"MABC" (space) message & send to 7575

یہ کیا ہو رہا ہے ؟

جنت نظیر مری کو سیا حوں کے لیے پھر سے پر کشش بنانے اور سیر و تفریح کے لیے وہاں جانے کی خواہشمند فیملیوں کواپنی عزت اور وقار کے تحفظ کا بھر پور احساس دلانے کے لیے مری کو سیا سی انتظامیہ اور پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے رینجرز کے حوالے کرنا ہو گا‘‘۔ سوشل میڈیا پر مری‘ دریائے نیلم‘ بھور بن‘ سنی بینک‘ مال روڈ کشمیر پوائنٹ اور دوسری جگہوں میں ملک کے مختلف حصوں سے آنے والی فیملیوں کو ہاکیوں اور ڈنڈوں سے مارتے ہوئے‘ شراب کے نشے میں دھت ہو کر سیاحوں کی گاڑیوں کی چھتوں پر بے ہودہ ڈانس کی ویڈیوز ہر سو دیکھی جا رہی ہیں‘ جس سے لگتا ہے کہ مری جانے والا ہر خاندان اپنے جسموں پر گہرے زخم لے کر واپس آ رہا ہے۔کل تک تو ایسا نہیں تھا یہ چند ماہ سے مری کے میزبانوں کو کیا ہو گیا ہے؟کہا جا رہا ہے کہ کچھ عرصے سے ملکہ کوہسار مری جانے والے سیا حوں کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں ‘اس وقت تک مری اور بھوربن جانے والے سینکڑوں سیاح وہاں کے ٹیکسی ڈرائیوروں‘ ہوٹل مالکان ‘ جگہ جگہ بنائے بس سٹینڈز کے ہاتھوں اس بری طرح پٹ رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لگتا ہی نہیں کہ مری پہنچنے والے دور دراز سے آئے ہوئے لوگ اپنے ملک میں آئے ہیں یا انہیں کسی دشمن ملک سے پالا پڑ رہا ہے۔ مری کی پولیس اور انتظامیہ ہوٹل مالکان‘ بس اور ٹیکسی سٹینڈزکے ٹھیکیداروں‘ قبضہ گروپوں ان کے ملازمین اور ایجنٹوں کے سامنے اس طرح بے بس کھڑی رہتی ہے‘ لگتا ہی نہیں کہ انہوں نے پولیس کی وردی پہنی ہوئی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ کسی سیا سی خانوادے کے گارڈز ہیں۔ 
کسی بھی جگہ گاڑی کھڑی کریں تو جھٹ سے دو چار لوگ آجاتے ہیں کہ یہ سڑک ہماری ہے یہاں گاڑی کھڑی کرنے کے 200 روپے لئے جائیں گے۔ کسی ہوٹل جائیں تو اس کے قریب ٹال پلازہ پر پچاس روپے لیں گے اور اگر اس ٹال پلازہ کے دائیں یا بائیں گاڑی کھڑی کرنے کی کوشش کریں گے تو چند غنڈے دھمکیاں دیں گے کہ پہلے دو سو روپے ادا کرو ورنہ اپنی گاڑی لے جائو‘ اسی طرح اگر دریائے نیلم کی طرف جانے کا ارادہ کریں تو جیسے ہی وہاں کوئی فیملی یا گروپ اپنی گاڑی پر پہنچتا ہے تو سب سے پہلے دس بارہ لوگ گاڑی کو گھیر لیں گے اور پھر آپ کو کھڑی کرنے کی اجا زت اس شرط پر دیتے ہیں کہ آپ لوگ کھانا یا چائے وغیرہ ان کے ہوٹل سے کھائیں‘ پئیں گے۔ اگر آپ نے ان کے ہوٹل سے کھانا نہیں کھایا تو جیسے ہی آپ دریا کے اندر پہنچتے ہیں تو پیچھے سے یہ لوگ آپ کی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دیں گے۔اب اندازہ کیجئے کہ دریائے نیلم کا کنارہ اور دور دور تک کہیں بھی پنکچر لگانے والے یا ٹائروں میں ہوا بھر نے کی دوکان نہیں اور آپ فیملی کے ساتھ ہیں‘ بتایئے آپ کا کیا حال ہو گا۔ جہلم سے آئی ہوئی ایسی ہی ایک فیملی جن کے ساتھ خواتین اور بچوں کی تعداد زیا دہ تھی ‘وہ کھانا اپنے ساتھ لے کر آئے ‘ان کی وین کے ٹائروں کی ہوا نکال دی گئی‘ جیسے جیسے شام ہو رہی تھی یہ سب پریشان تھے کہ واپس کیسے جائیں؟ ان بے چاروں نے بڑی مشکل سے دونوں ٹائر اتارے اور اپنی خواتین کو وہاں چھوڑ کر کسی ویگن یا کرائے کی گاڑی پر دیول شریف پہنچے اور وہاں سے ٹائروں میں ہو ابھروا کر واپس آئے۔
اب ذرا دریائے نیلم پر ایک سابق وزیراعظم کے رشتہ داروں کے قبضہ کر کے بنائے ہوئے کچے ہوٹلوں پر تیار کئے جانے والے کھانوں کے نرخ ملاحظہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی پنج ستارہ ہوٹل آئے ہیں۔ ایک کلو مچھلی ( جو تین پائو سے زیا دہ نہیں ہوتی) پچیس سو روپے‘ سیون اپ ڈیڑھ لیٹر ایک سو پچاس روپے‘ رائتہ ایک سو اسی روپے‘ ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل ایک سو پچاس روپے‘ برائلر مرغ تین پائو پندرہ سو روپے اور اگر آپ نے پانچ ہزار کا کھانا منگوایا ہے تو بل کے ساتھ آپ کو20 فیصد کے حساب سے '' سروس چارجز‘‘ علیحدہ سے ادا کرنا پڑتے ہیں اور اگر آپ سروس چارجز دینے سے انکار کریں گے تو صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کے بچوں کو بھی سب کے سامنے زدو کوب کیا جائے گااور بچوں‘ عورتوں کو مارتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں جائو جس کو مرضی بتا ئو ہم عبا سی ہیں۔اس سے ذرا آگے آزاد کشمیر میں ایسی صورت حال نہیں اور مری سے جیسے ہی باڑیاں‘ کے پی کے حدود میں داخل ہوں تو ہر سیاح سکون کا سانس لیتا ہے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ کل کی مہذب اور پر سکون ملکہ کوہسار مری کو آج کسی کی نظر لگ گئی ہے کہ ایک طرف کل تک چپے چپے پر پھیلے ہوئے اس کے پائن کے درخت اب کئی کئی فٹ کے فاصلے تک غائب ہو گئے ہیں‘ وہیں مری کے رہنے والوں میں جذبہ میزبانی ناپید ہو کر رہ گیا ہے‘ میرے جیسے لوگ جو60 کی دہائی سے وہاں کی پر سکون فضا میں چند دن گذارکر کئی کئی ہفتے اس کے سحر میں سرشار رہا کرتے تھے‘ اب مری کا نام سن کر اپنے دائیں بائیں بیٹھی ہوئی فیملی کی عزت اور وقار کا تصور کرتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا نا شروع ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ مری میں پولیس ہے ہی نہیں‘ اگر ہے تو یہاں پر صرف اندھے گونگے اور بہروں کوہی پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ پورا مال روڈ دیکھ رہا ہے کہ شریف گھریلو عورتوں کے چہروں پر طمانچے مارے جا رہے ہیں‘ ان کی چیخوں سے زمین و آسمان کانپ رہے ہیں‘ لیکن پولیس کسی دیوار کے کونے میں ڈری سہمی دبکی رہتی ہے ۔کیا مری میں ان کے لیے کوئی قانون نہیں‘ کیا یہ کوئی علاقہ غیر ہے جہاں پاکستان کا قانون نافذ نہیں ہو سکتا؟ مری سے زخم کھا کر واپس آنے والے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی ان غنڈوں اور بدمعاشوں کو روکنے والا ہے؟کیا ملک کا چیف جسٹس رینجرز کو مری کا کنٹرول دینے کا حکم دے گا؟غضب خدا کا ملٹری پولیس کے سامنے پاکستان بھر سے آئے ہوئے شریف شہریوں کو مارا گیا اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے؟
مری کی مال روڈ اور اس کے ارد گرد قائم دوکانوں اور چھوٹے بڑے ہوٹلوں کے مالکان اور ان میں کام کرنے والے ہر قسم کے ملازمین میں بد تہذیبی کوٹ کوٹ کر کیوں بھر چکی ہے؟۔جب اسلامی لشکر کو کفار سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا تو واضح الفاظ میں ہدایات جاری فرمائیں کہ دشمن کے بچوں ‘بوڑھوں اور خواتین کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے اور راستے میں آنے والے درختوں کو بھی کوئی نقصان مت پہنچائے لیکن مری میںاپنے ہی ملک کے کونے کونے سے آنے والے سیاحوں کے ساتھ اس طرح گھٹیا سلوک کیا جا رہا ہے اور خواتین کے ساتھ بد ترین وحشیانہ اور شرمناک سلوک کیا جا رہا ہے کہ دیکھ کر شرم و حیا سے بھری ہوئی ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کہ یہ مری نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی کوئی وادی ہے جہاں راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسند مسلم خواتین کے لباس تار تار کر رہے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں