روس کے صدر ولادی میر پیوٹن 4 اکتوبر بروز جمعرات بھارت کے دو روزہ دورے پر تشریف لا ئے۔ ان کے اس دورے میں خلائی تحقیق اور چار ارب ڈالر کے S400 میزائل سسٹم کے دفاعی معاہدے کی باز گشت بھی سامنے آئی ہے۔بھارت اور روس کے اس معاہدے پر امریکی حکام نے بظاہر 3 اکتوبر کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہتر ہو گا کہ ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے لیے بھارت روس سے کوئی معاہدہ نہ کرے‘ اگر ایسا ہوا تو امریکہ کو حق حاصل ہو گا کہ بھارت پر امریکی ضوابط اور طریقہ ٔکار کے تحت پابندیاں عائد کر دی جائیں۔
امریکی انتظامیہ کے بنائے گئے قانون CAATSA کے سیکشن 231 کے مطابق امریکی سالمیت اور دفاع کی مخالف کسی بھی قوت‘ بشمول ایران، شمالی کوریا اور روس ‘سے کوئی بھی ملک اگر دفاعی یا کسی اور قسم کامعاہدہ کرے گا تو امریکہ کی اس قانونی شق کی زد میں آئے گا اور اگر کوئی بھی ملک ان حدود و قیود کو توڑے گا یا امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے عمل کا حصہ بنے گا تو اس کے خلاف امریکہ کی منظور شدہ پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ گو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ ان پابندیوں کو کسی ایک ملک کے لیے کسی ایک وقت کے لیے نرم کر سکتا ہے یا ان پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے سکتا ہے‘لیکن امریکہ کو چونکہ اطلاعات پہلے سے ہی مل چکی تھیں کہ بھارت روس سے ایس400 میزائل سسٹم چار بلین ڈالر میں خریدنے جا رہا ہے‘ اس لیے اسے کہا گیا کہ ایسا مت کریں ورنہ امریکہ کو اپنے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے آپ پر پابندیاں عائد کرنا پڑیں گی‘ لیکن نریندر مودی کو یہ غلط فہمی ہو چکی ہے کہ خطے کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان سے پاکستان کو کمزور کرنے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے نیٹ ورک کی مدد کرنے اور پاکستان اور چین کے سی پیک منصوبے کو روکنے کے لیے بھارت امریکہ کی کمزوری اور نا گزیر ضرورت بن چکا ہے۔ اس لیے وہ بھارت کو میزائل سسٹم کی جدیدتکنیک سے وقتی طور پر برہم ہونے کے بعد یہ پابندیاں واپس لے لے گا یا ان کو بڑی حد تک نرم کر دے گا‘ کیونکہ اس وقت امریکی سینیٹ اور کانگریس سمیت کوئی دو درجن کے قریب تھنک ٹینک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی وارننگ اپنی جگہ پر لیکن S-400 KAMOV کی بھارت کو فروخت کا معاہدہ نریندر مودی اور پیوٹن کے ایجنڈے پر سر فہرست رکھا جا چکا ہے‘ اور جمعرات کو نئی دہلی پہنچنے کے بعد مودی پیوٹن ملاقات میں اس پر پیش رفت بھی ہو چکی ہے۔کچھ سفارتی اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے کر رہا ہے‘ کیونکہ اخبار ہندو کی رپورٹ کے مطا بق بھارت نے روس سے یہ میزائل خریدنے کی ابتدائی سمری کے وقت ہی امریکی حکام کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ بھارت کی جانب سے امریکہ کو باور کروایا گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ہم امریکہ کے سب سے بڑے سٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے خود نئی دہلی میں سشما سوراج کے ساتھ کھڑے ہو کر اس عہد کا اعادہ کیا تھا کہ بھارت ہمارا سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔اور اُس وقت جب امریکی وزیر خارجہ بھارت کے بارے ان تاثرات کا اظہار کر رہے تھے ‘ وہ جانتے تھے کہ ہم روس سے ایس400 میزائل سسٹم کی خریداری کی بات چیت مکمل کر چکے ہیں‘ اور پومپیو جب دہلی پہنچے تو انہیں یہ بھی علم تھا کہ روسی صدر پیوٹن اکتوبر میں اس میزائل سسٹم کی خریداری کے معاہدے پر با قاعدہ دستخط کرنے کے لیے دو روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچنے والے ہیں۔البتہ بھارت کے انگریزی اخبار ہندو سے دوران گفتگوامریکی حکام نے اس مفروضے کی سختی سے تردید کی کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے دو ہفتے قبل اپنے دورۂ بھارت میں بھی بھارتی حکام کو روس سے یہ میزائل خریدنے سے منع کرتے ہوئے امریکی صدر کا اس سلسلے میں پیغام بھی پہنچایا تھا۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھارت کی تمام قیا س آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں بھارت کو یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ بھارت امریکہ سے18 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے جا رہا ہے‘ جس کے لیے ضروری تفصیلات بھی طے پا چکی ہیں۔ روس سے ان میزائل کا دفاعی سودا کرنے کے بعد امریکہ کے لیے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ بھارت کو اٹھارہ ارب ڈالر کے اس دفاعی سودے کو ممکن بناتے ہوئے اس پر عمل کر سکے اور اسلحے کی اس ڈیل کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کرنا پڑے گا ۔ اس سلسلے میں اگر امریکی آفس سے کوئی شخص بھارت کے لیے نرم رویہ رکھنا بھی چاہے گا تو وہ ایسا نہیں کر سکے گا‘ کیونکہ ہمیں اس سلسلے میں اپنے ہی وضع کردہ قانونCAATSA کے سیکشن231 پر عمل کرنا پڑ سکتا ہے۔جیسا کہ اس کالم کے شروع میں لکھا ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے کر رہا ہے اور بھارتی اخبار ہندو کو دیا جانے والا وضاحتی بیان امریکہ نے دنیا کو صرف دکھاوے کے لیے دیا ہے‘ کیونکہ نئی دہلی میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو نے ایس400 کے معاملے میں بھارت سے مایوس ہونے کے با وجود کیسے کہہ دیا کہ بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔Neil Bjorkman جو بھارت کے کٹر حامی کے طور پر امریکہ بھر میں مشہور ہیں اور جو Legislative Affairs at the U.S.-India Strategic Partnership Forum ) USISPF (کے نائب صدر بھی ہیں‘ اس کی جانب سے بھر پورکوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت بھلے روس سے کچھ بھی خریدے‘ لیکن اس کے کسی بھی کئے گئے معاہدے کو امریکی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔
امریکہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطا بق ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کی ایس400 خریداری پر بہت عرصے سے نظر رکھے ہوئے تھی اور امریکی وزیر دفاع میٹس اس سلسلے میں بھارت سے مسلسل رابطے میں بھی تھے او ر ری پبلکن اور سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی بھی کچھ نرم پڑتی دکھائی دیتی ہے‘ کیونکہ ان کی جانب سے WAIVER AUTHORITY کی منظوری سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہIS IT BLANK CHEQUE FOR INDIA?۔ لاڈلے بھارت کو خوش کرنے کے لیے واشگٹن ڈی سی سے امریکی قوانین کی پاسداری کا جنازہ نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ڈونلڈ انتظامیہ بھارت کے لیے کوئی بہتر رستہ نکالنے کے لیے دائو پیچ چلانے کے چکر میں ہے۔اب امریکہ کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ وائٹ ہائوس سے جب پوچھا گیا کہ وہ بھارت کے لیے کب تک 231 کی شق معطل کر رہے ہیں‘ جس پر کہا گیا اس کے لیے ہمیں صدر ٹرمپ کے احکامات کا انتظار کرنا ہو گا کہ۔لیکن یہ بات ہمارے سامنے واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ میں کوئی بھی پریشر گروپ بھارت پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہے۔مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے تو ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ روس کو کسی طریقے سے نوازا جائے۔ بھارت امریکہ بزنس کونسل ڈیفنس اینڈ ایرو سپیس پروگرام کے سربراہ بنجمن شوارز کا کہنا ہے کہ CAATSA کا بنیادی مقصد سزا دینا ہے نہ کہ روس کو انعام۔ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں کامران مرتضیٰ اور یاسین آزاد ایڈووکیٹ کو سننے کا اتفاق ہوا جو کہہ رہے تھے پاکستان میں اس وقت کوئی اور حکومت کرتا ہے ‘سیا سی لوگ نہیں۔ان جیسے بھارت پر روس سے میزائل خریدنے پرپابندیوں کے قانون کے نفاذ بارے و ائٹ ہائوس کے یہ الفاظ دیکھ لیںPresidential Waiver Arises if and only when White House or Pentagon want۔یہ ہے امریکہ کے ایک صدی سے سول ملٹری ریلیشن جس کی وجہ سے آج امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔