کراچی ‘ استنبول‘ متحدہ امارات اور اسلام آباد میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطا بق‘ اڈیالہ جیل کے خصوصی اسیروں کے ساتھ عنقریب این آر او‘ یعنی ''کھایا پیا سب ہضم‘ گلاس توڑا بارہ آنے ‘‘ ہونے جا رہا ہے‘ جس کیلئے مودی اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو کی سفارش پر برطانوی حکومت تمام معاملات طے کر رہی ہے(یاد رہے کہ جنرل مشرف پر دبائو ڈالتے ہوئے بینظیر بھٹو سے این آر او بھی کونڈاا لیزا رائس نے کروایا تھا)۔
میری اطلاعات کے مطابق ‘اس سلسلے میںدو برادر اسلامی ممالک‘پاکستان کے سول اور عسکری سربراہوں سے معاملات طے کر چکے ہیں ۔سعودی عرب کی جانب سے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کیلئے کچھ یقین دہانیاں اور ضمانتیں دینے کے اقدامات اپنے عروج پر ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ معاملات ابھی طے ہونے باقی ہیں ‘جو عمران خان کے رواں ماہ سعودی عرب پہنچنے پر آگے بڑھیں گے۔ شنید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اکتوبر کے شروع میں پاکستان کو ایک خاموش ڈیپازٹ دینے جا رہاہے ‘جسے پاکستان دیکھ سکتا ہے‘ گن سکتا ہے اور جس کو چاہے‘ دکھا سکتا ہے‘ لیکن اسے خرچ نہیں کر سکے گا اور دس سے پندرہ ارب ڈالرز کا یہ نمائشی تحفہ چار یا پانچ سال کی مدت تک پاکستان کے خزانوں کی رونق رکھا جا ئے گا۔
ذہن نشین رہے کہ2013ء کے انتخابات براہ راست برطانوی ‘کیانی پلان کے تحت ا مریکی ہدایات پر کروائے گئے تھے۔ برطانوی ہائی کمیشن اور شہباز شریف کے درمیان ایک طویل ملاقات میں حسین نوازاور حسن نواز کے علا وہ اسحاق ڈار کے معاملات بھی طے ہوئے اور با وثوق اطلاعات کے مطا بق شہباز شریف‘ جب کلثوم نواز کی میت لینے لندن پہنچے‘ تو برطانوی اداروں کے اہم اراکین سے بھی معاملات طے کئے گئے ۔دوسری طرف اس وقت کچھ غیر ملکی طاقتوں کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی عسکری قیادت اور پنجاب کے عوام میں نفرت ابھارنے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ جیسے ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر جیل سے رہائی پائیں‘ تو پنجاب کی عوام بنگالیوں کی طرح اپنے قومی اداروں کے خلاف سٹرکوں پر آ جائے۔ اس سلسلے میں نواز شریف اور مریم صفدر دونوں شیخ مجیب الرحمن اور حسینہ واجد کے کردار کیلئے خود کو سزا ہونے سے کوئی چھ ماہ قبل ہی ذہنی طور پر تیار ہو چکے ہیں۔ یہ اس لئے بھی مشکل نہیں ہو گا ‘کیونکہ شیخ مجیب الرحمن بننے کا اشارہ وہ کئی مرتبہ اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں دے چکے ہیں۔
اس وقت سوشل میڈیاپر مریم نواز کے میڈیا سیل کی گزشتہ چھے ماہ کی سرگرمیوں کو اگر مانیٹر کیا جائے‘ تو لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی پاکستانی کی لکھی ہوئی پوسٹ ہے‘ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص پاکستان اور اس کے قومی اداروں کا کوئی بد ترین دشمن ہے۔ ان کی پوسٹ دیکھتے ہوئے کوئی شک نہیں رہتا کہ کس طرح نون لیگ پنجاب کے لوگوں کو پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف بغاوت کیلئے تیار کر رہی ہے۔ جاتی امراء میں جس قسم کے نفرت انگیز اورشر انگیز قسم کے نعرے اور غلیظ زبان عدلیہ اور قومی اداروں کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے‘ اسے سنتے ہوئے لگتا ہے کہ پاکستان کے ان اداروں کاوجود مسلم لیگ نون کے ورکروں اور رہنماؤں کیلئے نا قابل برداشت ہو چکا ہے ۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں عدلیہ کے خلاف اس قدر شدید اور زہریلا پراپیگنڈا اس سے پہلے نہیں دیکھا ‘جو اس وقت نواز لیگ کے میڈیا سیل کی جانب سے پھیلایا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی پچاس سے زائد لوگوں کی خدمات اس سلسلے میں حاصل کی ہوئی ہیں۔آصف زرداری سابق صدر مملکت ہونے کی وجہ سے بہت سے رازوں سے واقف ہیں۔انہوں نے ارشد شریف کو ایک خصوصی انٹرویو میں ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ ' ' نواز گریٹر پنجاب‘‘ کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ ارشد شریف نے حیرت زدہ لہجے میں سوال کیا: '' سر! آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘ کتنا بڑا الزام‘ آپ نواز شریف پر لگا رہے ہیں؟‘‘تو سابق صدر آصف علی زرداری نے دوبارہ کہا کہ '' وہ پوری ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ نواز گریٹر پنجاب کے بین الاقوامی منصوبے پر کام کر رہا ہے‘‘۔یہ انٹرویو آج بھی یو ٹیوب اور انٹر نیٹ کی کئی ویب سائٹس پر موجود ہے‘ جسے آپ جب چاہے‘ دیکھ سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ؛عمران خان نے اپنے انتخابی مشور کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا تھا کہ '' دو نہیں‘ ایک پاکستان‘‘اور اس نعرے کوٹی وی پر انتخابی اشتہارات کا بنیا دی موضوع بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اس وقت عمران خان نے کہا کہ '' دو نہیں ‘ ایک پاکستان‘ میرا مشن ہے‘‘ تو حضور والا... اگر آپ کسی مجبوری کے تحت یا کسی دبائو کے تحت دو یا تین لوگوں سے کوئی این آر او کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ تو پھر اس کا اطلاق آپ کو پورے پاکستان پر کرنا ہو گا‘کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ شریف برادران کے ساتھ تو آپ این آر او کر لیں‘ لیکن اس ملک کی جیلوں میں بند جیجا‘ میدا‘ شیدا اور سات سو سے زائد عورتیں اور لڑکیاں جیلوں میں سڑتے رہیں ۔ جی ‘جناب والا!پورے پاکستان کی جیلوں میں پانچ لاکھ سے زائد مرد و خواتین سے بھی آپ کو این آر او کرنا ہو گا‘اگر آپ ان کے ساتھ این آر او نہیں کریںگے ‘تو کل کو کوئی نہ کوئی آپ کے خلاف ضرور ا ٹھے گا ‘ جوآپ سے این آر او کا مطالبہ کرے گا۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک معمولی سی چوری کرنے والا ارسلان ‘ تو پندرہ برس تک جیل میں گلتا سڑتا رہے اور اس ملک کو لوٹنے والے اور اس کو بر باد کرنے والے این آر او کر کے موجیں اڑائیں۔ الغرض !این آر او کا حق صرف چند ایک لوگوں کو نہیں دیا جا سکتا‘ بلکہ یہ حق پھر آپ کو ملک بھر کے تمام قیدیوں اور حوالاتیوں کو دینا ہو گا‘ اگرآپ ایسا نہیں کر سکتے‘ تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اس ملک کے تمام قانون اور ضابطوں کی رعائتیں‘ عنائتیں صرف نواز لیگ کیلئے واجب اور لازم قرار دے دی گئی ہیں۔ کیا شریف فیملی کے ساتھ امتیازی سلوک قرار داد پاکستان میں لکھ دیا گیا تھا۔ کسی بھی معاشرے میں حدود و قیود کے تعین کیلئے قانون بناتے وقت یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوتا کہ اس کا اطلاق فلاں فلاں خاندان پر نہیں ہو گا۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے ‘ تو کوئی بھی قانون کو بناتے ہوئے اس میں کیوںنہیں لکھ دیتاکہ یہ قانون پاکستان کے فلاں فلاں اشخاص کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گا ۔
میراسوال ہے کہ کیاپھر بیوقوف بنانے کیلئے لکھا جاتا ہے کہ اس قانون کا اس ملک میں رہنے والے ہر فرد پر اطلاق ہو گا۔ جناب یہ کوئی کرفیو یا دفعہ144 کا نفاذ تو نہیں‘ جس میں پانچ اداروں کے لوگوں کو اس قانون کی پابندی سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا ‘تو خبر آئی کہ برطانوی ہائی کمیشن اور ترکی کے وزیر خارجہ نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور پھر نواز شریف سے ملاقات کی ہے ‘جس سے یقین پختہ ہو گیا کہ '' ایک نہیں‘ بلکہ دو پاکستان‘‘ اس قوم کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں ‘لیکن یہ بھی شنید ہے کہ یہ این آر او اس وقت تک التوا میں رکھا جائے گا‘ جب تک ایک انتہائی اہم شخصیت امسال دسمبر میں ریٹائر نہیں ہو جاتی ہے۔