ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے سامنے سندھ کی مردم شماری کی روشنی میں کراچی کی آبادی کا درست تعین‘ سر فہرست نکات میں شامل ہے۔ کراچی کی آبادی کا درست تعین ایم کیو ایم ہی نہیں‘ بلکہ پورے سندھ اور پاکستان کا مسئلہ بھی ہے‘ جسے اب حل کرنا ناگزیر ہے۔ مردم شماری کسی بھی معاشرے اور ریا ست کی کارکردگی اور اس کی عوام کی فلاح و بہبود کا میزانیہ ہوتی ہے‘ جس کے مطابق وسائل اور اختیارات تقسیم کئے جاتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری1951ء میں‘دوسری61 19ء میں‘ تیسری72 19ء میں‘چوتھی81 19ء میں‘پانچویں مردم شماری کو جسے قانونی طور پر 1991ء میں ہو ہونا چاہئے تھا‘ وہ مارچ1998ء میں‘ پھر 2007ء اور آخری دفعہ گزشتہ برس2017ء میں کیا گیا۔1998ء کی مردم شماری کے مطا بق کراچی کے چار اضلاع اور ملیر کی کل آبادی98 لاکھ اورچھپن ہزار تھی‘ جبکہ 2017 ء میں یہ آبادی ایک کروڑ 60لاکھ 51ہزار ہو جاتی ہے ۔
عقل حیران رہ جاتی ہے کہ پورے پاکستان کی آبادی میں تو کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے‘ لیکن کراچی کی آبادی 20برس بعد 2017ء میں صرف ایک کروڑ 60 لاکھ51ہزار سامنے لائی جاتی ہے‘ جبکہ اس دوران پاکستان بھر سے ہزاروں خاندان کراچی میں شفٹ ہو چکے ہیں۔ جعلی ڈگری اور دستاویز ات سے تو کوئی ایک فرد ملازمت یا کوئی گھر حاصل کر لیتا ہے‘ لیکن ایک جعلی مردم شما ری سے ہزاروں لوگ ملازمت کے حصول یا رہائشی سہولیات سے محروم کر دیئے جاتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ2005ء میں مشرف کی مدد سے ایم کیو ایم نے حیدر آباد کو چار اضلاع میں تقسیم کروا کر سیا سی فائدہ حاصل کیا‘ لیکن کیا پیپلز پارٹی نے کبھی سوچا ہے کہ 1971ء سے اپنے پہلے اقتدار سے اب تک اس کی من مانیوں نے سندھ کی شہری آبادی کے ساتھ سوتیلاپن کیوں اپنایا ہوا ہے؟پیپلز پارٹی نے1972ء کی مردم شماری میں جعل سازی کرتے ہوئے سندھ کی شہری آبادی کی انتخابی نشستیں کیوں کم کیں؟ کیا یہ ان کا مجرمانہ عمل نہیں تھا؟ کیا یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے کراچی کے بیٹوں‘ بیٹیوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی نہیں؟ آخر کراچی میں پانی‘ بجلی‘ صحت عامہ‘ تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے وسائل کی تخصیص کا پیمانہ کس نے بگاڑا؟
اُس وقت کے ہوم سیکرٹری سندھ محمد خان جونیجو کا تحریری بیان آج بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے‘ جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی65لاکھ تھی‘ جسے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم سے کاغذات میں35لاکھ کر دیا گیا‘ تاکہ کراچی سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کم رکھی جائے۔اس وقت جعل سازی کرتے ہوئے کراچی کی35 لاکھ کی آبادی پر قومی اسمبلی کی13اور صوبائی اسمبلی کی25نشستیںمختص کی گئیں ‘جبکہ کراچی کی اصل آبادی اس وقت65لاکھ لکھ دی جاتی‘ تو 1972ء میںکراچی کی قومی اسمبلی کی21اور صوبائی اسمبلی کی45نشستیں مختص کی جانی تھیں۔
آج نبیل گبول ‘ شیری رحمان ‘مولا بخش چانڈیو ‘ سعید غنی سمیت مراد علی شاہ فرماتے ہیں کہ حیدر آباد کی موجودہ ضلعی صورتحال سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہوا‘ تو1972ء سے لے کر2005ء تک ان کی جعل سازیوں سے ہونے والا نقصان کن کو ہوا؟ آج اس نقصان کی سزا کسے دی جانے چاہئے؟یہ کوئی چھوٹا سا جرم نہیں‘ بلکہ ایک گھنائونا جرم ہے‘ جس سے کئی لاکھ لوگوں کو ان کے بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھا گیا۔ افسوس یہ ہے کہ1981ء کی مردم شماری میں‘ 1972کی مردم شماری کو ہی بنیاد بنا کر محض خانہ پری کی گئی ‘بالکل اسی طرح جیسے واپڈا کے میٹر ریڈر اوسط نکال کر گھر بیٹھے عام صارفین کو ان کے بجلی بل بھیج دیتے تھے۔
اقوام متحدہ کے اصولوں اور پاکستان پلاننگ کمیشن کی رپورٹوں کے مطابق ‘ترقی پذیر ممالک کی دیہی آبادی 30سے35 فیصد اور شہری آبادی میں60 سے 70 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘لیکن1972ء میں پیپلز پارٹی کی مردم شما ری میں بدین کی آبادی میں364فیصد‘دادو کی آبادی میں148فیصد‘ ہالہ کی آبادی میں99فیصد‘ ٹھٹھہ کی آبادی میں70فیصد اور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں72فیصد اضافہ دکھا کر تمام بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔ اس طرح غلط اور جعلی اعدادو شمار دے کر سکھر‘ شکار پور‘ جیکب آباد‘ نواب شاہ‘ خیر پور‘ لاڑکانہ ‘بدین‘ تھر پارکر‘ دادو‘ سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی قومی اور صوبائی نشستوں میں اضافہ کیا گیا ‘اگر مردم شماری میں یہ جعل سازی نہ کی جاتی‘ تو اس وقت اندرون سندھ قومی اسمبلی کی33کی بجائے25اور صوبائی اسمبلی کی72کی بجائے55نشستیں ہوتیں اور اس طرح بالترتیب کراچی میں قومی اسمبلی کی8اور صوبائی اسمبلی کی 17 نشستوں کا اضافہ ہو جاتا۔ درحقیقت یہ وہ نشستیں ہیں ‘جن پر کراچی کا حق تھا ‘جو ان سے جعلی مردم شماری کے اعداد و شمار دیتے ہوئے چھین لی گئی۔ مقصد صرف یہی تھا کہ کراچی اور حیدر آباد کی نشستیں اس قدر نہ بڑھ جائیں کہ اندرون سندھ سے پی پی پی کے مخالف کسی دھڑے یا الائنس سے اتحاد کرتے ہوئے کراچی‘ حیدر آباد کا مہاجر کہہ لیں یا اُردو بولنے والا وزیر اعلیٰ نہ بن جائے۔
1981ء کی مردم شما ری میں سکھر ڈویژن کی آبادی65لاکھ اور کراچی کی آبادی53لاکھ ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر کراچی والوں کے ساتھ ہاتھ کیا گیا۔حکومت نے جو کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا ‘اس میں ساٹھ فیصد دیہی آبادی کے مفروضے کی بنیاد پر وسائل کو مختص کرتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو 20فیصد سے زیادہ حق نہیں دیا‘ اگر اس وقت مردم شما ری صحیح کی جاتی تو شہری آبادی کے لئے ساٹھ فیصد ملازمتیں اور ساٹھ فیصد ترقیاتی وسائل مہیا کرنے پڑتے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت کراچی کے شہریوں سے مذہب کے نام ووٹ لینے والے تو تھے‘ لیکن ان کو حقوق دلانے والاان کے لئے آواز اٹھانے والا ان کی خاطر جیل جانے والا کوئی نہیں تھا اور یہ کام متحدہ قومی موومنٹ نے کیا ۔آج پیپلز پارٹی کو2005ء سے2010ء تک حیدر آباد کو چار اضلاع میں تقسیم کرنے کا دکھ ہے‘ لیکن1972سے آج تک جعلی مردم شما ری کی وجہ سے قومی اور صوبائی نشستوں کی بنیاد پر کراچی کو پہنچنے والا نقصان کون پورا کرے گا؟ اس جعل سازی سے حا صل کئے ہوئے اقتدار کا حساب کون دے گا؟
پی پی پی کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ1981ء کی مردم شما ری میں کراچی کی آبادی میں دس سالہ اضافہ 45.18فیصد دکھایا‘ جبکہ گوجرانوالہ میں اضافہ84.26‘پشاور میں103.30فیصد دکھایا گیا ؛حالانکہ کراچی کے مقابلہ میں یہ شہر صنعت تجارت سیر و سیا حت ملازمت ا و رروزگار کے معاملہ میں بالکل چھوٹے مراکز ہیں۔ 1985ء کے انتخابات میں 1972ء کی مردم شماری کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں مختص کی گئی تھیں؛ حالانکہ آئین کے تحت1981ء کی مردم شماری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے‘ بلکہ سابقہ دور کی جعلسازیاں ختم کر کے اسمبلی کی نشستیں مختص کی جانی چاہئے تھیں۔پیپلز پارٹی کے ہاتھوں مردم شماری کی جادو گری سے کراچی ڈویژن تیس سال تک اپنی سیا سی حیثیت حاصل نہ کر سکا۔ایسا نہ کر کے کراچی کی شہری آبادی کو60فیصد ملازمتوںاور60فیصد ترقیاتی وسائل سے کن لوگوں نے محروم کیا؟اس کا حساب کون دے گا؟
مذکورہ سوال کا جواب پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کو ایک ساتھ مل کر خلوص دل سے ڈھونڈتے ہوئے ان مجرموں کو سامنے لانا ہو گا‘ جنہوں نے کراچی ‘حیدر آباد سمیت سندھ کے اربن علا قوں کے نو جوانوں اور خاندانوں کی حق تلفیاں کیں۔