وہ جو پیٹ پھاڑ کر لاہور‘ لاڑکانہ‘ کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹ کر ساٹھ ملین ڈالرز نکالنے کے نعرے لگاتے رہے ‘ آج وہی میاں شہباز شریف‘ اسی زرداری کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ وطن عزیزکے60 ملین ڈالر ز‘ جوسوئس بینکوں میں پڑے ہیں‘ کی وہ کہانی‘ جو گزشتہ تین دہائیوں سے آپ سنتے آ رہے ہیں‘ آج پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں:۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے آخری دنوں میں مسلم لیگ ن کے دو اہم ترین افراد سوئٹزرلینڈ میں کچھ گم نام اکائونٹس کا کھوج لگانے کیلئے لندن کے مختلف اداروں اور لوگوں سے رابطوں میں مصروف تھے کہ ایک شام انہیں ایک شخص کا پیغام ملاکہ اس کے پاس انتہائی اہم پاکستانی شخصیت کے سوئس اکائونٹس سے متعلق دستاویزات ہیں۔ یہ پیغام ملتے ہی دو نوںافراد اس شخص سے ملاقات کیلئے طے شدہ مقام پر پہنچے۔ ان کے میزبان نے انہیں چند بینک اکائونٹس اور کچھ کمپنیوں سے متعلق لاکھوں ڈالرز کی ایسی دستاویزات دکھائیں ‘جن پر پاکستان کی اہم سیا سی شخصیات کے دستخط تھے۔ مطلوبہ شخص سے ابتدائی معاہدہ کرنے کے بعد ان دستاویزات پر قانونی مشاورت کرنے کیلئے‘ انہوں نے کراچی کی ایک اہم قانونی شخصیت کو لندن بلاکر ان دستاویزات کے بغور مطالعہ اور معلومات فراہم کرنے والے شخص سے تفصیلی گفتگو کرائی ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف ہونے کے بعد فروری1997ء میں انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے‘ تو ان دستاویزات کی ازسر نو اپنے بہت ہی قریبی اور با اعتماد ماہرین سے ان کی تفصیلی چھان بین کروائی گئی‘ جب ان دستاویزات کے مکمل درست ہونے کا انہیںیقین ہو گیا‘ تو فیصلہ ہوا کہ اس معاملے کو اگلے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا جائے گا‘ لیکن ہوا کچھ یوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور اپوزیشن لیڈر‘ نواز حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی سنگین الزامات کا خط لکھ دیا‘ جس پر نواز شریف اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے اس وقت کے چیئر مین نیب سیف الرحمان کے ذریعے آصف زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کے حوالے سے فوری کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں ‘جس پر سیف الرحمان‘ آئی بی اور وزارت اطلاعات فوراََ حرکت میں آ گئے اور انہوں نے مزید دبائو بڑھانے کیلئے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کے اعلیٰ افسران؛ سلمان فاروقی‘ عثمان فاروقی‘ احمد صادق‘ سٹیل مل والے سجاد حسین‘ایڈ مرل اکبر‘ نیر باری‘اسد شیخ‘سراج شمس الدین‘ رائے سکندر‘ایم بی عباسی‘ یونس ڈالیا‘جاوید پاشا‘ علی جعفری اور ماجد بشیر سمیت کئی سینئر بیوروکریٹس کوایف آئی اے کی تحویل میں دے کر ان سے ان اکاونٹس کے راز اگلوانے کیلئے دوران تفتیش سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کے ذریعے اعترافی بیانات پر دستخط کروا کر ان کی ویڈیوز بنالیں۔
میاں نواز شریف کے قانونی ماہرین کی مشاورت اور معاونت سے ‘ان سب پر30 کے قریب فوجداری مقدمات بھی درج کروا دیئے گئے۔دوسری جانب سوئس اکائونٹس کی دستاویزات دینے والے شخص نے27-2-1995 کو جاری کئے گئے ‘سوئس فارمA کی مستند کاپی بھی شہباز شریف کو فراہم کر دی ‘جس پر کئے گئے تمام دستخط صاف اور واضح تھے۔ جب سب کچھ مکمل ہو گیا ‘تو اس وقت کے وزیر قانون خالد انور اور چیئرمین نیب سیف الرحمان نے15-7-1997 کو مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کے تمام شواہدمیڈیا کے سامنے پیش کر دیئے ۔میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش گئی ان دستاویزات میں بومر فنانس کی25-4-1991 کی ‘وہ دستاویز بھی شامل تھیں‘ جن کے مطا بق یہ معاہدہ سوئٹزر لینڈ میں ہوا‘ لیکن پاکستان کے ریکارڈ کے مطا بق ‘آصف علی زرداری‘ اس تاریخ کو کراچی کی لانڈھی جیل میں بند تھے۔یہ سوال آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان کے یہ دستخط لانڈھی جیل کی انتظامیہ کی باقاعدہ اجا زت سے ہوئے یا غفلت سے؟کیونکہ آصف علی زرداری دسمبر1990 میں گرفتار ہونے کے بعد غلام اسحاق خان کے حکم سے فروری1993ء میں رہا کئے گئے تھے ۔
نواز لیگ کے 'اس‘ شخص سے خریدے گئے ‘تمام شواہد سامنے آنے کے بعد جب سوئٹزر لینڈ میں بے نظیر بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو ابتدا میں عدالت کی جانب سے ان تمام اکائونٹس کو90 روز کیلئے منجمد کر دیا گیا‘ جس کی مدت بعد میں بڑھا دی گئی‘ جس کی تصدیق اس وقت پاکستان میں تعینات سوئٹزر لینڈ کے سفیرMarc-Andre Salamin نے بھی کر دی۔نواز شریف نے آصف علی زرداری کے جن بینک اکائونٹس کی تفصیلات مہیا کیں‘ان میں ایک معروف بین الاقوامی بینک کا فارم اے‘ جو بینک اکائونٹ کھولنے کیلئے ضروری ہوتا ہے‘ پیش کیے گئے اس فارم میں ان کے بینک اکائونٹ کا نمبر342034 تھا‘ جسےCAPRICON TRADING کے نام سے کھولا گیا‘ جس پر زرداری صاحب کانام اور ایڈریس بلاول ہائوس کراچی درج تھا اور فارم میں انہیں ہی اپنا یہ بینک اکائونٹ آپریٹ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ۔ نواز شریف کی محترمہ اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف پیش کی جانے والی ان دستاویزات میں سے ایک سٹی بینک نیویارک کی تھی‘ جس کے مطا بق Capricon کے کھاتے میں چارمئی1994ء کو ریفرنس نمبر 3951238126 کے ذریعے10, 204,326.27 ڈالرز منتقل کروائے گئے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے اندردائر کیے گئے‘ اس مقدمے کے ایک حصے کی بنا پر پاکستان کی عدالتوں نے اپریل1999ء میں محترمہ اور آصف زرداری کو8.6 ملین ڈالر جرمانہ اور پانچ سال قیدکا حکم سنایا ۔دوسری طرف چار سال بعد سوئس انویسٹی گیشن عدالت کے مجسٹریٹ نے اگست2003ء میںمحترمہ اور زرداری صاحب کو پچاس ہزار ڈالر جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سناتے ہوئے فیصلے کے دوسرے پیرے میں حکم دیا کہ 11 ملین ڈالر کی یہ رقم حکومت پاکستان کو واپس کر دی جائے۔ سوئس کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف محترمہ اور آصف علی زرداری اپیل میں چلے گئے اور پھر حالات نے ایک نیا پلٹا لیا اور 2007ء میں امریکہ اور برطانیہ کے حکم پر جنرل کیانی اور افتخارچوہدری کی درپردہ معاونت سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے جنرل مشرف کا این آر او ہوا‘ تو اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے مشرف حکومت کی ہدایات پر سوئس حکومت کو خط لکھا کہ حکومت پاکستان یہ مقدمہ واپس لے رہی ہے‘ لہٰذا اس پر مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے‘جس پر سوئس اٹارنی نے26-8-2008 کو حکومت پاکستان کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ آپ کی طرف سے یہ مقدمہ واپس لینے کی بنا پر60 ملین ڈالرز (چھ سو کروڑ)کی رقم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو واپس کی جا رہی ہے‘ لیکن اس رقم میں سے39 ملین سوئس فرانک بطور کمیشن بحق سوئس حکومت منہا کئے جا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھ کر توہین عدالت پرتا برخواست عدالت ایک منٹ کی قید کاٹتے ہوئے آصف زرداری کی بخشی ہوئی ساڑھے چار سال کی وزارت عظمیٰ کا احسان 600 کروڑ روپے کی شکل میں زرداری صاحب کو واپس کر دیا۔پانی کی کمی پوری کرنے کیلئے ڈیم کے نام پر ایک ایک روپے کا چندہ مانگنے والے چیف جسٹس کیا‘ یوسف رضا گیلانی سے قوم سے کئے گئے‘ اس سنگین جرم کا حساب لیں گے؟