سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا اس وقت ملک کی مختلف جیلوں سے سزائے موت کے قیدی انہیں خط لکھ رہے ہیں کہ ہمیں بھی این آر او کے تحت معافی دی جائے ‘اور اس سلسلے میں ان کے پاس ان کی معافی کی درخواستوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں؟ اگر زرداری صاحب کو معافی مل سکتی ہے تو سزائے موت کے یہ قیدی این آر او سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ پلی بار گیننگ کا جو قانون منظور ہوا تھا‘ دیکھا جائے تو وہ بھی تو ایک قسم کا این آر او ہی ہے‘ جس سے اب تک سینکڑوں لوگ مستفید ہو چکے ہیں۔ ایک پبلشنگ ہائوس کے مالک نے جنرل مشرف سے کہا تھاکہ آئندہ اس ملک کا ہر حکمران اس کی مرضی سے آیا کرے گا اور اگرکوئی بھی وزیر اعظم اس کی ہدایات کے خلاف چلے گا تو اسے ذلیل کر کے اقتدار کے ایوانوں سے نکال دوںگا۔۔۔۔جنرل مشرف نے اسے کہا کیا امریکی سی آئی اے نے پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کی ذمہ داری تمہیں دے دی ہے۔۔۔۔اس پر مقابلہ شروع ہو گیا‘ جنرل مشرف سی آئی اے سے بری طرح شکست کھا گیا۔۔۔ اور جب صدر زرداری نے بھی اس پبلشنگ ہائوس کے خدائوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تو۔۔۔۔۔زیرو زیرو سیون سمیت سدھائے ہوئے اینکر پرسن ‘سرکس کے مسخروں او جوکروں کی طرح رنگ میں اچھلنے کودنے لگے‘ ایجنسیوں کے تنخواہ دار تجزیہ نگار دن رات تین چار نجی چینلز پر اپنی ماہرانہ رائے ٹھونسنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔ اتنی لمبی چوڑی تمہیدیں باندھنے کی کیا ضرورت ہے‘ بھٹو خاندان سے صاف صاف کہہ دیا جائے کہ ہم تمہیں شیخ مجیب االرحمان کی طرح پاکستان کے حکمران نہیں دیکھ سکتے۔ ا س لیے استعفیٰ دے کر گھر چلے جائو اور آئندہ پاکستان کی سیا ست میں قدم نہ رکھنا؟سیاست سے ہزار اختلاف ہونے کے با وجود ایک بات آج تاریخ کے صفحات میں درج کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔پیپلز پارٹی کو اگر ختم کیا گیا تو پاکستان اور اس کی عوام پر ظلم ہو گا۔۔۔۔ وہ ظلم جو پانچ جولائی کو جنرل ضیا الحق نہ کر سکے۔ وہ زخم جو 6 نومبر کو فاروق لغاری نہ دے سکے‘ وہ ظلم بھٹو خاندان کے ساتھ 16 مارچ کو گیلانی صاحب کر چکے ہیں۔اتنا شور مچانے یا قصے کہانیاں گھڑنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اگر بھٹو خاندان کے خلاف کچھ تحفظات ہیں یا ان کی پاکستان سے وابستگی مشکوک نظر آتی ہے تو سپریم کورٹ میں ان کے خلاف ریفرنس لایا جائے‘ تاکہ یہ روز روز کی چخ چخ بند ہو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر یہ سمجھا جائے کہ اس ملک کے تمام قانون اور ضابطے پیپلز پارٹی کے لیے اور رعائتیں‘ عنائتیں دوسروں کے لیے واجب اور لازم قرار دے دی گئی ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک قرار داد پاکستان میں لکھ دیا گیا تھا؟ کسی بھی معاشرے میں حدود قیود کا تعین کرتے وقت ان حدود و قیود کی شناخت کے لیے قانون بناتے وقت یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوتا کہ اس کا اطلاق صرف فلاں فلاں شخص کے لیے ہے ۔
آج اگر پاکستان کی آبادی 21 کروڑ کے قریب ہے تو کسی بھی قانون کو بناتے ہوئے یہ نہیں لکھا جاتاکہ یہ قانون پاکستان کے فلاں فلاں اشخاص جن کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے ان کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گا ‘ بلکہ یہی لکھا جاتا ہے کہ اس قانون کا اس ملک میں رہنے والے ہر فرد پر اطلاق ہو گا۔ پاکستان کی دولت کسی نے بھی لوٹی ہے‘ پاکستان کی زرعی یا رہائشی جائیداد اگر ضیاالحق‘نواز شریف یا جنرل مشرف نے اپنے چاہنے والوں کو مفت میں تقسیم کی ہے‘ تو یہ کون سے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ جنرل مشرف کی تحفے یا انعام میں دی گئی زرعی یا رہائشی زمین منسوخ کر دی جائے اور باقی لوگوں کی اپنے چہیتوں کو بانٹی ہوئی زمینیں اور پلاٹ قائم و دائم رہیں؟کیا غلام عباس اور منیر احمد خان کی اعلیٰ عدلیہ میں دائر کردہ درخواستیں کس این آر او کی نذرہو چکی ہیں ‘اعلیٰ عدلیہ میں دائر کی گئی وہ درخواستیں کدھر ہیں کیا وہ کورٹ فیس کے بغیر تھیں؟اگر جنرل مشرف کی جانب سے الاٹ کی گئی اراضی پر اعتراض ہے تو پھر جنرل ضیا الحق اور نواز شریف کی عطا کردہ جا گیریں اس سے مستثنیٰ کیونکر ہو سکتی ہیں؟انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قانون سب کے لیے نہ کہ کسی ایک کے لیے۔ اگر۔ کل یا کسی وقت چوہدری برادران یا کسی اور کے پاس اس ملک کی باگ ڈور اور حکمرانی تھی تواپنی ذات پر لگنے والے مالی کر پشن اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات اگر کسی لون کمیشن سے دھل سکتے ہیں تو آج این آر او سے کیوں نہیں؟۔ آج اگر این آر او کالا قانون ہے تو کل کا کوآپریٹو فنانس کارپوریشنوں والا ''لون کمیشن‘‘ سفید اور پاک صاف کیسے ہو سکتا ہے؟ صفائی یا دھلائی کسی بھی برانڈ کے پائوڈر یا صابن سے کی جائے‘ مقصد تو ان سب پائوڈروں اور صابنوں کا لگے ہوئے داغوں کو صاف کرنا ہے‘ چاہے یہ داغ کسی سیا ہی کے ہوں یا شوربے کے‘ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ شوربے کے داغ توا چھے ہوتے ہیں ۔ آصف علی زرداری کی یہ کرپشن اس وقت کسی کو نظر کیوں نہیں آئی جب وہ صدارتی الیکشن میں امیدوار بننے جا رہے تھے ‘کیا اس وقت سوئس بینک اکائونٹس نہیں تھے؟ جب مری اور بھوربن معاہدے ہو رہے تھے‘ اس وقت کرپٹ زرداری کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہا تھا؟ اس وقت کے معاہدے کی کسی ایک شق میں بھی یہ درج نہیں تھا کہ ہم این آر او کو نہیں مانتے۔ جب میثاق جمہوریت پر دستخط ہو رہے تھے تو کیا اس وقت سرے محل نہیں تھا؟کیا اس وقت سوئس کمپنی کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو تحفے میں دیا گیا ہیروں کا نیکلس سامنے نہیں تھا؟کہا جا رہا ہے کہ زرداری کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا کہ شام گیا۔با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے نا م پر ایک نیا صوبہ قائم کرنے کا اعلان کرے‘ اسے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیاجائے گا اور ایک نئی پیپلز پارٹی ''شریکوں‘‘ کی باجگزاربن کر باقی ماندہ دن پورے کرے گی ۔تاکہ راجن پور اور رحیم یار خان کے لوگ سرکار کے دربار میں کسی بھی حاضری کے لیے''مختصر سفر‘‘ کر کے لاہور جاتے رہیں‘ کیونکہ جنوبی پنجاب کے پانچ فیصد سیاستدانوں کے محلات لاہور میں ہیں جبکہ پچانوے فیصد'' عوام‘‘؟
با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے نا م پر ایک نیا صوبہ قائم کرنے کا اعلان کرے‘ اسے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیاجائے گا اور ایک نئی پیپلز پارٹی ''شریکوں‘‘ کی باجگزاربن کر باقی ماندہ دن پورے کرے گی ۔تاکہ راجن پور اور رحیم یار خان کے لوگ سرکار کے دربار میں کسی بھی حاضری کے لیے''مختصر سفر‘‘ کر کے لاہور جاتے رہیں‘ کیونکہ جنوبی پنجاب کے پانچ فیصد سیاستدانوں کے محلات لاہور میں ہیں جبکہ پچانوے فیصد'' عوام‘‘؟