اکتوبر 1993ء کے عام انتخابات کے بعدمرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو اورپنجاب میں میاں منظور وٹو اور فیصل صالح حیات مشترکہ حکمران بن چکے تھے۔ ان کے اقتدار سنبھالنے کے دو ماہ بعد سابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے شریف برادران اور ان کے خاندان کے افراد کی سکیورٹی کے لیے حاصل کی گئی تمام سرکاری اور پولیس سکواڈ کی گاڑیاں مع سکیورٹی سٹاف واپس لیا جا چکا تھا‘ جس پر فوری طور پر ان کی سکیورٹی سکواڈ کے لیے دو عدد نئی ڈبل کیبن گاڑیاں خریدی گئیں‘ لیکن ان میں سے کسی کی بھی رجسٹریشن کروانے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ۔
تین ماہ سے بھی زائد عرصہ اسی طرح گزر گیا‘تو ایک دن حاجی صاحب نے کہا: جناب اب چونکہ مرکزاور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور میاں منظور وٹو کا راج ہے‘ اس لئے رات گئے آتے جاتے ہوئے ہمیںیہ کہہ کر روکا جا رہا ہے کہ ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کروا لیں‘ انسپکٹر رینک تک کے افسران تو ہمیں پہچان کر چھوڑ دیتے ہیں‘ لیکن ائیر پورٹ کے اندر آنے جانے کے لیے سختی کر دی ہے اور ایس پی رینک کے افسران جب ہوں ‘ تو روک کر پوچھتے ہیں‘ اور کل رات تو ہمیں وارننگ دی گئی ہے کہ اگر دوبارہ بغیر رجسٹریشن کے سڑکوں پر آئے‘ توڈرائیور اور گاڑیاں ‘تھانوں میں بند کر دی جائیں گی۔
قلعہ گوجر سنگھ میں ایک آٹو پارٹس والے‘ جو پاس ہی کھڑے تھے‘ ان سے کہا گیا کہ وہ کل ہی جا کر ایکسائز کے دفتر سے یہ کام کرائیں ۔دوسرے دن کی شام کو ان صاحب نے بتایا کہ وہ ایکسائز کے دفتر گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک گاڑی پر اتنا خرچہ آئے گا۔جس پر کہا گیا کہ اس قدر زیا دہ؟ پاس ہی کھڑے ہوئے اپنے ایک انتہائی معتمد خاص سے کہنے لگے کہ ان کوکچھ پتہ نہیں‘ آپ خود جا کر یہ کام کرائیں۔وہ صاحب ‘جنہیں اس ملک کا ہر چھوٹا بڑا اہلکار جانتا اور پہچانتا تھا‘ انہوں نے دوسرے ہی دن دونوں ڈبل کیبن گاڑیوں کی رجسٹریشن کروا لی‘لیکن سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان دونوں گاڑیوں کی رجسٹریشن اس وقت رائج ''پیلی ٹیکسیوں‘‘ کی سیریز کے مطابق ‘یعنیLPT کے کھاتوں سے کرائی گئی ہے؛حالانکہ یہ گاڑیاں پرائم منسٹر کی پیلی ٹیکسی سکیم کے تحت کسی بینک سے قسطوں پر نہیں لی گئی تھیں ‘ پھر کس قانون کے تحت ان لگژری گاڑیوں کوLPT نمبرز لگوائے گئے ؟اور اس عجیب و غریب کام پر بھی ان صاحب کو شاباش دی گئی کہ دیکھیں ‘اس طرح کام ہوتے ہیں!!۔
اس طرح کا یہ غیر قانونی کام کسی عام شخص کے حکم سے نہیں‘بلکہ ٹویٹ کے ذریعے وکیل صفائی کی گراں قدر خدمات انجام دینے والے حاتم طائی کے حکم سے کیا گیا ‘ جس نے فی گاڑی 55 ہزار کا ٹیکس بچا کر یہ غیر قانونی کام کروالیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کے پاس اقتدار بھی نہیں تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وکیل صفائی نے وزیر اعظم ہائوس کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کی جو ٹویٹ کی ہے‘ اس میں کس قدر حقیقت ہو سکتی ہے؟ پرویز مشرف دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز‘ شیخ رشید سے ناراض ہوئے‘ تو انہیں ریلوے کی وزارت دیتے ہوئے ‘ان کی جگہ محمد علی درانی کو وزیر اطلاعات مقرر کر دیا۔ ایک صبح محمد علی درانی کو انتہائی اہم ادارے سے فون آیا کہ فلاں کو پی ٹی وی میں پروڈیوسر لگا دو۔ کام کی زیا دتی کی وجہ سے درانی بھول گئے تو اگلے ہفتے پھر فون آیا کہ آپ سے' فلاں‘ کی بطور پروڈیوسر تعیناتی کا کہا گیا تھا ۔ وزیر اطلاعات نے اس منظور نظر کا نام نوٹ کرنے کے بعد سٹاف سے کہا کہ ان کے آرڈر جاری کر دیں‘ لیکن دفتری معاملات کی بھول بھلیوں میں یہ کیس کہیں دب کر رہ گیا۔ چند دن مزید انتظار کے بعد درانی صاحب کو اس اہم ادارے کی سینئر شخصیت نے فون پر شکایت آمیز لہجے میں کہا :یہ بھی کوئی کام ہے کہ ابھی تک ہمارے آدمی کو ایڈ جسٹ نہیں کر سکے؟ اور اسی دن ان کے آدمی کو پی ٹی وی میں پروڈیوسر بھرتی کر لیا گیا ۔
ایک ریٹائرڈ جنرل جو سابق گورنر سرحد رہ چکے اور جنہیں ان انتخابات میں عمران خان نے اپنے ساتھ شامل ہونے کے با وجود قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ نہیں دیا‘ اس منظور نظر کے جنرل مشرف دور سے ہی مہربان رہے ہیں۔ ان کی وکیل صفائی پر کی جانے والی نوازشات اس قدر زیا دہ ہیں کہ جن کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی صاحب ‘جو آج کل میاں صاحب کے وکیل صفائی بن کر ٹویٹ پر ٹویٹ کر رہے ہیں‘ عمران خان کا 25جولائی کے انتخابات میں کے پی کے سے بوریا بستر گول کرنے کے بارے ماہرانہ تجزیے کرتے ہوئے ایک درخت سے دوسرے تک ایسے اچھل رہے تھے‘ جیسے ہر ووٹ ان کی ٹویٹ میں ہو۔
ہمارے اس دوست کی ایک ایسی ویڈیو بھی آج کل سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہی ہے‘ جس میں پاکستان کا ایک بہت بڑا ٹائیکون اسلام آباد کے نزدیک نواز لیگ کے بڑی بڑی مونچھوں والے سینیٹر کے فارم ہائوس پر پہنچتا ہے‘ تو اس ٹائیکون کی بیش قیمت گاڑی کی اگلی نشست سے ان کے ساتھ اترنے ہوئے دیکھا جاتا ہے ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم جیسے فقیروں کے مقابلے میں یہ شخص کس حد تک خود کفیل ہو گا؟ ایک قومی روزنامے میں اپنے کیریئر کی ابتدا بطور کالم نگار ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی کی تھی‘ لیکن وکیل صفائی بنتے ہوئے عمران خان کی تقریر کے جواب میں وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات خود برداشت کرنے سے متعلق اس کی ٹویٹ چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا کا سب سے اہم موضوع بن جائے گی‘ اسے شاید خود بھی اس کا اندازہ نہیں تھا‘ لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ تو اب تک ان موصوف وکیل صفائی کے حوالے سے ان گنت تنقیدی پوسٹیں سامنے آ چکی ہیں ۔
وہ معزز خاتون‘ جس کا امریکی سفارت خانے میں اکثر شام ڈھلے آنا جانا لگا رہتا ہے‘ انہوں نے پرجوش جذبات میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اپنے حاتم طائی کی محبت میں غیر پارلیمانی الفاظ سے پکارنا شروع کر دیا۔ نجی ٹی وی چینل کے اس ارینجڈ انٹرویو میں وکیل صفائی نے عمران خان کے خلاف وہی الفاظ اور زبان استعمال کی‘ جو عائشہ گلالئی استعمال کرتی رہی ہے‘ جس سے وہ خبر سچ نکلی کہ عمران خان کے خلاف گلالئی سکینڈل کے ماسٹر پلانر یہی وکیل صفائی تھے‘ جنہوں نے رنگ برنگے باغوں کی ایسی سیر کرائی کہ باپ بیٹی کی آنکھیں چندھیا گئیںاور وہ عمران خان کے خلاف سب کچھ کرنے پر تیار ہو گئے‘ جس کا سکرپٹ انہیں وکیل صفائی نے تھمایا تھا۔
غیر قانونی کام کسی عام شخص کے حکم سے نہیں‘بلکہ ٹویٹ کے ذریعے وکیل صفائی کی گراں قدر خدمات انجام دینے والے حاتم طائی کے حکم سے کیا گیا ‘ جس نے فی گاڑی 55 ہزار کا ٹیکس بچا کر یہ غیر قانونی کام کروالیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کے پاس اقتدار بھی نہیں تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وکیل صفائی نے وزیر اعظم ہائوس کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کی جو ٹویٹ کی ہے‘ اس میں کس قدر حقیقت ہو سکتی ہے؟