"MABC" (space) message & send to 7575

ایوب خان اور شہباز شریف کی بجلی!

میاں شہباز شریف نے8 ستمبر کو فرمایا کہ شہروں میں چار سے چھ اور دیہات میں بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ31 مئی تک ہم بجلی کے ذمہ دار ہوں گے‘ اس کے بعد نہیں۔قربان جایئے‘ میاں شہباز صاحب کے‘ جنہوں نے اس دیہاتی لڑکی کی یاد تازہ کر دی‘ جس نے اگلے روز فرار ہونے سے پہلے رات کو ہی اپنے والدین کو بتا دیا تھا کہ کل ہمارے گھر کا ایک فرد نہیںہو گا۔میاں صاحب ‘جنرل ایوب خان کو اس د نیا سے گئے چالیس برس ہو چکے ہیں ‘لیکن ان کے دور کی پیدا کی جانے والی منگلا‘ تربیلا اور وارسک سمیت گڈو بیراج کی بجلی ابھی تک ہم سب پاکستانیوں کو مل رہی ہے‘ لیکن آپ کی کیسی بجلی ہے ؟جو آپ کے جاتے ہی گھروں سے غائب ہو گئی ہے۔ غضب خدا کا‘ بجلی غائب ہو گئی‘ لیکن12 سو ارب گردشی قرضے چھوڑ گئی‘ جسے اب عمران خان اور اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کوا دا کرنا ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ پرائیویٹ پاور پلانٹس‘ میاں نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں کی ملکیت ہیں اور یکم مئی سے 25جولائی 2018ء عام انتخابات تک میاں نواز شریف کی ہدایات پر مہنگے ترین فرنس آئل سے چلنے والے ان پاور پلانٹس نے چوبیس گھنٹے بجلی پیدا کرتے ہوئے ‘ پنجاب بھر میں لوڈ شیڈنگ کو بظاہر ختم کر دیا‘ جس نے مسلم لیگ نواز کے حق میں عوامی رائے ہموار کرنے میں مدد کی ۔ شریف برادران نے ایک تیر سے تین شکار اس طرح کئے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے نعرے کو بھی سچا کر دیا اور اب عمران خان کو ''وختے‘‘ میں ڈال دیا کہ جلد ی جلدی1200 ارب روپے کی ادائیگی کرو ۔ ملک کی قسمت سے کھیلنا شاید اسے ہی کہتے ہیں۔
عوام بھول چکی ہو گی کہ اس سے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت480 ارب روپے کے گردشی قرضے اپنے دوستوں کے پاور پلانٹس کو ادا کر چکے ہیں ‘جن کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ سب ادائیگیاں بغیر آڈٹ کی گئیں ۔اگر ان480 اور موجو د ہ 1200 ارب کے بلوں کا آڈٹ کروالیا جائے‘ تو شاید ہم سب کا بھلا ہو جائے۔ پرائیویٹ پاور پلانٹس کی اس لوٹ مار پر ایک ملتا جلتا واقعہ یاد آ گیا ہے کہ جب شہر کے وسط میں واقع ایک بینک میں داخل ہوتے ہی ڈاکوئوں نے اسلحہ تانتے ہوئے اندر موجود لوگوں کو انتہائی سرد لہجے میں کہا : سب لیٹ جائو‘ تم میں سے کسی نے بھاگنے کی کوشش کی‘ تو گولی مار دی جائے گی ۔اس کے بعد ڈاکوؤں نے بینک لوٹا اور فرار ہو گئے۔ ڈاکو ئوں کے جانے کے پندرہ منٹ بعد بینک منیجر نے اپنے زونل ہیڈ کو فون کیا کہ پولیس کو اطلاع کرنے سے پہلے آپ کو اطلاع دینا منا سب سمجھاہے‘ تو زونل انچارج کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر اس نے منیجرسے انتہائی آہستگی سے کہا : دیکھو! قدرت شاید ہماری مدد کر رہی ہے‘ کیوں نہ ہم ان سات کروڑ روپوں کو بھی اس ڈکیتی میں شامل کرد یں ‘جو ہم نے بینک سے نکلواکر سٹاک ایکسچینج میں لگائے ہوئے ہیں۔ بینک منیجر نے زونل انچارج کی یہ بات سن کر دبے لفظوں میں او کے کہتے ہوئے کہا:This is called swim with the tide۔ 
چند منٹوں بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی کہ ڈاکوجن کے چہرے نقاب میں چھپے ہوئے تھے ‘مرکزی بینک میں داخل ہوئے اور اسلحہ کے زورپر بینک سے 10 کروڑ ر81لاکھ وپیہ لوٹ کے فرار ہو گئے۔ یہ خبر سنتے ہی دونوں ڈاکو فوری طور پر لوٹی ہوئی رقم کو گننا شروع ہو گئے۔ انہوں نے ایک دفعہ ‘ دوسری دفعہ او ر پھر تیسری دفعہ لوٹی ہوئی رقم کو گنا‘جو بار بار گننے کے بعد بھی 3 کروڑ 81 لاکھ سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہ بڑھی‘ تو ڈاکو سخت غصے میں آ گئے کہ ہم نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بینک سے صرف3 کروڑ 81 لاکھ روپیہ لوٹا ہے اور جرم ہمارا11 کروڑ کا بن گیا ہے۔ قانون اور میڈیا‘ ہمیں ڈاکو کہتا ہے‘ لیکن بینک والوں نے اپنی انگلی کی صرف ایک حرکت سے 7 کروڑ لوٹ لیا ہے اور وہ پھر بھی معزز کے معزز ہیں۔کاش !ہم نے بھی تعلیم حاصل کی ہوتی اور حساب کتاب میں پڑھ لکھ کر دولت بھی لوٹتے اور معاشرے میں ہمارا بھی وہی مقام ہوتا ‘جو بینک منیجر جیسے لوگوں کا ہوتا ہے ۔غصے سے ایک دوسرے کی طرف گھورتے ہوئے دونوں ڈاکوسوچ رہے تھے کہ سکول میں ماسٹر صاحب ہمیں پڑھائی میں دلچسپی لینے کی تلقین کرتے ہوئے ‘شاید اسی لیے سمجھایا کرتے تھے کہ علم سونے سے زیا دہ قیمتی اور فائدہ مند ہوتا ہے۔ 
29 جون 2014ء کے اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں کہ 480ارب روپے کے گردشی قرضے پرائیویٹ پاور پلانٹس کو نواز حکومت نے ادا کر دیئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ایک خبر اور بھی تھی‘ جس میں سپریم کورٹ پی پی پی کی سابقہ حکومت کی طرف سے کی گئی کسی مبینہ کرپشن پر شکوہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے پوچھ رہی تھی : اٹارنی جنرل صاحب‘ ملکی دولت بچائیں یا ہمیں بتا دیں کہ حکومت نے مفاہمت کر لی ہے؟ابھی سپریم کورٹ کا اٹارنی جنرل سے اس سوال کا پس منظر جاننے کی کوشش کررہاتھا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی کا اس وقت کے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو لکھا گیا خط سامنے آ گیا‘ جس کے مطابق آئی پی پیز نے گزشتہ دس برسوں میں ایک ہزار ارب روپے اضافی وصول کئے ہیں ۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ سپریم کورٹ نے منیر اے ملک سے ملکی دولت بچانے کا شکوہ راجہ پرویز اشرف کا کیا ہے یا ان آئی پی پیز کو ایک ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگی پر کیا ہے‘ جن کے جناب منیر اے ملک لیگل ایڈ وائزر تھے۔ 
میرے جیسے لوگوں کاشمار تو چونکہ بہت ہی کم فہم اور کم علم لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی ذمہ داری کے تعین کیلئے اس کی تفصیل اب سپریم کورٹ پر چھوڑتا ہوں ہو سکتا ہے کہ وہ ٹرانسپرنسی کے سید عادل گیلانی کو بلا کر تمام تفصیلات پوچھ کر کارروائی کرے‘ تاکہ قوم کا کسی بھی طریقے سے لوٹا ہوا پیسہ سب کے سامنے آ سکے ۔ سیدعادل گیلانی نے خواجہ آصف کے علاوہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بھی یہ شکایت کی تھی کہ نجی پاور پلانٹس کو منافع کی مد میں ان کے اخراجات کے اٹھارہ فیصد کے برابر ریاستی ضمانت فراہم کی گئی تھی‘ لیکن آئی پی پیز نے غیر قانونی طور پر اٹھارہ فیصد زائد فائدہ حاصل کرنے کیلئے اپنے اخراجات اور پیداواری لاگت کو اصل سے بڑھا کر پیش کیا ہے۔
24 ستمبر2012ء کو سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے ایک خط کے مطابق آئی پی پیز اپنے اخراجات میں ان بوگس اضافوں کی ذمہ دار ہیں‘کیونکہ انہوں نے آپریشن اور مینٹی نینس کے اخراجات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا‘ٹیکنیکل سروسز کیلئے زائد ماہانہ اخراجات ادا کئے۔ میٹریل اور دوسری اشیاء کے حصول کے اخراجات زیا دہ ظاہر کیے‘ بجلی کی پیداوارظاہر کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا‘کئی آپریشنز کیلئے زیادہ قیمت پر ذیلی معاہدے کئے اور معاہدے کرنے والوں سے90 فیصد اضافی ادائیگیاں واپس لے لیں ‘ جعلی معاہدے اور اشیا خریدنے کی جعلی بلنگ کی گئی۔ نیپرا کو کہا گیا کہ وہ آئی پی پیز کے اخراجات کی حقیقت اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال کیلئے ریکارڈ فراہم کرے‘ لیکن کہا جاتا ہے کہ نیپرا نے ایسا نہیں کیا‘جو نیپرا کے آرٹیکل19-A کے تحت غیر قانونی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں