جس عمران خان صاحب کو میں 1997ء سے بہت ہی قریب سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں ‘اسلام آباد میں وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھا ہوا شخص وہ عمران خان لگ ہی نہیں رہا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج ان کے اقتدار کے پچاس دن گزرنے پر بھی اس عمران خان کی ہلکی سی جھلک بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کمانڈ کرتا دکھائی دیا کرتا تھا‘ جسے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں دیکھا‘ وہ عمران خان آج حکومت کے ایوانوں کے اندر بوجھل قدموں سے گھومتا پھر رہا ہے۔ 3 ستمبر کو حکومت کا قومی اسمبلی سے صرف دو ووٹوں کے فرق سے منظور ہونے والا ضمنی بجٹ ان کے لئے لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ آنے والے وقت کاطبل ِجنگ بھی ہے ۔ میاں نواز شریف کسی بھی وقت عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو وزارت عظمیٰ دینے کی پیش کش کر چکے ہیں‘ لیکن ا س کے لیے یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ پہلے کی طرح اقتدار میں آتے ہی اسے یعنی پی پی پی کو قومی اسمبلی سے چند ترامیم منظور کرنا ہوں گی‘ تاکہ شریف فیملی کی تمام سزائیں اور ریفرنس اسی طرح ختم ہو جائیں جس طرح اس سے پہلے کئی بار ختم کی گئی تھیں۔
یہ حقیقت ہے کہ زرداری اور نواز ایک بار پھر پہلے کی طرح بھائی بھائی بن چکے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ دسمبرمیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف نواز لیگ او رپی پی پی تحریک اعتماد پیش کر دیں گے‘ اور اگلے مرحلے میں مرکز میں نواز زرداری کے لیے حکومت بنانا آسان ہو جائے گا‘ کیونکہ پنجاب میں تبدیلی آتے ہی اس وقت عمران خان صاحب کی صفوں میں بیٹھے ہوئے تیس سے زائد اراکین قومی اسمبلی نواز‘ زرداری کے ہاتھوں پر بیعت کر لیں گے ۔ عمران خان صاحب کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام آباد میں جو تجاوزات گرائی گئی ہیں وہ کسی عام شخص کی نہیں‘ ایک ایک رکن کو آسانی سے25 کروڑ میں خریدنے والے کی ہیں‘اور وہ ہمیشہ سوچ سمجھ کو وقت پر وار کرتا ہے۔ نیوز الرٹ ہی سمجھ لیجئے کہ عمران خان صاحب کے زبردست مخالف نجی چینل کی ''امداد‘‘ بھی اب ان کی جیب خاص سے ا دا کی جا رہی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کے بارے میں وہ چینل نرم ہو چکا ہے۔ یہ صافیاں اور ٹافیاں ایسے ہی اس کی اگلی نشست پر نہیں بیٹھ رہیں؟
وہ عمران خان صاحب‘ جنہیں تبدیلی کی خواہش مند پاکستانی قوم دن رات کی جدو جہد کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھ رہی ہے‘ کس قدر بے بس ہیں‘ اس کا اندازہ ان کے انتہائی قریبی حلقے بھی نہیں کر سکتے ۔اگر اصلی عمران خان صاحب کو دیکھنا تھا تو کاش ان کی جماعت تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور پنجا ب میں الگ الگ مزید تیس تیس نشستیں حاصل ہو تیں۔آج تو عمران خان صاحب کی پوزیشن ایسے ہی ہے جیسے کسی ایسے کرائے کے گھر میں بیٹھا ہوا ہو جس کا مالک مکان بھی اس کے اوپر والے پورشن میںہو‘ جس کی آئے روز کی فرمائشیں اور روک ٹوک ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی ہوں۔ 1997ء میں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم کی کرسی اقتدار پر بیٹھے تو پی پی پی کے پاس قومی اسمبلی کی صرف چودہ نشستیں تھیں اور نواز شریف کے پاس دو تہائی اکثریت تھی‘جبکہ پنجاب میں تو اپوزیشن کی صرف سات نشستیں تھیں۔ انہیں نہ تو پنجاب میں کسی بھی قسم کے قانون کو منظورکرانے میں رکاوٹ تھی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں ‘ اور یہی صورتحال1990ء اور پھر 2013ء میںبھی تھی۔ اختیارات میں دونوں بھائی کسی مغل شہنشاہ سے کم نہیں تھے‘ ان کی اُٹھی ہوئی انگلی ہی حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ مرکز میں نواز شریف کے ایک ہلکے سے اشارے سے قانون منظور کرائے جاتے تو پنجاب میں شہباز شریف کا ایک ہلکا سا اشارۂ ابرو ہر ضابطے اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا تھا۔ ایڈیشنل آئی جی کی وردی میں ملبوس پولیس افسران راجا کے قدموں میں بٹھائے جاتے ۔ اس وقت تو کسی بی اے پاس ڈی آئی جی نے خط نہیں لکھا ‘کسی چیف سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر نے کوئی اقدام نہیں کیا؟ فیصل آباد کی وہ کھلی کچہری ممکن ہے لوگ بھول گئے ہو ںجس میں ایک چیف انجینئر کونواز لیگ کے ایم این اے کی شکایت پر کھلی کچہری میں ہتھکڑیاں لگا کرپی ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا تھا۔یہ شہنشاہوں کے دور میں تو ہو سکتا ہے‘ کیا کسی جمہوری معاشرے میں اس کی کوئی مثال دی جا سکتی ہے؟ یہ دو تہائی اکثریت کا نشہ تھا۔ پھر وہ ہمت اور جرأت دیکھئے پاکستان کا نجی میڈیا نہ جانے کتنی مرتبہ جس کی ریکارڈنگ بھی دکھا چکا ہے‘ جس میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اور احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمان کسی عام اہلکارکو نہیں‘ کسی جونیئر سول جج کو نہیں بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ججوں ملک قیوم اور راشد عزیز کو فون پر بے خوف ہو کر ڈانتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے من پسند فیصلے کرانے کے احکامات دے رہے ہیں۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی سینیٹ کی خالی کی گئی نشست میں پی ٹی آئی کے ڈاکٹر شہزاد وسیم کی خواجہ احمد احسان کے169 ووٹوں کے مقابلے میں صرف12 زائد ووٹوں سے کامیابی سب کے سامنے ہے۔ اگر نواز لیگ اورپی پی پی کے '' زمینی بینک‘‘ پی ٹی آئی سے صرف چھ ووٹ اپنے ساتھ ملالیتے ہیں تو تحریک انصاف کے چھ ووٹ دوسری جانب چلے جانے سے 175 ہو جائیں گے‘ اور یہی گنتی نواز لیگ کی ہو جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک عمران خان صاحب نہ تو پنجا ب میں اور نہ ہی مرکز میں کھل کر اپنی22 سال کی طویل جدوجہد پر مبنی اپنے اندر بسائے ہوئے اسلامی فلاحی ریا ست کے خواب کو اصل صورت میں پورا کرسکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا 90 فیصد میڈیا عمران خان صاحب کی حکومت کے خلاف دوسرے ہفتے سے ہی وہ دھول اڑاتا دکھائی دے رہا ہے جو نواز شریف کے تین برس گزرنے پر بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جس ٹی وی چینل کو دیکھیں ایسا لگتا ہے کہ عمران خان صاحب کو شایدتین یا چار سال حکومت کرتے ہو گئے ہیں ۔ہر جگہ مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے‘ سبھی کارکردگی کا سوال کرتے پائے جاتے ہیں‘ایک چینل پر پی پی پی اور نواز لیگ کے اراکین کے ساتھ نواز شریف کے حامی ایک صحافی کو بٹھا کر تحریک انصاف کے رکن سے پوچھا جا رہا تھا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟ کوئی انہیں بتائے کہ ایک ایسی حکومت جسے ملک ان حالات میں ملا ہو کہ معیشت مفلوج ہو‘ کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہو‘ لوگوں کی امیدیں آسمان کو ہاتھ لگا رہی ہوں ‘ وہ زیادہ سے زیادہ 50 دنو ں میں بھلا کیا کر لیتی۔ اتنے کم وقت میں حکومت کی کارکردگی کی پیمائش کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ پشاور کے ایک حلقے میں مارچ میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب سے تین روز قبل عوام کی رائے جاننے کے لیے ایک نجی ٹی وی کے اینکر عوامی نیشنل پارٹی اور نواز لیگ کے لوگوں کے مختلف جگہوں پر کھڑے کرائے گئے ورکروں اور حامیوں سے پوچھ پوچھ کر ناظرین کے ذہنوں میں یہی جھوٹ ڈالتا رہا کہ این اے چار پشاور میں پی ٹی آئی کا تو کوئی ووٹ ہی نہیں یہاں تو میں جس سے بھی بات کرتا ہوں وہ اے این پی یا نواز لیگ کا ہے ۔ یہ ایک قسم کی نواز لیگ کی نفسیاتی اور ٹیکنیکل کیمپین تھی ۔ جب تیسرے دن اس حلقے کے ضمنی انتخاب کا رزلٹ سامنے آیا تو تحریک انصاف کا امیدوار تیس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے نواز لیگ کے امیدوار کو شکست دے چکا تھا ‘کیونکہ کے پی کے میں کسی بھی قانون کو منظور کرانے کے لیے ان کے پاس مطلوبہ اکثریت تھی۔ صورتحال اس وقت واضح ہو گئی تھی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔