"MABC" (space) message & send to 7575

شکست خوردہ ٹولہ

25 جولائی2018ء کے عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے شکست خودرہ سیا ستدانوں؛ امیر مقام‘ محمود خان اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ سرداراویس‘ جمال لغاری ‘ یوسف رضا گیلانی‘ سراج الحق‘ شاہد خاقان عبا سی‘ عابد شیر علی ‘ آفتاب شیر پائو ودیگر سے نا جانے کتنے لوگ کل تک‘ جن کے جوتوں کی دھمک سے بڑے بڑے افسران کے دل دہل کر رہ جاتے تھے‘ آج پارلیمنٹ کی عمارت کی جانب حسرت سے دیکھتے اور باآوازِ بلند عمران خان کو کوستے ہوئے بڑی حسرت سے گزر جاتے ہوں گے۔
8 اگست2018ء کو چیف الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر کئی دہائیوںسے اقتدار کے مزے لوٹنے والے یہ شکست خوردہ لیڈران احتجاجی ریلی لئے جب ڈی چوک کے قریب پہنچے اور سامنے ہی نظر آنے والی پارلیمنٹ کی عمارت اور اس کے دائیں ہاتھ پر منسٹر انکلیو کے بڑے بڑے گھروں کی چمنیوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو ئوں کی مہک ‘ جب ان تک پہنچی ‘تو ان کی حالت دیدنی تھی ۔ شکست کا زخم اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ مندمل ہونے میں نہیں آ تا ‘لہٰذا شکست خوردہ ٹولے کے بارے میں یہ سنا گیا ہے کہ یہ شکست خوردہ ٹولہ اپنے اپنے سر پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے اور اس وقت کو کوس رہا ہے کہ انتخابات2018ء میں ہم سب عمران خان کے مقابلے میں ایک کیوں نہ ہوئے ؟!۔
یہ دس بارہ اونچے عماموں والے لیڈران‘ جو دھاندلی کی گردان کو دہراتے ہوئے ‘ دوہرے ہوتے جا رہے ہیں‘ ایک ایک کر کے اگر اپنے انتخابی نتائج دیکھ لیں‘ تو ہو سکتا ہے کہ یہ شکست خوردہ ٹولہ دھاندلی کا شور مچانا بند کر دے۔ ذرا ‘ این اے35 کے انتخابی نتائج‘ فارم47 کے مطا بق دیکھیے‘ جہاں عمران خان اور اکرم خان درانی سمیت کل12 امیدوار وں نے حصہ لیا ۔ان میں پی پی پی کی سیدہ یاسمین صفدر نے9,173 ووٹ حاصل کئے ‘جنہیں زرداری صاحب نے صرف اس لئے ٹکٹ دیا تھا کہ ان کے ووٹرز نے ایم ایم اے کے امیدوار اکرم درانی کو اپنے فرقے سے ہٹ کر ووٹ نہیں دینے تھے اور یہ ووٹ عمران خان کو مل سکتے تھے۔ اس حلقے سے ولی خان گروپ نے اپنا امیدوار سامنے لانا مناسب نہ سمجھا ‘جبکہ 8 ہزار کے قریب ووٹ آزاد اور دوسری چھوٹی جماعتیں حاصل کرتی ہیں ۔ عمران خان 113,822 اوراکرم درانی‘ ایم ایم اے سے106,820 حاصل کرتے ہیں‘ جبکہ اس حلقے سے کاسٹ کئے گئے 7,328 ووت مسترد کر دیئے گئے اور ان میں اکثریت عمران خان کے ووٹوں کی ہے۔ یہ وہ حلقہ ہے‘ جس کی نشست عمران خان نے خالی کر دی ہے اور مولانا فضل الرحمن نے ضمنی الیکشن میں اس نشست سے حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے‘ یہاں پر انتہائی دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا ۔
مردان این اے20 کے نتائج سامنے رکھیئے‘ جہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے مجاہد علی78,140 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ‘ جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز5,355‘ ایم ایم اے کے جناب عطا الرحمن28,840 ووٹ‘ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار گل نواز خان38,713 اور پی پی پی کے خواجہ محمد خان ہوتی36,312 ووٹ حاصل کرتے ہیں۔اب فیصلہ کیجئے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کے مقابلے میں ان چار جماعتوں کے امیدوار مجموعی طور پر109,230 ووٹ حاصل کرتے ہوئے‘ پی ٹی آئی سے31 ہزار ووٹ زائد حاصل کرتے ہیں ‘تو بتایئے یہاں پر دھاندلی کیسے ہو گئی ؟مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے علی محمد خان 58,577 اور ان کے مقابلے میں نواز لیگ36625 عوامی نیشنل پارٹی 27104‘ ایم ایم اے 56318 اور پی پی پی 13477‘ جبکہ علی محمد خان58577 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ یہاں سے ان کی مخالف جماعتیں ایک لاکھ تینتیس ہزار ووٹ حاصل کرتی ہیں‘کیا دھاندلی اسے کہا جاتا ہے؟
اب آتے ہیں اسفند یار ولی کے این اے24 کی جانب ‘جہاں سے ان کے ووٹ ہیں59483 ‘جبکہ پی پی پی کے ہیں10462 اور ایم ایم اے 38252‘ جبکہ تحریک ِلبیک کے چھ ہزار اور یہاں سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے فضل خان83493 ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ا ب اندازہ کیجئے کہ اسفند یار خان ولی کے ساتھ دھاندلی کس نے کی؟ پاکستان تحریک انصاف نے یا پی پی پی‘ ایم ایم اے نے؟ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں اس حلقے سے ان تمام بڑی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ جمع کریں ‘تو ان کی کل تعداد114,197 ووٹ بنتی ہے‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کو یہاں سے کل 83493 حاصل ہوتے ہیں‘ یعنی اس کے مقابلے میںیہ سب30 ہزار ووٹ مجموعی طور پر زیا دہ حاصل کرتے ہیں۔
اب آیئے مولانا فضل الرحمن کے حلقہ انتخاب این اے38 اور39 کی جانب۔اول الذکر حلقے سے کل پندرہ امیدواروں نے حصہ لیا ‘ ان میں سے پاکستان تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور81032 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے‘ جبکہ مولانا 45790‘ پی پی پی کے فیصل کریم کنڈی20681 ‘آزاد امیدواروں میں سے وقار احمد نے19113‘محمد علی رضا15128‘سید حسنین محی الدین گیلانی7931 اور باقی چھوٹی جماعتوں نے سترہ ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اب اگر مولانا سمیت چار امیدواروں کے ووٹ جمع کئے جائیں‘تو ایک لاکھ اور دس ہزار تک جا پہنچتے ہیں‘تو حضور یہ دھاندلی کیسے ہو گئی؟این اے39 کے نتائج دیکھئے ‘تومولانا نے52,031اور پاکستان تحریک انصاف نے79,334 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی‘ یہاں سے بھی کل 13 امیدواروں نے حصہ لیا۔ این اے18 سے پاکستان تحریک انصاف کے اسد قیصر80 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے‘ جبکہ ان کے مقابل نواز لیگ‘ ایم ایم اے‘ عوامی نیشنل پارٹی کے مجموعی ووٹ92 ہزار تھے۔
آفتاب شیر پائو‘ این اے23 سے33,561 ‘ ایم ایم اے41 ہزار‘ پی پی پی 14 ہزار اور عوامی نیشنل پارٹی18433 ووٹ لیتی ہے‘ اب ذرا غور کیجئے یہ سب جماعتیں ‘جو دھاندلی کاشور مچا رہی ہیں‘ ان کے کل ایک لاکھ سات ہزار ووٹوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف59371 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرتی ہے۔ اب ولی خان کے زاہد خان‘ جو ٹی وی چینل پر دھاندلی‘ دھاندلی کی رٹ لگائے ہوئے نظر آتے ہیںاور وہ جھوٹ بولتے نہیں تھکتے‘ ان کے حلقہ انتخاب این اے6 لوئر دیر کی جانب چلئے‘ تو یہاں سے پی پی پی‘ ایم ایم اے اور ان کے کل ووٹ ایک لاکھ سات ہزار بنتے ہیں‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے محبوب شاہ63440 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ٹھہرے‘اسے کہتے ہیں؛ کچھ شرم ہوتی ہے‘ کچھ حیا ہوتی ہے۔
جناب سراج الحق (امیر جماعت اسلامی )کے انتخابی حلقوں کے نتائج دیکھیں‘ تو این اے 7لوئر دیر سے ایم ایم اے کے سراج الحق46 ہزار‘ پی پی پی کے شاہد احمد جان دس ہزار‘ عوامی نیشنل پارٹی کے نظیر خان19543 اور نواز لیگ بارہ سو ووٹ حاصل کرتی ہے۔ ان سب کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے بشیر خان 63017 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ۔اب ان کے مقابلے میں باقی جماعتیں مجموعی طور پر77 ہزار ووٹ حاصل کرتی ہیں۔
اپر دیر کی نشست این اے 5 سے ایم ایم اے‘ پی پی پی‘ نواز لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کے مجموعی ووٹ137855‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف66545 ووٹوں سے کامیاب ہوجاتی ہے۔این اے 21 مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے عاطف خان 78876 اور اسفند یار ولی کے حیدر ہوتی78911 ووٹ لے کر صرف 33 ووٹوں سے کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس حلقے سے5790 ووٹ مسترد کئے گئے ۔کیا نتائج بدلنے والوں کیلئے دو تین سو ووٹ مشکل تھے‘ جبکہ اس حلقے کا تجزیہ کرنے والے آخری دم تک عاطف خان کو فیورٹ قرار دیتے رہے۔این اے25 سے پرویز خٹک نے82 ہزار ووٹ حاصل کئے‘ جبکہ ان کے مقابل اے این پی‘ ایم ایم اے‘پی پی پی ‘ نواز لیگ95ہزار مجموعی ووٹ حاصل کرتی ہیں ‘جو پرویز خٹک سے13 ہزار سے بھی زائد ہیں۔
مذکورہ نتائج کو دیکھنے کے بعد ہی تو شکست خوردہ ٹولہ اپنے اپنے سر پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے اور اس وقت کو کوس رہا ہے کہ عمران خان کے مقابلے میں وہ سب ایک کیوں نہ ہوئے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں