"MABC" (space) message & send to 7575

آپ سے یہ امید نہ تھی !

مجھے بڑے دکھ اور افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ ماہ کو برمنگھم میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جھنڈے اور ایجنڈے کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی شخصیت نے بھی پاکستان دشمنوں کا ساتھ دیا‘ جسے لاکھ اندرونی مخالفت کے با وجود پاکستان اور اس کے اداروں نے پوری عزت و تکریم دی۔ جی ہاں! میرا اشارہ بین الاقوامی طور پر تعلیم کیلئے اپنی جان تک کی قربانی سے دریغ نہ کرنے والی ملالہ یوسف زئی سے ہے کہ بد قسمتی سے ان کے والد گرامی ضیا الدین یوسف زئی نے 23 جون کو شام 6 بجے سے8 بجے تک برمنگھم میں منظور پشتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نام پر انتہا پسند افغانوں اور بھارت کی پٹھان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تقریر میں سوات کے ملا فضل اﷲ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حساس اداروںکو علم تھا کہ ملا فضل اللہ دہشت گرد ہے اور وہ 'ملا ریڈیو ‘کے نام سے اپنا ریڈیو آپریٹ کرتا ہے اور معصوم شہریوں کو قتل کر رہا ہے‘ لیکن پھر بھی اسے ریاست نے تحفظ دیئے رکھا‘جو کسی حد تک قوم کے ساتھ زیادتی تھی۔
یہ اس میڈیا اور عسکری ادارے کے حوالے سے احسان فراموشی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہی یہ وہ دو ادارے تھے‘ جنہوں نے ملا فضل اﷲ کی جانب سے ملنے والی خوفناک دھمکیوں کے با وجود ملالہ یوسف زئی کا پل پل ساتھ دیا اور اس جرم کی پاداش میں میڈیا کے کئی ورکروں کو بے دردی سے شہید بھی کیا گیا۔اب مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ خیال آنے لگا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب شوشے قوم پرست رہنماکے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر اور باہر منظور پشتین کی آڑ میں پٹھانوں کے جذبات کو پاکستان کے خلاف مسلسل ا بھارنے کیلئے کئے جا رہے ہوں۔ جس قدر رازداری ان دونوں کے مابین چل رہی ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر افواج پاکستان اور مملکت ِپاکستان کے خلاف سازشوںاور ناپاک منصوبوں پر اس وقت بڑی تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے‘ وہ گزشتہ دنوں 155 سے زائد پاکستانیوں کی شہادتوں کی صورت میں ہمارے سامنے آ چکاہے۔ غور کیجئے کہ نشانہ وہ افراد بنائے گئے ‘ جو افواج پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کے سزا وار سمجھے گئے‘ اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نعرے اور جذبے کی تکلیف سوائے بھارت اور این ڈی ایس کے کسی اور کو نہیں ہو سکتی ۔ 
یورپ اور لندن میں مذکورہ موومنٹ کے حق میں جو مظاہرے کئے گئے ‘ان کے روح ِرواں کوئی اور نہیں‘ بلکہ محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے باا ثر اور سرکردہ لوگ تھے ۔یورپ اور لندن میں ہمارے ہائی کمشنر اور سفارت کاروں کے پاس اگر وقت ہے اور وہ ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں کے تانوں بانوں کا سراغ لگانے کیلئے وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر اپنی حقیقی سفارتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے معلومات معلومات حاصل کریں‘ تو پتہ چلے گا کہ مذکورہ موومنٹ کے کن کن لوگوں کے اسرائیلی اور بھارتی سفارت کاروں سے یارانے ہیں‘ اورکون ان کی راتوں کی محفلوں میں ان کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ایک قوم پرست سیاسی جماعت کے یورپ میں موجود لوگ اور افغانستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے او رپھر یہاں سے اپنے شنا ختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر یورپ کی شہریت لینے والے افغانوں کے ساتھ مہران مری‘ براہمداغ بگٹی کو اکثر ایک ساتھ دیکھا گیا ہے۔ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول ایف سی کو دیکھنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا کہ اچکزئی کے لوگ افغانستان سے این ڈی ایس اور را کے بھیجے جانے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو رہنمائی کے علاوہ سیف ہائوس کی سہولتیںبھی دے رہے ہوں؟ اگر یورپ اور لندن میں یہ پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی کر سکتے ہیں‘ تو یہاں دہشت گردی بھی کروا سکتے ہیں اور وہ بھی ہارون بلور اور سراج رئیسانی جیسے لوگوں کے خلاف ‘جو افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے‘ جن کے اندر اور باہر پاکستان زندہ باد کے علا وہ او رکوئی جذبہ نہیں تھا۔
یورپ‘ امریکہ اور برطانیہ میں پشتونوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے‘ لیکن ان میں سے سوائے گنتی کے چند لوگوں کے باقی پاکستان کیلئے بے انتہا محبت وعقیدت ا ور درد رکھتے ہیں اور مقام شکر ہے کہ ان میں سے بہت سے پاکستانی پٹھانوں نے پی ٹی ایم کے حامیوں سے اپنے رستے جدا کر لیے ہیں۔ایسے تمام پاکستانیوں کو اپنی آنکھیں اب کھلی رکھنا ہوں گی اور ان تمام ملک دشمنوں کے ساتھ دوستی اور تعلقات رکھنے والوں پر نگاہ رکھنا ہو گی‘اسی طرح ہر پاکستانی کو دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کرنا ہو گی‘ کیونکہ دشمن زیا دہ ہیں اور ملک کے وسائل بہت ہی کم۔ آج سے ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہے‘ اپنے قومی اداروں کا دست و ابزو بن جانا چاہیے۔
کوئٹہ کے سابق ڈپٹی کمشنر شکیل احمد‘ جو آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں ‘ کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر محمود خان اچکزئی نے آج سے کوئی بیس برس قبل ہزاروں کی تعداد میں افغانوں کے جعلی شنا ختی کارڈ بنوا کر ان میں سے کسی کو پولیس‘ لیویز اور دوسرے محکموں میں بھرتی کرواتے تھے۔ یہ سب کچھ وہ حکومتی مدد کے ساتھ سینہ زوری سے کرواتا تھا۔ اور یہ بات بلوچستان کی اس وقت کی تمام انتظامیہ کے علم میں تھی‘ اس لئے شک ابھرتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کسی ایسے شخص کی وساطت سے کی جا رہی ہو‘ جس کی جانب کسی کا شک جا ہی نہ سکتا ہو۔ ایف سی کو دیکھنا ہو گا کہ ان میں سے کون کون منشیات کے بین الاقوامی سوداگروں کے پے رول پر ہے۔ 
اگر کسی کی سیا سی رفاقت کی وجہ سے اچکزئی کے بارے لکھے گئے الفاظ سے دل آزاری ہو رہی ہو تو یہ اس کی اپنی ذات کیلئے ہے‘ لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے کوئی بھی محب وطن '' افغانیہ ‘‘ کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ اس لئے وہ شخص جو ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ پنجاب کے دو اضلاع ؛میانوالی اور اٹک کو شامل کرتے ہوئے بلوچستان کے پختون اورکے پی کے اور فاٹا کے پشتونوں پر مشتمل ایک نیا ملک افغانیہ کے نام سے قائم کرے گااور ایسا شخص میاں نواز شریف کا بحیثیت وزیر اعظم مشیر خاص ہو تو مجھے بتایئے کہ ان کا احترام کیسے کیا جائے؟ میں ایسے شخص کو کس طرح سپورٹ کروں؟۔میں ایسے شخص کے حق میں تعریفی مضامین کس طرح لکھو ں ‘جو میرے ملک کی سالمیت کا دشمن ہے۔
میرے ملک کے وہ میڈیا ہائوسزاور اینکرز‘ جو لندن کے پر تعیش دوروں اور ڈالروں کی بھر مار کے عوض افغانیہ نام کے نئے ملک کیلئے ایسے رہنماؤں کی مدد کر تے ہوئے اپنے ہی دھرتی کے جسم کو کاٹنے والوں کے ہاتھ چوم رہے ہیں ۔ہم سب ان کے خلاف شمشیر برہنہ کیوں نہ بنیں؟
آخر میں۔ضیا الدین یوسف زئی سے صرف اتنا کہنا ہے کہ افسوس‘ آپ سے ہمیں یہ امید ہر گز نہ تھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں