون کو قید کی سزا سنائی گئی‘ اس پر الزام ہے کہ اس نے ملک کی سب سے بڑی عدالت‘ سپریم کورٹ میں جعلی اور بوگس دستاویزات پیش کرتے ہوئے‘جرم کاا رتکاب کیا ہے۔اور دوسری عورت‘ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیا ہیں ‘ پر بھی اپنے ملک کی دولت لوٹنے اور کرپشن کے الزامات ہیں‘ جس پر اسے سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش نے قید کی سزا سنا رکھی ہے اور ڈھاکہ کی ایک جیل میں اپنی سزا کاٹ رہی ہے ‘جس پر بھارتی میڈیا خوشی سے جھوم رہا ہے۔
جب سے میاں نواز شریف اڈیالہ جیل پہنچے ہیں‘ ساری جیل انتظامیہ اور آئی جی جیل خانہ جات سمیت نگران وزیر داخلہ پنجاب‘ ان کے ایک اشارۂ ابرو کے منتظر کھڑے دکھائی دیتے ہیں‘ جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ جو سہولتیں ہم' آئوٹ آف دی وے ‘جا کر دے رہے ہیں ‘اگر ان کے بارے میں قوم کو بتا دیا جائے ‘تو نواز شریف اور نون لیگی ورکر کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہیں گے۔ عالمی میڈیا اور چند بین الاقوامی طاقتوں کو مریم صفدر اور نواز شریف کا جیل جانا‘ بہت برا لگا ہے۔ شاید اس لئے کہ قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ایک مقروض ملک کی عدالتوں نے انہیں سزا سنائی ہے‘ لیکن یہ سب‘ جنہیں آج بہت درد اٹھ رہا ہے‘ اس وقت کہاں تھے۔ جب بیگم خالدہ ضیا کو بنگلہ دیش کی عدالت نے سزا سنائی تھی؟ خالدہ ضیا بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہی ہیں اور ان کے شوہر جنرل ضیا الرحمان‘ بنگلہ دیش آرمی کے چیف بھی رہے ہیں‘ انہیں جب حسینہ واجد اور نریندر مودی کے حکم پر سزائے قید دی گئی‘ تو یہ نام نہاد جمہوریت پسند کیوں خاموش رہے؟کیا ترکی کے صدر نے کبھی بیگم خالدہ ضیا کی قید پر حسینہ واجد کو خط لکھا ہے؟ کیا کبھی کسی سربراہ نے پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خالدہ ضیا کو جیل میں اے کلاس دی جائے؟ اسے کسی ریسٹ ہائوس میں قید رکھا جائے؟ اس کیلئے بھی ایک ایمبو لینس ‘دو ڈاکٹر اور دو نرسیں ‘ خدمت پر مامور رکھی جائیں۔ اس کیلئے بھی ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سینئر پروفیسر وں کو دن میں دو مرتبہ انہیں چیک کرنے کیلئے الرٹ رکھا جائے۔
آج کل شیخ مجیب الرحمان‘ چونکہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کے آئیڈیل بن چکے ہیں ‘ لہٰذا وہ اسے بھی اپنی طرح کا پاکستان کا سب سے بڑا حامی ثابت کرنے کی کوششوں میں دن رات ایک کئے جا رہے ہیں‘ لیکن میاں صاحب بھول گئے کہ شیخ مجیب کی بیٹی نے ہی سابقہ وزیر اعظم بنگلہ دیش بیگم خالدہ ضیا پر بے پناہ تشدد کرواتے ہوئے ‘اسے کئی دن تک قید تنہائی میں رکھا‘ جس سے وہ سخت بیمار ہو گئیں‘ لیکن انہیں کسی ڈاکٹر تو بہت دور کی بات ہے‘ ایک معمولی سی نرس کی خدمات بھی نہ دی گئیں۔بیگم خالدہ ضیا کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہندوستان کی غلامی کی بجائے پاکستان سے دوستی اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئے دونوں ملکوں کو پھر سے قریب لانے کا پروگرام بنا رہی تھیں‘جس سے واجپائی سمیت میاں نواز شریف کے نریندر مودی جیسے سب بھارتی دوست سیخ پا ہو گئے اور پھر اس بوڑھی خاتون کو پاکستان سے دوستی کی اس طرح سزا دی گئی کہ آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے ‘لیکن اسے کوئی اے کلاس نہیں دی جا رہی ۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو دس سال قید کی سزا دی ہے اور 13 جولائی سے وہ اور مریم صفدر اڈیالہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور بھارت کی برکھا دت سمیت ہندوستان کے سیا سی رہنمائوں نے اس سزا کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا‘لیکن پاکستان کے عدالتی نظام کو ہدف تنقید بنانے والے نا جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی جیل میں بھی ایک سابق وزیر اعظم عرصہ دراز سے قید ہے‘ جسے لوگ خالدہ ضیاء کے نام سے جانتے ہیں ۔ انہیں کسی کو قتل کرنے کے الزام پر نہیں‘ بلکہ ان پر بھی میاں نواز شریف کی طرح کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات چلاتے ہوئے انہیں قید کی سزا ئیں سنائی گئی ‘ لیکن انہیں جیل میں کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی جا رہی ہیں۔
حسینہ واجد کے دل میں میاں نواز شریف کے لیے‘ تو درد جاگ گیا‘ لیکن انہیں سب سے پہلے سوچنا چاہئے کہ ان کے ساتھی‘ بیگم خالدہ ضیا کے ساتھ کس طرح کا سلوک کر رہی ہے؟ مریم صفدر سے تو گزشتہ دنوں‘ جس نے جب چاہا‘ ملاقات کی ہے‘ انہیں موبائل اور انٹر نیٹ کی سہولیات تک میسر ہیں‘ لیکن خالدہ ضیاء کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا ‘اگر انہیں رتی برابر پتہ چل جائے‘ تو وہ چکرا کر رہ جائیں ۔بیگم خالدہ ضیاء سے جیل میں ملاقات کیلئے ‘اگر کوئی جا نا چاہتا ہے‘ تو اسے کئی کئی دن چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے‘ جبکہ مریم صفدر شاہانہ ٹھاٹھ باٹ سے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں یا اس سے ملحقہ خوبصورت اور سجے سجائے ڈرائنگ روم میں مسلم لیگ نواز کے اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت دوسرے علا قوں کے مرکزی لیڈروں کو فون پر پہلے سے طے کیے گئے وقت کے مطابق دن اور رات کی قید کے بغیر ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بیگم خالدہ ضیاء سے ملاقات کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے ایک لاگ بک تیار کر رکھی ہے‘ جس کے مطا بق اگر کوئی مرد یا خاتون خالدہ ضیاء سے ملاقات کرنا چاہتا ہے‘ تو اسے سب سے پہلے اپنا شناختی کارڈ اور ساتھ ہی ایک درخواست دیتے ہوئے اس میں بتانا پڑے گا کہ وہ کس مقصد کیلئے خالدہ ضیاء سے ملاقات چاہتا ہے۔ یہ درخواست اسے بیگم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے تسلیم شدہ مرکزی عہدیداروں سے ان الفاظ کے ساتھ تصدیق کروانی ہو تی ہے کہ'' ہم سفارش کرتے ہیں کہ اس شخص یا عورت کوبیگم خالدہ ضیا سے ڈھاکہ جیل میں ملاقات کی اجا زت دی جائے‘‘۔ اس کے بعد ایک اور مر حلہ طے کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ کو یہ درخواست بھجوادی جاتی ہے‘ جو اسے ملاقات کی اجا زت دینے کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔اور وہ بھی صرف پانچ منٹ کیلئے دو افسران کی موجود گی میں ۔
آج پاکستان کے میر جعفر نما صحافی اور دانشور اور ہمیشہ سے پاکستان مخالف بھارتی میڈیا‘ میاں نواز شریف اور مریم صفدر کو سزا دینے کے فیصلوں کے خلاف‘ تو چیخ رہا ہے‘ لیکن بھارت کی عدالتوں نے لالو پرشاد یادیو اور بیگم خالدہ ضیا کو کرپشن پر سزائیں سنائی ہیں‘ ان کے بارے میں وہ ایک لفظ نہیں بولتے۔