"MABC" (space) message & send to 7575

رکیے ‘ جلدی مت کیجئے…!

ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی سے وابستہ ہمارے دوست عوامی جمہوریہ چین نے فرانس میںFATF کے اجلاس میںامریکہ اور بھارت کی لابی میں قدم رکھتے ہوئے پاکستان سے کون سی محبت کا اظہار کیا‘ جس سے ہمیں ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھ دیا گیا ہے۔ گو کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب بھی خیر سے چین سمیت ان دوستوں میں شامل ہے‘ جس نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا‘ جس کا مطلب تو‘یہی ہوا کہ ہمالیہ جیسی بلند دوستی کے دعویدار بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث ہے۔
بد قسمتی کہیے یا کچھ اور‘ ہمارے خلاف یہ فیصلہ اس وقت ہوا‘ جب میاں نواز شریف کی پاکستان پر حکومت تھی اور وہ اپنے بھائی میاں شہباز شریف کے ساتھ سی پیک‘ سی پیک کے راگ الاپتے ہوئے کہیں اورینج ٹرین‘ کہیں کول پاور پراجیکٹ تو‘ کہیں کراچی تک موٹر وے پر48 ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سنا رہے تھے اور ارسطو سمیت ان کا ہر چھوٹا بڑا یہی کہے جا رہا تھا کہ سب دیکھے گے کہ اس سی پیک نے پاکستان کی قسمت بدل دینی ہے۔
پاکستان میںسوائے چند لاکھ لوگوں کے ممکن ہے‘ باقی عوام کو تو شاید یہ علم ہی نہ ہو کہ چین جیسے ہمارے دوست بھی FATF میں بھارت کی تائید کرتے ہوئے ہم پر گرے لسٹ کا پہاڑ گرا گئے ہیں۔ اب تو یہی خوف رہنے لگا ہے کہ اگلے کسی اجلاس میں امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے گرے لسٹ سے بھی دو قدم آگے لے جاتے ہوئے ہمارے سی پیک کے دوست نے پھر سے تعاون کر دیا‘ تو پھر اس سی پیک کو کیا ہم نے چاٹنا ہے؟ یہ روڈ اور بیلٹ ہمارے کس کام کی؟ خود کو ارسطو سے بھی اوپر کی کوئی عقل مند شے سمجھنے والے اسلام آباد کی ایک محفل میں رات گئے قہقہہ لگاتے ہوئے فرما نے لگے '' ہم نے عمران کو اس حد تک پھنسا دیا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اسے کرنا کیا ہے ۔ابھی تو وہ تیس ہزار ارب ڈالر قرضوں کا رونا رو رہا ہے ۔ا س کی اصل چیخیں ‘تو اس وقت نکلیں گی ‘جب اسے سی پیک کا وہ 30 ارب ڈالر بھی مع سود چین کوا دا کر نا پڑے گا‘ جو ہم اب تک خرچ کر چکے ہیں اور جس کا چند برس بعد سود ہی اس قدر زیا دہ ہوجائے گا کہ عمران خان کو بھاگنے کا کہیں رستہ نہیں ملے گا اور وہ خود چاہے گا کہ اسے نکال دیا جائے ‘لیکن اس وقت ہم سب اس کا تما شا دیکھیں گے‘ لیکن یہ ہو گا کہ تبدیلی اور نئے پاکستان کا کانٹا اس وقت تک نکل چکا ہو گا اور اس کے بعد پھر وہی پی پی پی اور نواز لیگ پر مشتمل دو پارٹیوں کا سلسلہ ملک میں ایک ا چھی سیا ست کیلئے دوبارہ شروع ہو جائے گا‘‘۔
جب سے جنرل بپن راوت کی دھمکی اور شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی ملاقات کی منسوخی کا چرچا شروع ہوا ہے ‘شام سات بجے سے رات گئے تک ٹی وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز پر مسلم لیگ نواز کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کی زبان سے یہ فقرے سننے کو مل رہے ہیں '' نریندر مودی نے تو عمران خان کو وزراء خارجہ کی ملاقات کی کوئی دعوت ہی نہیں دی تھی‘ یہ تو ایسے ہی خود سے خط لکھ کر سمجھ بیٹھے تھے کہ اب بھارت جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی آپس میں ملاقات کرا دے گا‘‘۔یقین کیجئے یہ کوئی جگت یا لطیفہ نہیں‘ بلکہ خیر سے جاوید لطیف اور رانا افضل سمیت ہر نون لیگی کی زبان سے یہ الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔
دنیا نیوز پر کامران شاہد کے پروگرام میں نا جانے کس کا میسج ملنے پر رانا افضل ٹی وی پر سینہ تان کر کہنے لگے کہ '' مودی جہاں بھی جاتا ہے ‘اس کو ریڈ کارپٹ دیا جاتا ہے ‘وہ اس دور کا اہم لیڈر ہے اور عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں اسے چھوٹا آدمی کہنا ‘انتہائی غلط بات ہے ‘کیونکہ اس سے نریندر مودی پر بھارت کے عام انتخابات میں منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ رانا افضل کے اس جواب کا تو پھر یہی مطلب نکلتا ہے کہ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عبا سی کو چونکہ کسی بھی ملک میں ریڈ کارپٹ نہیں ملتا رہا ‘اس لئے وہ چھوٹے آدمی ہیں‘ بلکہ شاہد خاقان عبا سی کے تو کپڑے تک نیو یارک ائیر پورٹ پر اتار لئے گئے ‘جس پرشاہد خاقان کو تو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی ‘لیکن ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ جو انہیں مسلسل سات مرتبہ منتخب کرتے چلے آئے تھے ‘ان کو اس قدر شرمندگی اور ذلت محسوس ہوئی کہ انہوں نے عبا سی صاحب کو اس قابل ہی نہ سمجھا کہ اپنے ماتھے پر نیو یارک ائیر پورٹ پر کپڑے اتروانے کا سیاہ داغ سجائیں۔الغرض نوازشریف جیسے لیڈران کی وجہ سے ہی مودی جنوبی ایشیا کاBULLYبنا ہوا ہے۔
نریندر مودی نے پاک بھارت وزراء خارجہ کی نیویارک میں مجوزہ ملاقات سے یو ٹرن لیتے ہوئے جو فیصلہ کیا ہے‘ اس سے اس نے دو مقاصد حاصل کئے؛ ایک طرف تو اس نے پاکستان میں اپنے دوستوں کو خوش کر دیا‘ تو دوسری طرف اس نے اگلے سال کے عام انتخابات میں پاکستان کی جانب گھورتے ہوئے انتہا پسند ہندوئوں میں اپنی مقبولیت بڑھا لی اور بھارت کا آرمی چیف اور فوج‘ جس کے بارے میں ہمارے لبرل اور جمہوری ہر وقت آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں کہ وہ سیا ست میں حصہ نہیں لیتی‘ بھارت کی فوج پروفیشنل ہے ‘لیکن بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے36RFALE فائٹر طیاروں میں مودی امبانی کرپشن کا سکینڈل باہر آتے ہی اس کے خلاف اٹھنے والے شدید رد عمل کو '' پاکستان دشمنی کی آگ‘‘ کی نظر کرتے ہوئے بھسم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مودی کی کرپشن ‘جس پر فرانس کے سابق صدر کے بیان نے تائیدی مہر ثبت کر دی ہے‘ اسے بھارت کا وہ میڈیا جسے نریندر مودی نے اپنے دوست نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اربوں روپے کی نوازشات سے ساتھ ملا رکھا تھا‘ وہ بھی مجبورہو کر اپنی ساکھ کو سہارا دینے کیلئے نریندر مودی کی اس بد عنوانی کے چھوٹے چھوٹے ٹوٹے چلانے پر مجبور ہو چکے تھے۔ کیا کسی وقت بھارت کی اپو زیشن جنرل بپن راوت کو بلا کر پوچھے گی کہ جب بھارتی فوج کے کسی بھی جوان کے سر کاٹنے کی کوئی مصدقہ خبر رپورٹ نہیں ہوئی ‘تو پھر آپ نے ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارت میں عام انتخابات کی صفیں درست کی جا رہی ہیں‘ کس کے کہنے پر پاکستان دشمنی اور سرجیکل سٹرائیک اور جوانوں کے سر کاٹنے کی دھمکیاں دیناشروع کی گئیں؟۔
جنرل بپن راوت کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں‘ جسے اندازہ نہیں تھا کہ جنگ اور نفرت کے گھڑیال بجا کر پاکستان دشمنی کی لہر عام انتخابات سے پہلے مودی کے حق میں چلی جائے گی۔ پلاننگ کے تحت اس نے ایسے وقت کا انتخاب کیا‘ یعنی جب دیکھا کہ پاک بھارت وزراء خارجہ کی ملاقات منسوخ ہونے سے بھارت کے ہندوئوں میںپاکستان دشمنی کا لوہا گرم ہو چکا ہے ۔یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ وزیر اعظم اور پاکستان کے فیصلہ ساز ہمارے جیسوں کی بات پر دھیان دیتے ہوں گے ‘لیکن پھر بھی دیوار کے گوش گزار کر تا ہوں کہ ''بھارت کی حالیہ الزام تراشی اور دھمکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘ اپنی آئندہ کی خارجہ پالیسی یا بھارت سمیت خطے کی صورت حال پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے جنرل اسمبلی میں امریکی صدر کی تقریر کو تنہائی میں ایک نہیں‘ بلکہ کئی بار سنیں‘ ٹرمپ کی اس تقریر کے کچھ حصوں کو روک روک کر مانیٹر کریں‘ ایران پر مستقبل میں عائد کی جانے والی ممکنہ پابندیوں کا تجزیہ کریں‘افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں اشرف غنی کا استعمال امریکہ ا ور چین کی اقتصادی اور علا قائی کھینچا تانی‘آنے والے وقتوں میں چین اور روس کا سٹریٹیجک تعاون اور ان دونوں طاقتوں کے بھارت سے فوجی‘ اقتصادی اور علا قائی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کے خدو و خال وضع کرنے ہوں گے۔
لہٰذا محترم وزیر اعظم صاحب‘ ابھی رکیے اور جلدی مت کیجیے...!

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں