جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا‘ تو اس دن میرے سامنے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک تقریر کے تین مرتبہ بلند آواز میں لگائے گئے '' سب سے پہلے امریکہ‘ سب سے پہلے امریکہ‘ سب سے پہلے امریکہ ‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اس نعرے کی حاکمیت تسلیم کروانے کے لیے چاہے‘ کچھ بھی ہو جائے‘ وہ کسی کی بھی پروا نہیں کریں گے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اب تک کے اقدامات اور عالمی سطح پر اقوام عالم کے لیے کئے جانے والے فیصلے ثابت کر رہے ہیں کہ دنیا ایک نئے ہٹلر کی تجربہ گاہ بننے جا رہی ہے اور اس کے لیے اس نے سب سے پہلے دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو نشانہ بنانے کا انتخاب کیا ہے ۔ٹرمپ کو صرف ایک بہانہ چاہئے ہوتا ہے‘ اس کے بعد وہ اس مسلم ریاست کو زمین بوس کرنے کے لیے اپنی فوجیں ‘وہاں بھیجنے کے علاوہ چاروں طرف سے حملے شروع کروادیتا ہے‘ جس سے اس مسلم ریاست کی بنیادیں ہلنا شروع ہو جاتی ہیں اور بالآخر وہ مسلم ریا ست اس کے سامنے سرجھکاتے ہوئے‘ اس کی باج گزار بننے کاا علان کردیتی ہے ۔ اس سلسلے میں وہ ایک ایک کرتے ہوئے دنیا کی ہر مسلم بادشاہت اور امیر کو اپنے سامنے جھکانے کے بعد اب‘ سب سے مشکل مرحلے کی جانب قدم بڑھا چکا ہے‘ جس کا ساتھ دینے کے لیے کہیں اسرائیل اس کے ساتھ ہے‘ تو کہیں بھارت اپنے بدلے چکانے کے لیے تیارہے۔
افغانستان‘ بنگلہ دیش‘پاکستان کے علا وہ سارک ممالک کی مسلم ریاستیں‘ لیبیا‘ مراکش ‘ مصر‘ اردن اورتیونس سمیت پورا مشرق وسطیٰ‘ نائجیریا‘ الجیریا‘ سوڈان اور افریقہ کے تمام چھوٹے چھوٹے ملک کہیں بھی امریکی غلامی سے آزاد نہیں۔ آج میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں یورپی یونین کا خیال امریکی سی آئی اے کی شیطانی چال تو نہیں تھی‘ جس سے جرمنی‘ فرانس ‘ اٹلی اور آسٹریلیا جیسی ریاستیں بھی آزادانہ فیصلے کرنے سے بلا واسطہ محروم کر دی گئیں؟ایسا لگتا ہے کہ پورے یورپی بلاک کا اپنا کوئی نظریہ ہی نہیں رہا۔ کل کی دنیا میں کہیں پرتگال ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی او ر دوسرے ممالک کی آزاد خارجہ پالیسی دکھائی دیتی تھیں ‘وہاں ایسا آج کچھ بھی نہیں۔کیا ان تمام ممالک کے شہریوں نے خود کو آنے والے وقت کا امریکی سمجھنا شروع کر دیا ہے؟۔دیکھا جائے‘تو اس وقت دنیا میں صرف تین اسلامی ممالک ایسے رہ گئے ہیں‘ جن کی قیا دت نے ابھی تک امریکی بالا دستی مکمل طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کا باج گزار بننے کی بجائے خود مختاری اور ایک آزاد ریاست کے طور پر کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ جس کی بابت ‘ امریکہ کی ایک بہت بڑی اکثریت کے مطا بق‘ وحشی ٹرمپ کی حیوانیت پر مبنی مسلم دشمنی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
الغرض دنیا کے ایک خطے سے دوسرے حصے تک نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے‘ کوئی ایک بھی اسلامی ریا ست امریکی پنجوں سے ایک انچ بھی آزاد نہیں رہی۔ اس وقت انڈو نیشیا اور ملائیشیا کی بھی وہی صورت حال ہو چکی ہے ‘جو قطر ‘ کویت‘ مشرق وسطیٰ سمیت دوسرے مسلم ممالک کی ہے۔ترکی میں اس کی فوج کے ایک حصے کی جانب سے طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن ترک آرمی کے چیف اور دوسرے سینئر جنرلز نے ان باغیوں کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے بیرکوں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا‘ جس سے ترک عوام کی ہمت بندھی اور وہ اردوان کی حمایت میں باغی فوجیوں کے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ہاں! اگر ترکی کی فوج مکمل طور پر ایک متفقہ کمان کے تحت طیب اردوان کے خلاف ایکشن کرتی تو مصر کی طرح چاہے ‘کتنی بھی عوام باہر نکلتی‘ نتائج مصری جنرل السیسی سے مختلف نہیں ہونے تھے۔امریکہ نے جب دیکھا کہ ترکی میں فوج کے ایک ناکام باغی گروہ کے بعد اردوان کی پوزیشن نئے انتخابات کے بعد مزید مضبوط ہو کر سامنے آ گئی ہے‘ تو اس نے اس پر معاشی اور اقتصادی پابندیوں کا جال پھینک کر اپنے قدموں میں جھکانے کی کوششیں شروع کر دیں اور اس کے لیے Andrew Brunson نامی امریکی اور اس کے ساتھیوںکو دہشت گردی ثابت ہونے پر دی جانے والی سزا کو بہانہ بنا یا ہوا ہے۔ اینڈریو کی اس کے ساتھیوں سمیت رہائی کے لیے مجلے '' وال سٹریٹ جرنل‘‘کی ایک تازہ ترین اطلاع کے مطا بق ترکی نے امریکہ کے سامنے شرط رکھ دی ہے کہ وہ اینڈریو اور اس کے ساتھیوں کو جن میں ترکی کے تین شہری بھی شامل ہیں ‘دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت سنائی گئی سزائوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے‘ لیکن اس کے لیے امریکہ کو ترکی کے Halk بینک کو ایران پر لگائی گئی ‘اقتصادی پابندیوں کے دوران کچھ سہولتیں دینے کے الزام میں کئے گئے‘ بلین ڈالرز جرمانے کو ختم کر نا ہوگا ‘ لیکن امریکہ نے یہ شرط تسلیم کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے ترک کرنسی کو مزید کمزور کرنا شروع کر دیا ہے۔
عمران خان کے تقریب حلف برداری اور اس سے بھی پہلے ترک صدر طیب اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کے لیے جن نیک اور گرمجوش دلی جذبات کا اظہار کیا ہے‘ اس سے ترکی اور پاکستانی عوام کی دوستی کے ان سدا بہار رشتوں کی مہک میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ برادر ملک ترکی ‘جسے امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات اور سخت نا مناسب رویے کی وجہ سے ان دنوں معاشی طور پر سخت مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ تو ایسے وقت میں پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کے ہر دلعزیز صدر طیب اردوان کی جانب سے ان کی انتخابات میں کامیابی پر کئے گئے تہنیتی ‘فون کے جوا ب میں ان سے ہر قدم اور ہر پل ہرقسم کے تعاون کی مکمل یقین دہانی کراتے ہوئے‘ ان کا بھر پور ساتھ دینے کا جواعلان کیا ہے ‘اس کا ترکی میں بھر پور شکریہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے با وجود کہ امریکہ نے پاکستان پر بھی اپنے فوجی تربیتی اداروں کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ انتہائی اہم فوجی پرزہ جات ا ور اسلحہ دینے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کی سالمیت پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے اور امریکی مفادات کو پروان چڑھانے والی بھارت نواز سابق سول حکومت کے لئے گئے بے تحاشہ غیر ملکی قرضوں اور اس کی انتہائی غلط حکمت عملیوں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمر توڑ کمی سے پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی دبائو کا شکار ہو رہاہے‘ پھر بھی عمران خان کا اپنے ترک بھائیوں کو ان کی مصیبت اور مشکلات کے ان دنوں میں ہر ممکن مدد اور تعاون کی پیشکش سے ترکی بھر میں پاکستان کے لیے گرمجوشی کے جذبات مزید نکھر کر سامنے آ ئے ہیں‘ جن کا مظاہرہ اس وقت ترکی میں موجود پاکستانیوں کو دیکھنے میں آ رہا ہے۔دوست اور بھائی وہی سچا ہوتا ہے‘ جو مصیبت کے وقت میں کام آ ئے‘ اسی لئے تو کہا جاتا ہے :
a friend in need is a friend indeed.
ترک صدر طیب اردوان نے ایک بہت بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ترکی بھر کی عوام سے اپیل کر دی ہے کہ امریکہ کی کسی بھی قسم کی الیکٹرانک مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دیں‘ جس پر ترک عوام نے بیک آواز اپنے صدر کا ساتھ دیتے ہوئے امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے دکھا دیا ہے کہ وہ ایک قوم ہیں۔ اس وقت ترکی اور پاکستان امریکی پابندیوں کے ایک جیسے شکار ہیں‘ کیونکہ امریکہ نے آئی ایم ایف کو سخت الفاظ میں وارننگ دے دی ہے۔ وہ پاکستان کو کسی بھی قسم کا اقتصادی ریلیف دینے کی کوشش نہ کرے دوسرے لفظوں میں ٹرمپ خونخوار نظروں سے ترکی ا ور پاکستان کے پچیس کروڑ سے زائد شہریوں کو بھوک سے مرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور پھر یہ ہیومن رائٹس کے نعرے نہ جانے کس زبان سے اپنی تراشی ہوئی این جی اوز سے دنیا بھر میں لگواتے پھرتے ہیں ۔
ترکی کے لیے اس وقت امریکی پابندیوں اور سختیوں کے بعد روس اور پورپ اور ایشیا( یوریشیا) کی جانب رخ کرنے کا سب سے بہترین موقع ہے اور یہ وہ پھل ہے ‘جس کے لیے یوریشیا اور روس کو مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے ۔