"MABC" (space) message & send to 7575

عوام کی سلیکشن

کیا بے نظیر بھٹو کی وہ مبینہ وصیت‘ جس سے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے پی پی پی کی قیا دت سنبھالی ‘بی بی شہید کی ہی دستخط شدہ ہے؟کیا بی بی کی وصیت پر مبنی یہ تحریر اور اس پر کیے جانے والے دستخط حسین حقانی کی چالاکیوں میں سے کوئی ایک چالاکی تو نہیں ؟ کیونکہ اس بات کے گواہ آج بھی موجود ہیں‘ جنہوں نے میاں نواز شریف کے معاون خصوصی کی حیثیت سے غیر اخلاقی دستاویزات‘ محترمہ بے نظیر کے نام ان کے کلاس فیلو پیٹرگالبرتھ کے جعلی خط پر دستخط کرتے دیکھے( جو آج بھی گوگل پر موجو دہے) اس وقت دیکھنے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے‘ کیونکہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اصلی دستخط کون سے ہیں اور جعلی کون سے؟اس بات کے تو شیخ رشیدبھی گواہ ہیں‘ کیونکہ جب پیٹر گالبرتھ کا خط جاری کیا گیا ‘تو وہ بھی وہاںموجود تھے۔ 
بلا ول بھٹو نے عمران خان کو' سلیکٹڈ پرائم منسٹر‘ کا جو فقرہ کسا ہے‘ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں‘ کیونکہ جب سے انہوںننے آنکھ کھولی ہے‘ اردگرد ہر اقتدار سلیکشن سے ہی اپنے گھرانے کو ملتا ہوا دیکھا ہے ۔ اکتوبر1993ء کا اقتدار نواز شریف کو اتارنے والوں نے محترمہ کو دیا‘ پھر1997ء میں نواز شریف کو اقتدار‘ محترمہ کو اتارنے والوں نے سلیکٹ کر کے سونپا{ پھر مشرف کو اتارنے والوں نے 2008 ء میں ان کے والد گرامی کی کرسی اقتدار کی سلیکشن‘ میثاق جمہوریت کی عبارت درست کرانے والوں نے دی‘ پھر بلاول کو بتایا گیا کہ 2013 ء کا اقتدار ان کے پاپا کے میثاق جمہوریت کے دوسرے ساتھی کو بے تحاشا سگریٹ پینے والے نے سلیکشن کے ذریعے دیا ۔
2018ء کے حالیہ انتخابات کے دوران عمران خان اور بلاول بھٹو کی عوامی رابطہ مہم کی ویڈیوز کسی کے بھی سامنے رکھ دیں‘ تو اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کس کو اپنا حکمران سلیکٹ کر نا چاہتے تھے؟ خیبر پختونخوا‘ کراچی‘ سندھ اور پنجا ب بھر میں عمران خان اور بلاول کے جلسوں کی مانیٹرنگ کر لیجئے‘ آپ کو عمران خان کے جلسے‘ بلاول بھٹو سے تین گنا بڑے نظر آئیں گے ‘یعنی جلسے اور جلسی کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ بلاول بھٹو خود بھی دیکھ لیں‘ تو عوام نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی عمران خان کو اپنا نیا حکمران سلیکٹ کر لیا تھا‘اگر تصدیق کرنی ہے ‘تو لاہور‘ پنڈی‘ اسلام آباد اور فیصل آباد میں اپنے امیدواروں کے حاصل کر دہ ووٹوں کا تنا سب دیکھ لیں۔آپ کی پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات چوہدری منظور ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جو اپنی مقبولیت کے قصیدے پڑھتا تھکتا نہیں تھا‘ قصور کے حلقہ این اے137 سے حاصل کردہ 33ہزار ووٹوں کی تعداد پر ہی ایک نظر ڈال لے‘ جہاں سے نواز لیگ کا امیدوار ایک لاکھ 21ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوا ۔ الیکشن اور سلیکشن میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے‘ جتنا کسی بے بی اوربوائے میں ہوتا ہے۔
بلاول بھٹو کے سلیکٹ کہنے پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والوں کو سلیکشن اور الیکشن کا واضح اور حقیقی فرق دکھانے کیلئے انہیں اور بلا ول بھٹو کوپنجاب کے دور افتادہ اور پسماندہ سمجھے جانے والے ضلع مظفر گڑھ کی جانب لئے چلتے ہیں اور انہیں ریٹرننگ آفیسران کے پاس بٹھا کر دکھائیں گے کہ سلیکشن کسے کہتے ہیں اور طاقت کا سر چشمہ عوام کیسے ہوتے ہیں ؟جس کا نعرہ ان کے نا نا ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھتے ہوئے دیا تھا؛ چونکہ جھوٹ اور بناوٹ میں ہمیشہ ہی کشش ہوتی ہے‘ اس لئے سلیکشن سے وہ سب خوش ہو رہے ہیں‘ جنہیں شکست خوردہ ٹولہ کہا جاتا ہے ۔ مظفر گڑھ کی نشست این اے 182 سے مشہور و معروف پاکستان عوامی راج پارٹی کے جمشید دستی نے50,566 اور پی پی پی کے مہر ارشاد احمد خان نے53,054 ووٹ حاصل کئے‘ جبکہ تحریک انصاف کی تہمینہ دستی33840 اور نون لیگ کے حماد نواز خان47,642 ووٹ حاصل کئے ۔ جمشید دستی پی پی پی کے امیدوار سے صرف2488 ووٹوں کے فرق سے ہار جاتے ہیں‘ اگر کسی نے سلیکشن کرنی تھی ‘تو پھر یہاں سے جمشید دستی اور تہمینہ دستی دونوں میں سے کسی ایک کو امیدوار بنایا جاتا اور پی پی پی سے یہ نشست لینے کیلئے جمشید دستی کی کامیابی کیلئے ڈھائی ہزار ووٹ بقول بلاول‘ سلیکٹ کرانے والوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے تھے؟کیونکہ جمشید دستی نے کامیاب ہونے کے بعد اپنا ووٹ ہر حالت میں عمران خان کو ہی کاسٹ کرنا تھا۔
این اے 248 کا رزلٹ دکھانے کیلئے بلاول بھٹو کو اب پی پی پی کے کامیاب ہونے والے عبدالقادر پٹیل کے حاصل کردہ ووٹوں کی طرف لئے چلتے ہیں‘ جہاں سے وہ35,124 ووٹ‘ جبکہ ان سے شکست کھانے والے تحریک انصاف کے عزیز خان34,101 حاصل کرتے ہیں‘ تو کیا یہاں سے عمران خان کی سلیکشن کرنے والوں کو اگر وہ اتنے ہی طاقت ور اور با اختیار تھے‘ اوراسے کامیاب قرار دینے کیلئے ایک ہزار ووٹوں کے ہیرا پھیری میں کیا مشکلات تھیں ؟ جبکہ تحریک لبیک یہاں سے چودہ ہزار اور نون لیگ بیس ہزار سات سو ووٹ حاصل کرتی ہیں ۔ 
عمران خان کے قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد سکوت بلا میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر پر واہ واہ کرنے والے شاید بھول گئے کہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران جیسے ہی وہاں موجود غیر منتخب صحافیوںنے ان سے تابڑ توڑ سوالات کئے‘ وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ قومی اسمبلی کے ایوان میںتحریک انصاف ‘جماعت اسلامی ‘ نواز لیگ اور ایم ایم اے کے ایک دوسرے کے خلاف شور شرابے کے طوفان کے بعد بلاول بھٹو کی تھکے ہارے ایوان میں کی جانے والی تقریر ‘جس میں اس نے ملکی قرضوں‘ بد ترین گورنس‘ جی بھر کر کی جانے والی لوٹ مار پر ایک لفظ بھی نہیں کہا‘اس کو ایوان کی بہترین تقریر کہنے والوں کو اب کیا کہا جائے؟۔ 
بلاول کو شاید کسی نے بتایا ہی نہیں کہ ان کے نا نا ذوالفقار علی بھٹو نے جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی‘ تو ان کے منشور کے ابتدائی چار نکات اور نعروں میں طاقت کاسر چشمہ عوام ہیں‘ سب سے زیا دہ استعمال ہوتا تھا اور پی پی پی سمیت ان کے تمام لبرل اور ان کے ترقی پسند دانشور‘ صحافی‘ مزدور ‘ اور طالب علم لیڈر جو روس کے ٹوٹنے کے بعد یک لخت این جی اوز کے پردے میں چھپ کر امریکہ نواز ہو گئے تھے‘ اپنی تقریروں ‘ تحریروں اور ہر قسم کی ریلیوں اور جلسوں میں اسی ایک نعرے کو بڑے زور شوز سے لگاتے ہوئے دیکھے جاتے تھے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کے کئی گمنام کارکن '' طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے لیڈران کی بڑی بڑی گاڑیوں اور محلات کے گرد بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔
بلاول بھٹو کو شاید اس سے پہلے‘ چونکہ الیکشن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا‘ اسی لئے وہ کراچی (لیاری) کے حلقہ انتخاب این اے146 جہاں سے طاقت کے سر چشمہ عوام‘ نے ان کی بجائے تحریک انصاف کے ایک عام رکن عبد الشکور شاد کے ہاتھوں انہیں52,750 ووٹوں سے ری جیکٹ کر دیا‘ جبکہ بلاول اور سندھ کی پوری انتظامیہ نے پی پی پی کی انتخابی مہم کا آغاز ہی لیاری سے کیا اور ان کے بعد آصفہ بھٹو ان کی انتخابی مہم چلاتی رہیں‘ لیکن حیران کن طور پر یہاں سے بلاول بھٹو39,325 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر رہے‘ جبکہ تحریک لبیک کے امیدوار نے ان کے مقابلے میں42,345 ووٹ حاصل کئے ۔کراچی سے رائے عامہ کا تنا سب دیکھئے‘ تو تمام لبرلز اور ترقی پسندوں کو پسینہ آ جائے گا‘ کیونکہ تحریک لبیک کراچی کی تیسری بڑی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی ہے ‘جبکہ بلاول بھٹو کی پی پی پی کو شہر قائد نے چوتھے نمبر پر سلیکٹ کیاہے ۔ یہ ہوتی ہے‘ عوام کی سلیکشن!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں