آٹھ برس قبل لکھے آرٹیکل بعنوان '' آگ پھیلتی جا رہی ہے‘‘ کے ابتدائی الفاظ اپنے قارئین کے سامنے‘ آج ایک بار پھر پیش کر رہا ہوں اور بد قسمتی دیکھئے کہ آٹھ برس گزر جانے کے با وجود ہمارے سیا ستدان ملک میں نئے پانی کے ذخیروں کی پھرمخالفت کر رہے ہیں اور اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ سندھ کے وزیر تعلیم نے کل اسمبلی فلو رپر کھڑے ہو کر بھاشا ڈیم کی مخالفت اپنے طور پر کی ہے‘ تو وہ غلطی پر ہے‘ کیونکہ یہ سب کچھ انور مجید اور فالودے والے داغوں کو سندھ دھرتی کے شور کے نیچے چھپانے کی ابتدائی کوشش ہے ۔
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پیش کرتے ہوئے جو اعداد و شمار دیئے ہیں‘ ان کو 8 برس قبل راقم کے کالم کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر ملاحظہ کریں‘ تو آپ کو تحریک انصاف اور اسد عمر پر لٹھ برسانے سے اپنے ہاتھ روکنے پڑیں گے۔ میں نے اپنے اس مضمون میں لکھا تھا: ''ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق2021ء میں پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ آج کے95 روپے سے بڑھ کر 123 روپے فی ڈالر ہو جائے گی( واضح رہے کہ یہ شرح پانچ برس قبل ہی 2018 ء کے ابتدا میں نواز حکومت کراس کر چکی ہے)۔
ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ ''Asian and Global Rice Situation and Outlook''کے مطابق پاکستان کی اندرونی صورت حال اور بیرونی سرمایہ کاری میںکمی نے‘ اس کی معاشی ترقی کو مہمیز کر کے ر کھ دیا ہے۔ اگلے دس سال میں پاکستانی جی ڈی پی4.32 فیصد سالانہ‘ زراعت20.9 فیصد‘ صنعت25.8 فیصداور اس کے مقابلے میںپاکستان کی آبادی‘ جو آج187.34 ملین ہے‘ 2021ء میں بڑھ کر216.64 ملین ہو جائے گی۔ ملک میں دوسری فصل اور چاول کی مجموعی پیداوار کے بارے میں جاری رپورٹ کے مطابق ‘اس وقت2.75 ہیکٹر رقبے پر چاول کی کاشت 6.5 ملین ٹن اور باقی فصلوں کی پیداوار 2.36 ٹن فی ہیکٹر ہے ۔ میں نے اپنے کالم میں بتایا تھا کہ2011 ء میں چاول کی فی ٹن قیمت486 ڈالر تھی‘ وہ کم ہو کر2021ء میں421 ڈالر فی ٹن تک گر جائے گی‘ تاہم اچھے اور اعلیٰ چاول کی قیمتیں800 ڈالر تک مستحکم رہنے کا امکان ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی اس رپورٹ کے مطابق پیداوار کم ہوتی جائے گی اور اس کے مقابلے میں آبادی بڑھتی جائے گی۔ ملک میں کھانے والے بڑھتے جائیں گے اور بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے چھت فراہم کرتے کرتے زرعی زمینیں سکڑتی جائیں گی۔ پٹرول اور ڈیزل آج110 روپے ہے‘ تو دس سال بعد2021ء تک کس قدر مہنگا ہو جائے گا؟ بجلی کس قدر مہنگی ہو گی؟ ٹرانسپورٹ پر اخراجات کتنے بڑھ جائیں گے؟ خوراک کس قدر مہنگی ہو جائے گی؟ جبکہ جنوبی ایشائی ممالک میں لوگ اپنی آمدنی کا کم از کم نصف خوراک پر خرچ کرتے ہیں ‘ملک کی دو تہائی آبادی کس طرح زندگی گزارے گی؟ شاید ہی ہمارے کسی فیصلہ ساز نے اس بارے کبھی کچھ سوچا بھی ہو گا۔ بد قسمتی سے اس قوم کو نہ تو یہ سب کچھ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ قوم چاہتی ہے کہ اسے کچھ بتایا جائے کہ ان کا کیا بنے گا ۔ قوم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہماری توانائی کے ذرائع تیل اور گیس سے چلنے والے پرائیویٹ پاور پلانٹ ہوں گے یا پانی سے چلنے والے بڑے بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹ۔
اب سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی آواز پر قربانی دینی ہے یافرنس آئل اور گیس سے چلنے والے تھرمل اور رینٹل پاور پلانٹس کے مہنگے ترین نرخوں پر گزارا کرنا ہے۔ دس سال بعد تیل کی قیمتوں کوتصور میں لائیں ‘تو آنکھوں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ آنے والے وقت کا تصور کرتے ہوئے ہم سب سوچنا شروع کر دیں‘ تو شاید سب کی زندگی بدل جائے۔وقت بتائے گا کہ چیف جسٹس نے بھاشا ڈیم اور پانی کے دوسرے ڈیمز کی آواز بلند کرتے ہوئے ہمیں جو راہ دکھائی اور وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں جو فنانشل بل پیش کیا‘ وہی اس قوم کا کل ہو گا۔پورے ایشیا ‘بلکہ افریقی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو سب سے زیا دہ پانی کی کمی کا سامنا ہے‘ جبکہ ہمیں حاصل پانی کا 90 فیصدہماری زراعت کیلئے درکار ہے۔تباہی کی طرف مزید قدم بڑھانے کیلئے2009 ء میں ہماری ایک دو صوبائی حکومتوں نے میلوں لمبے فارم ہائوسز کے نام پر پاکستان کی بچ جانے والی زرخیز زمینوں کا ایک میلہ لگاتے ہوئے انہیں بیرونی شیوخ اور امراء کو بیچنے کی کوششیں کیں‘ لیکن بھلا ہو کچھ لوگوں کا‘ جنہوں نے دفاع کو مقدم جانتے ہوئے ‘اسے روک دیا‘ ورنہ پاکستانیوں کی غذا بنانے والی ہزاروں ایکڑ پیداوار اور کم ہوجاتی ۔جنگ ہو یا امن اپنے مقابل دشمن کی چالوں کی تعریف ایک اچھے سپاہی کی شان ہوتی ہے اور میں بھی بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کا معترف ہوں اور یہ تسلیم کرنے میں مجھے کوئی جھجھک نہیں کہ پانی اور بجلی کے مسئلہ پر بھارتی راء نے پاکستان کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اور آج پورا پاکستان کبھی کالا باغ تو کبھی بھاشا کے نام پر راء کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دو چار اپنے ہی عوام سے چندہ مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔
کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو خاک میں ملانا ‘یقینابھارت کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور اب وہ بھاشا ڈیم کیلئے نئے لوگوں کو تیار کر چکا‘ جو جلد ہی ہم سب کے سامنے کھل جائیں گے ۔ اسفند ولی خان ‘ خورشید شاہ اور بلاول بھٹو کو پھولوں کے ہار پہنائے جانے چاہئیں‘ کیونکہ اس محاذ پر گزشتہ چالیس برس سے جاری جنگ میں انہوں نے پاکستان کو پانی اور بجلی میں خود مختار ہونے کیلئے ایک قدم بھی بڑھانے سے روک رکھا ہے ۔ فرنس آئل سے بجلی تیار کرتے ہوئے لوگوں کے ماہانہ بجلی بلوں میں تین گنا اضافہ اور1180 ارب روپے کے گردشی قرضے ہم سب کے سامنے ہیں‘ جبکہ بھاشا ڈیم کیلئے ہمیں فوری طور پر1400 ارب کی ضرروت ہے اور جانتے ہوئے کہ 1180 ارب روپے کے یہ گردشی قرضے ہم پر نواززشریف کی مہربانی سے ‘لوڈ شیڈنگ کو جعلی طور پر ختم کرنے کے نعرے اور دعوے کرتے ہوئے حالیہ عام انتخابات میں عوام کو بیوقوف بنناے کیلئے اس طرح لادے گئے کہ اپنے ہی دوستوں ‘ حصہ داروں کو یہ پاور پلانٹس چار ماہ مسلسل 24 گھنٹے چلانے کا حکم جاری کیا گیا۔ یہ پاور پلانٹ ہمیں23 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کر رہے ہیں اوریہ قوم بھی کیسی قوم ہے کہ جس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ مہنگی بجلی کے عذاب کا اسے سامنا کیوں ہے؟
جس دن ‘جس لمحے یہ قوم سوچنے لگے گی ‘تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس مہنگائی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وہ خود رہے ہیں ۔ سندھی اور پختون بھائیوں کو یہی بتایا گیا ہے کہ بجلی بنانے سے ان کے دریا کا پانی ختم ہو جائے گا۔ ہماراسندھ بنجر ہو جائے گا۔ ہماری تمہاری سب کی کھیتیاں سوکھ جائیں گی‘ لیکن شہباز ؒقلندر اور شاہ عبد الطیف بھٹائیؒ کی دھرتی کے ان بے خبروں کو یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے سے سندھ کا26 ملین سے زائد پانی بحیرہ عرب کی نذر ہو رہا ہے۔ ضائع ہونے والے اس پانی کے نصف نے ان کی بجلی کے بلوں کو آدھے سے بھی کم کر دینا تھا اور بجلی بھی ہر وقت ملنی تھی۔ وہ پانی جو سمندر کی نظر ہو رہا ہے‘ اس سے سندھ کے ہر گھر نے روشن ہونا تھا۔ اس پانی سے ان کے چھوٹے چھوٹے گھوٹھوں میں کاروبار حیات بڑھنا تھا اورانہیں صاف پانی میسر ہونا تھا۔ کراچی میں کسی کو بوتلیں اور بالٹیاں اور تھر میں کسی کو سروں پر گھڑے رکھ کر دھکے نہیں کھانے پڑنے تھے۔
الغرض ذہن نشین رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیر خزانہ اسد عمر ہمارے کل کیلئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں‘ اس کی قد رکیجئے...!!