"MABC" (space) message & send to 7575

چکوال اور راجن پور کے دو خط

''اتفاق‘‘ دیکھئے کہ چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنرز کے چیف الیکشن کمشنراور رجسٹرار سپریم کورٹ کو اراکین قومی اسمبلی چوہدری ذوالفقار علی بھٹی اور سردار نصر اﷲ دریشک کے خلاف بھیجے گئے‘ خطوط پر ایک ہی تاریخ درج ہے‘ جن میںپی ٹی آئی کے ان اراکین قومی اسمبلی کے خلاف کار ِسرکار‘یعنی من پسند تبادلوں کیلئے مداخلت کے تحت سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ 
کبھی کبھی انہیں '' اتفاق‘ کہہ لیں یا ''جرم ‘‘اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ آپس میں کی جانے والی فون کالیں بھی ایک جیسی ہوجاتی ہیں ۔ دونوں ڈپٹی کمشنرز کے خطوط؛ چونکہ ایک ہی تاریخ کو ایک ہی وقت میں بھیجے گئے ہیںاور اگر انہیں غور سے دیکھیں ‘تو دونوں کے فونٹ بھی ایک جیسے ہیں۔ لگتا ہے کہ کسی ایک ہی جگہ سے ان کو یہ پرنٹ بھیجے گئے ہیں اور ان دونوں خطوط میں الزامات بھی ایک جیسے ہی ہیںاور ڈی سی چکوال غلام صغیر شاہد‘ تو خیرسے میاں حمزہ شہبازکے ذاتی سٹاف میں بھی تین سال کا عرصہ گزار چکے ہیں۔ ان کی وہ تصویر ‘جس میں وہ حمزہ شہباز‘ سمیع اﷲ خان( عظمیٰ بخاری کے شوہر) منشا اﷲ بٹ کے ساتھ ان کے ذاتی دفتر میں خصوصی میٹنگ میں مصروف ہیں‘ اس وقت میرے سامنے ہے۔ 
چلتے چلتے یہ راز کی بات بھی بتاتا چلوں کہ جب صوبائی کیڈر کے افسران نے ڈی ایم جی کے خلاف پوسٹنگ کوٹہ کیلئے ہڑتال کی تھی‘ تو غلام صغیر اس وقت کے چیف سیکرٹری کے مخبر کے طور پر پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن میں رائے منظور حسین ناصر اور ارشد بن احمد کے قریب رہ کر کام کرتے رہے ہیں۔راجن پو کے ڈی سی اﷲ وسایا‘کمشنر ڈی جی خان کو لکھتے ہیں: '' سردار دریشک نے میرے سرکاری موبائل نمبر پر فون کیا ‘جسے میں اس لئے نہ سن سکا کہ ایک میٹنگ میں مصروف تھا‘‘۔ نہیں جناب! اصل قصہ اس طرح ہے کہ دریشک صاحب بار بار آپ کو فون کرتے رہے‘ لیکن ڈی سی صاحب ‘آپ انہیںجان بوجھ کر مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد سردار نصر اﷲ دریشک نے کمشنر ڈیرہ غازی خان کو فون کیا کہ آپ کا ڈی سی میرا فون وصول نہیں کر رہا‘ جس پر کمشنر نے ڈی سی راجن پور کو فون پر کہا کہ سردار صاحب کا فون کیوں نہیں سن رہے ہو؟ وہ اس ضلع کے رکن قومی اسمبلی ہیںاور ان کا بیٹا سردار حسنین دریشک صوبائی وزیر ہے۔ اب یہاں پر ڈی سی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب!کیا بیورو کریسی کی لغت میں ایک صوبائی وزیر اور رکن قومی اسمبلی کا فون جان بوجھ کر نہ سننا جائز ہے ؟ سردار نصر اﷲدریشک ایک بزرگ سیاستدان ہونے کے ساتھ اپنے علاقے کے ایک معزز سردار بھی ہیں اور وہ آپ کو بار بار فون کررہے اور آپ ان کا فون اٹینڈ نہیں کر رہے‘ آخر کیوں؟آپ نے سردار نصر اﷲدریشک کا ایک تو فون سننا گوارہ نہیں کیا اورساتھ ہی ان کے سیا سی مخالفین ‘ جو کل تک نواز لیگ کے ڈپٹی سپیکر تھے‘ ان کو فخر سے بتایا جائے کہ تمہارے سردار کی دیکھو کیسی عزت کر رہا ہوں...؟۔ 
اب ڈی سی صاحب کا خط دیکھئے کہ وہ دریشک صاحب کے خلاف کمشنر کو خط میں لکھتے ہیں: I COULD ATTEND FONE یعنی خط سےNOT کا لفظ ہی حذف کر دیتے ہیں ۔ڈی سی راجن پو ر کہتے ہیںکہ دریشک صاحب کا فون نہ سننے کی وجہ یہ تھی کہ میں راجن پور پبلک سکول سے متعلق میٹنگ میں مصروف تھا۔اب کمشنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس ڈی سی راجن پور کا سرکاری موبائل نمبر موجود ہو گا اوروہ عرصہ جب تک بقول‘ ان کے وہ میٹنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے دریشک صاحب کا فون نہیں سن سکے۔ اس عرصہ کے دوران ان کے موبائل کا ریکارڈ سامنے لاتے ہوئے آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ ڈی سی نے اس دوران کتنے فون کئے اور کتنے وصول کئے‘کیونکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی سی راجن پور نواز لیگ اور میاں شہباز شریف سے اپنی محبت اور عقیدت کو نبھا رہے ہیں۔ اگر بقول ان کے‘ سردار دریشک نے ان سے کہا کہ چیک پوسٹ پر بارڈر ملٹری پولیس کے فلاں افسر کو تبدیل کر دیا جائے‘ تو اس میں کون سی غلط بات تھی؟۔ ایک ایسا شخص‘ جو صرف آپ کے ہی نہیں‘ ضلع راجن پور کے ہر شخص کے سامنے سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیا ست میں کھل کر حصہ لیتے ہوئے اپنے علاقے میں نواز لیگ کی انتخابی مہم کا نگران بن جائے‘ ان بسوں اور ٹرکوں کو روکے‘ جن پر عمران خان اور دریشک صاحب کی تصویریں ہوں‘ تو کیا ایسا شخص قابل قبول ہو سکتا ہے؟ وہ سابقہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی جو دریشک سردار اور حسنین دریشک کے حریف تھے ‘ جنہوں نے دس برس تک نواز لیگ کی پشت پناہی سے یہاں حکومت کی ہو‘ اس کے اثرات کس قدر گہرے ہو سکتے ہیں ؟ بقول شاعر '' نقش کہن کو درست کرتے ہوئے بھی ایک عرصہ لگے گا‘‘۔ 
وزیر اعظم کوایک کمیٹی بنا نی چاہئے کہ چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنرز نے اب تک کتنے تبادلے اور تعیناتیاں کیں ؟جس کی رپورٹ سامنے آنے سے معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کن کن پٹواریوں کو کون کون سے سرکل میں تعینات کرایا ہے اور تعینات ہونے والے یہ پٹواری اور محکمہ مال کے دوسرے اہل کاروں کے علا وہ راجن پور جیسے ضلع سے متعلق قبائلی علاقے میںBMP پر تعینات ہونے والے کتنے عرصے تک ان جگہوں پر تعینات رہے۔ ان کی شہرت کیسی ہے ‘ ان کے اثاثہ جات کیا ہیں؟ اسی سے اﷲ دتہ وسایا ڈپٹی کمشنر راجن پور اور غلام صغیر شاہد ڈی سی چکوال کی اصول پسندی کھل کرسامنے آ جائے گی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے ان دونوں با اصول اور میرٹ پر فیصلے کرنے والی بیورو کریسی کے ان دو مہروں‘ جن کے ذریعے پنجاب میںپاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک جانب بدنام کرنے اور دوسری جانب اسے نا کام کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کی بے عزتی کا سلسلہ‘ کن کے اشاروں پر شروع کر رکھا ہے۔ سب پتاچل جائے گا‘کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اصل کہانی سامنے لاتے ہوئے ان''رابطوں‘‘ کو بے نقاب کرنا ہو گا‘ جو غلام صغیر اور اﷲ دتہ وسایا کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔ 
ان دونوں قابل احترام ڈپٹی کمشنرز سے وہ ریکارڈ بھی حاصل کیا جا ئے کہ انہوں نے 2008-18ء تک گزشتہ دس سال میں پنجاب میں میاں شہبازشریف کی حکومت کے دوران کتنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے متعلق کمشنر یا الیکشن کمشنر کو خط لکھتے ہوئے شکایت کی ہے کہ یہ لوگ مجھ سے اپنی مرضی کی تعیناتیوں کیلئے دبائو ڈالتے تھے۔ ان دونوں ڈی سی حضرات کے لکھے گئے خطوط سامنے رکھیں‘ تو ان کی عبارت میں کسی کو بھی چند حرو ف کے آگے پیچھے ہونے کا ہی فرق نظر آ ئے گا۔اﷲ دتہ وسایا کی تحریر میں سردار نصر اﷲ دریشک کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب میں نے ان کی جانب مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا اور میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ تم چونکہ میرے استقبال کیلئے دروازے تک نہیں آئے ‘اس لئے میں تم سے ہاتھ نہیں ملائوں گا۔ ان دونوں ڈپٹی کمشنرز سے صرف اتنا ہی عرض کرنا منا سب سمجھتا ہوں کہ '' اتنی نہ بڑھا پاک داماں کی حکایت ‘دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘ ۔
حضور والا کہانی اس کے بر عکس ہے سردار نصر اﷲ دریشک اس وقت سے سیا ست میں ہیں‘ جب آپ شاید ا بھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہوں گے اور ان کی وضع داری کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ لوگ اب ریٹائر ہو چکے ہوں گے‘ جنہوں نے ان کی وزارت میں ان کے ماتحت کام کیا ‘ پھر غور کیجئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ راجن پور اور چکوال کے ڈپٹی کمشنرز کے خطوط پر3 ستمبر کی ہی تاریخ درج ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں