لوگ پوچھتے ہیں کہ محمد علی نیکو کارہ کدھر ہے؟ وہ آفتاب چیمہ‘ جیسے لوگ جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ کہیں نظر کیوں نہیں آ رہے ؟پتا چلا کہ انہیں کسی طاقتور نے شاید یہ دکھانے کیلئے روک رکھا ہے‘ تاکہ بتایا جائے کہ اسے کہتے ہیں؛ تبدیلی !وہ جو ہمارے لئے کٹ مرے ۔وہ جو اصول کی سیا ست کرتے ہوئے ‘اپنے کیریئرکے جوبن پر اندھیروں میں پھینک دیئے گئے‘ انہیں ہم نے اقتدر میں آتے ہی مزید اندھیروں میں اس طرح پھینک دیا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اصول پسندی کا درس دینے کی ہمت نہیں کریں گے اور وہ جن کیلئے ہم کنٹینرز اور سٹیج پر جلسوں میں کہا کرتے تھے: یاد رکھو! تم سے حساب لیا جائے گا‘ تمہیں چھوڑیں گے‘ نہیں۔وہی آج لاہور ‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ ملتان اور جگہ جگہ اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں‘ تاکہ ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اس طرح ذلیل و خوار کریں کہ آئندہ کوئی تحریک انصاف اور عمران خان کا نام لینے کی بھی حماقت نہ کرے‘پھر بھی کہتے ہیں کہ کہاں ہے‘ تبدیلی ؟ارے ‘یہ ہوتی ہے؛ تبدیلی! اب اگر بیوقوف قسم کے جاہل کارکنوں میں ہمت ہے ‘تو پھر آگے بڑھ کر اس تبدیلی کو روک کر دکھائیں۔
پی ٹی آئی کے یہ بیوقوف قسم کے کارکن کہتے ہیں کہ ہمارا بھی شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ ہونا چاہئے تھا ‘جو ایل ڈی اے کے سینئر افسر کو تھپڑ مار دیا کرتا تھا تو کئی بولتا نہیں تھا‘ وہ رات ایک بجے ہر افسر کو اپنے گھر بلا لیا کرتا تھا۔ وہ صبح پانچ بجے اجلاس بلا لیاکرتا تھا ۔وہ مظفر گڑھ میں ڈی آئی جی کو سب کے سامنے بے عزت کرتے ہوئے معطل کر دیتا تھا۔ کسی عدالت کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس جانب دیکھ بھی سکے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے سامنے گریڈ21 کے پولیس افسر ہاتھ باندھ کر نظریں نیچی کئے‘ خوف زدہ حالت میں کھڑے رہتے تھے ۔ مجال ہے کہ کسی عدالت نے ان کا سو موٹو لیا ہو ؟پاکستان کا میڈیا دس مرتبہ نہیں‘ بلکہ کوئی ایک سو مرتبہ وہ ویڈیو ز دکھا چکا ہے‘ جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہائیکورٹ کے جج کو حکم دے رہے ہیں کہ فلاں مقدمے کا فیصلہ اس طرح کرو اور فلاں کا فیصلہ اس طرح کرو اور مجال ہے کہ کسی عدالت نے اب تک اس کا نوٹس لیا ہو۔ قانون تو یہ کہتا ہے کہ جرم چاہے ‘چالیس برس پرانا ہو‘ جرم جرم ہی رہتا ہے۔ اب ان کارکنوں کو کون سمجھائے ‘اگر عمران خان‘ شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ لے آئیں‘ تو پھر ہمارا تبدیلی کا دعویٰ کہاں ؟اب میں آپ کو کیا کہوں کہ ہم شہباز شریف جیسا نہیں ‘بلکہ سردار عثمان بزدار کی شکل میں تبدیلی لائے ہیں ۔
سب سے پہلے تو تحریک انصاف کے تمام کارکنوں اور میرے سمیت تنزیلہ اور شازیہ کے بہیمانہ قتل پر ہر وقت آنسو بہا نے والے میڈیا کے بیوقوف کارکنوں کو مبارک باد کہے کہ سردار عثمان بزدار نے ماڈل ٹائون کے مشہور کردار گلو بٹ کو گلے لگاتے ہوئے شاباش دینے والے ایس پی طارق عزیز کو 2 ستمبر کی شام گوجرانوالہ میں ایس ایس پی تعینات کر تے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے ہونے والے چودہ قتلوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ روک سکو تو روک لو‘ تبدیلی آئی ہے۔ ارے‘ بھائی کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی‘ کیا اس طرح کی ایک دو نہیں‘ بلکہ دھڑا دھڑ ہونے والی تبدیلیاں عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آ رہی ہیں؟مجھے پاکستان کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور کوئی با خبر صحافی بتائے کہ 1985ء سے15 ستمبر2018ء تک پاکستان کے کسی بھی انتظامی افسر جن میں ڈپٹی کمشنر سے چیف سیکرٹری یا اسسٹنٹ کمشنر نے کبھی بھی خط لکھا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے فلاں ایم این اے یا ایم پی اے نے اس پر کسی اہلکار کے تبادلے کیلئے دبائو ڈالاہے۔ کسی پولیس افسر نے کسی جج کو یا اپنے آئی جی کو لکھا ہو کہ نواز لیگ کا خواجہ سعد رفیق یا خواجہ آصف یا ندیم کامران اپنے علا قوں میں من پسند ایس پی ڈی پی او یا پٹواری کی تعیناتی کیلئے دبا ئو ڈال رہے ہیں۔راقم حلفیہ طور پر لکھ رہا ہے کہ ایک تحصیلدار کو وزیر اعظم ہائوس کے جنرل سکندر کے حکم سے سمندری تعینات کیا گیا ‘وہ جب چارج لینے کیلئے وہاں پہنچا ‘تو وہاں کے ایم پی اے نے اسے بے عزت کر کے بھگا دیا کہ یہاں صرف میرا تحصیلدار رہے گا ۔
ماڈل ٹائون سی بلاک کے ایک گھر کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میںDMG/PSP کے کچھ شہنشاہوں کا مشترکہ ڈنر تھا ۔ کچھ ضروریات سے فیض یاب ہونے کے بعد عشائیہ اپنے نقطہ عروج پر تھا‘ کیونکہ سبھی مدعوئین کسی بہت ہی اچھے ہوٹل سے بھیجے ہوئے بوفے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جی کھول کر قہقہے لگا رہے تھے‘ وہاں موجود ایک غریب سی بطخ کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ قہقہے تحریک انصاف کی ان کے ہاتھوں میڈیا اور عدالتوں میں ہونے والی پٹائیوں پر برسائے جا رہے تھے کہ تبدیلی کی بات کرنے والوں کو کس طرح نتھ ڈال کر ایک کونے میں روک رکھا ہے۔وہ کام جو میاں نواز شریف اور شہباز شریف نہیں کر سکے ۔وہ ہم نے ایک ماہ میں ہی ان کا بھر کس نکالتے ہوئے کر دیا ہے ‘ بلکہ اب تو ان کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اپنے ذاتی کاموں کیلئے نواز لیگ اور پی پی پی کے اراکین اسمبلی کی منتیں کر تے پھرتے ہیں۔ اگر چوہدری سرور کی خالی کی ہوئی پنجاب کی سینیٹ نشست کا انتخاب کوئی دس پندرہ بعد ہوتا تو تین کو آنے والا نتیجہ اس سے بھی مختلف نکلتا۔
میری اطلاع کے مطابق‘ ساہیوال میں تعینات ایک صاحب لاہور کے ایک بڑے افسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے؛ سر چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنرز کے بعد پاکپتن نے تو عمران کو اس قدر ذلیل کر دیا ہے کہ شاید اسی لئے اب وہ باہر نکل کر میڈیا کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگا ہے۔وہ اپنا ایچی سونین یار منصور علی خان تو کمال کر رہا ہے ۔ وہ میرے پاس اسے کافی بریف کیا ہے؟ لاہور کے بی اے پاس کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور صاحب کہنے لگے ؛ چیف کو اس طرح کا ایک آدھ اور کیس اگر انہوں نے فارورڈ کر دیا اور انہوں نے اس پر نوٹس لے لیا تو ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ دو ماہ بعد چند ایک اراکین اسمبلی ہی نظر آئیں ‘ اسی دوران گوجرانوالہ میں تعینات ایک افسر کے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو یکدم وہ صاحب ادب سے تقریباً کھڑے ہو گئے‘ کیونکہ دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ کے ہونہار فرزند کا‘ شاہد خاقان عبا سی کے حلقے میں فوڈ سٹریٹ اور وہاں کے پرانے باسیوں کے کچھ مسائل کی جانب توجہ دلاتے ہوئے‘ شاد باغ سرکل کے ایس پی کو متحرک ہونے کا کہا گیا۔جس نے جواب میں کہا: جناب آپ بے فکر رہیں ‘ہم دونوں قومی اور دو نوں ہی صوبائی نشستیں آپ کو تحفے میں دے رہے ہیں‘ کیونکہ پی ٹی آئی تو اب ہمارے دفتروں کے قریب سے بھی گزرنے سے گھبراتی ہے۔دوسری جانب سے کہا گیا کہ منشا بم کی عقل اب ٹھکانے آ گئی ہو گی‘ کیونکہ جب تک یہ ہمارے والے کھوکھروں کے ساتھ رہا ‘اس کو قبضے کرائے بھی گئے۔ اس سے قبضے چھڑائے بھی کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھتا تھا۔ بڑے بڑے پولیس افسر اس کو سلام کیا کرتے تھے۔ اس دفعہ اس نے ملک اسد اور کرامت کی حمایت کر کے اپنے پائوں پر جو کلہاڑی ماری ہے‘ اس کا ایک مہینے میں ہی نتیجہ دیکھ لیا ہے۔
ہماری دس سال پنجاب میں حکومت رہی ‘یہ ہمارے لئے کام کرتا رہا ‘مجال ہے کہ کسی آئی جی یا ڈی آئی جی نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو ...!