"MABC" (space) message & send to 7575

پونا ایٹمی سینٹر: سات دن‘ دو دھماکے

بھارتی شہر پونا میں میزائل تیار کرنے والے سینٹر Premier High Energy Material Research laboratory (HERML) میں گزشتہ مہینے (بارہ جون سے بیس جون کے دوران‘ یعنی صرف سات دن کے اندر اندر) دو خوفناک دھماکے ہوئے۔ ایک دھماکہ بروز منگل ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہوا‘ جس میں ایک سینئر اہل کار لکشمی کانت سناون ہلاک اور یوگیش کرتیکار شدید زخمی ہو گیا۔ اس دھماکے کی آواز چونکہ دور دور تک سنی گئی‘ اس لئے جلد ہی میڈیا کو اس کی خبر ہو گئی‘ لیکن چونکہ کسی میڈیا والے کو لیبارٹری کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی‘ اس لئے فوری طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا اور یہ کیسے ہوا؟
کئی سوالات ہیں‘ جن کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے حساس ترین سکیورٹی زون میں واقع ہونے کے باوجود ہرمل لیبارٹری میں یہ دھماکہ کیا کسی فنی خرابی کی وجہ سے ہوا یا یہ کسی انجینئر کی جانب سے کی گئی غفلت کا نتیجہ تھا یا پھر کسی تخریبی کارروائی کا نتیجہ تھا؟ اس دھماکے کے بعد جب وہاں سے ایمبولینسیں ایک ایک کرکے تیز رفتاری سے نکلنے لگیں‘ تو سب کو دھماکے کی شدید نوعیت کا احساس ہونے لگا؛ تاہم میڈیا کو بتایا گیا کہ کوئی زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ہرمل کے ڈائریکٹر سبا نند رائو نے لیبارٹری کی حدود سے باہر میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے مختصر طور پر بس اتنا کہا:
It was not a big blast as such a composite mixture ignited in a fire.
دوسری طرف لیبارٹری کے ورکروں کا کہنا تھا کہ کچھ اہلکار دھماکہ خیز مواد کو چھوٹے چھوٹے سیمپلز میں کاٹ رہے تھے کہ اچانک یہ دھماکہ ہو گیا۔ اگر ایسا ہی ہوا تھا‘ تو یقینا پونا کی اس لیبارٹری میں وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا رہی تھیں‘ جو اختیار کی جانی چاہئے تھیں‘ نہ ہی اس کے اہم ترین حصوں میں تجربہ کار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ اگر ایسا نہیں‘ تو پھر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ تخریبی کارروائی جان بوجھ کر کی گئی تھی‘ لیکن وہ لوگ اس کارروائی میں کوئی بڑی تباہی پھیلانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بہرحال اگر کسی وقت تخریب کاروں کی کوشش کامیاب ہو گئی‘ تو اس سے پھیلنے والی تباہی کا اندازہ مذکورہ کارروائی سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
پونا کے قریب واقع بھارت کا ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی کا ریسرچ سینٹر ہرمل‘ جسے اب ایک وسیع ترین لیبارٹری کی شکل دے دی گئی ہے‘ بھارت کے ایٹمی اثاثوں کی تیاری کیلئے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اب بات کرتے ہیں دوسرے دھماکے کی‘ جو بھارت کی پریمیئر ہائی انرجی میٹریل ریسرچ لیبارٹری میں بیس جون کو ہوا‘ جبکہ 2009ء میں بھی یہاں ہونے والے ایک دھماکے میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ بیس جون کو ہونے والے مذکورہ دھماکے سے کوئی ایک ہفتہ قبل پونا کی اسی پریمیئر لیبارٹری میں ہونے والے دھماکے کو بھی میڈیا سے چھپایا گیا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے اپنے ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اسے سینسر کر دیا۔ بھارت کے نیشنلسٹ میڈیا کو اس پر داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے نیشنل سکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے منہ بند رکھے۔ ان کی جگہ‘ اگر اس قسم کا کوئی واقعہ پاکستان میں ہوا ہوتا‘ تو سب نے لٹھ لے کر سکیورٹی اداروں کے پیچھے پڑ جانا تھا۔ کمال ہے کہ اگر بھارت کے میڈیا نے خاموشی اختیار کئے رکھی تو وہاں کے کسی سیاستدان نے بھی زبان نہیں کھولی۔ اتنی احتیاط کے بعد اس بابت کوئی خبر یا بات باہر نہ نکلتی‘ لیکن ہوا یہ کہ پونا کی اس ریسرچ لیبارٹری میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے 8 جونیئر اور سینئر سائنسدانوں کے خاندانوں کے ذریعے یہ بات سینہ بہ سینہ پھیل گئی‘ جس پر پونا لیبارٹری کے پبلک ریلیشن آفیسر منیش بھردواج نے صرف اتنا بیان جاری کیا کہ ''یہ دھماکہ ریسرچ لیبارٹری کے Pyro Section میں ہوا تھا‘‘ لیکن منیش نے بار بار سوالات کئے جانے کے باوجود یہ نہیں بتایا کہ اس دھماکے کی وجہ کیا تھی اور جو لوگ زخمی ہوئے‘ ان پر کیا اثرات ہوئے اور ان کی حالت اس وقت کیا ہے‘ کیونکہ میڈیا یا کسی بھی غیر متعلقہ فرد کو ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی؛ حتیٰ کہ ان کے خاندانوں کے افراد کو بھی قریب نہیں جانے دیا گیا اور ہسپتال کا عملہ بھی ایک مخصوص ماسک پہننے کے بعد ہی وہاں جاتا ہوا مشاہدے میں آتا رہا۔
دنیا بھر کے میڈیا کو دیکھ لیجئے‘ ان کی تان ہر وقت اسی پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔ ماضی میں وہ اس بات کو لے کر چلّاتے رہے کہ یہ کسی بھی وقت القاعدہ کے ہاتھ لگ سکتے ہیں‘ تو آج ان کا موقف یہ ہے کہ یہ طالبان اور داعش کے ہاتھ لگ سکتے ہیں‘ جو امریکہ سمیت مغربی دنیا کے لئے سخت خطرے کا باعث بن سکتا ہے‘ اس لئے پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں دے دینا چاہیے۔ اس قسم کی نہ جانے کتنی خرافات‘ کسی عام قسم کے جریدے میں نہیں‘ بلکہ نیو یارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ فنانشل ٹائمز اور گارڈین کئی اہم جرائد کی شہ سرخیاں بنتی رہی ہیں‘ لیکن بھارت کے پونا میں واقع ایٹمی میزائل تیار کرنے والی اس حساس ترین ریسرچ لیبارٹری میں بار بار ہونے والے دھماکوں‘ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات اور ماحولیاتی اثرات پر ان اخبارات و جرائد میں سے کسی ایک نے ایک لفظ لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
30 ستمبر 2017ء کو بھی پونا کی اس پریمیئر ہائی انرجی ریسرچ لیبارٹری کی چھت ایک خوفناک دھماکے سے اڑ گئی تھی۔ یہ اس قدر خوفناک دھماکہ تھا کہ اس سے ارد گرد کی عمارات بھی متاثر ہوئی تھیں۔ جب اس حساس ترین لیبارٹری میں ہونے والی اس شدید تباہی پر بھارت بھر میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تو میڈیا کو بتایا گیا کہ یہ دھماکہ ایک الگ تھلگ عمارت میں ریموٹ کنٹرول اختلاط کے عمل کی وجہ سے ہوا۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا گیا کہ چونکہ مکسر روم میں کوئی موجود نہیں تھا‘ اس لئے جانی نقصان نہیں ہوا‘ حالانکہ یہ سفید جھوٹ تھا‘ کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ماہر انجینئرز اور عملے کے بغیر خود کار طریقے سے یہ عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔ اب تک حاصل ہونے والی رپورٹس کے مطابق‘ اس ہائی انرجی ریسرچ لیبارٹری میں بہت سے ورکرز کو ایک ٹھیکیدار کے ذریعے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا‘ جن میں دو ایسے ورکرز بھی شامل ہیں‘ جو اس دھماکے کی وجہ سے ابھی تک اپنے ہوش و حواس میں نہیں آ سکے اور جن کے متعلق ان کے خاندان کے افراد کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی قسم کی ''سیفٹی ٹریننگ‘‘ بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس سے دنیا بخوبی اندازہ کر سکتی ہے کہ بھارت بھر میں اس قدر حساس اور اہم ترین کاموں کے لئے کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ لیبارٹری میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پونا میں ہونے والے اس دھماکے بارے انکشاف کرتے ہوئے انڈین ٹربیون کے نمائندے کو بتایا کہ یہ دھماکہ اس وقت ہوا‘ جب ایک ورک چارج ورکر جو اس وقت ہسپتال میں ہے‘ ایک کیمیکل والی بوتل دینے گیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کے دفاعی اور ایٹمی میزائل تیار کرنے والے ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کو اس کی تیاریوں میں اہم کردار ادا کنے والی پونا کی یہ لیبارٹری نینی تال میں 1908ء میں قائم کی گئی تھی۔ اس وقت تک اس لیبارٹری کو ''کیمیکل ایگزامینر آفس‘‘ کا نام دیا تھا‘ لیکن1960ء میں اس کی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اسے Explosives Research and development Laboratory کا نام دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسے پونا کے قریبی علاقے PASHAN منتقل کر دیا تھا‘ اور پھر 1963ء میں اسے DRDO کے کنٹرول میں دیتے ہوئے مارچ 1995ء میں اسے ہرمل میں ہائی انرجی میٹریل ریسرچ لیبارٹری میں تبدیل کرتے ہوئے‘ یہاں میزائلوں کی تیاری شروع کر دی گئی تھی‘ جو تا حال جاری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں