پنجاب بھر میں‘ خاص طور پر لاہور‘ شیخوپورہ‘ فیصل آباد اور قصور کے گرد و نواح میں راہزنی اور ڈکیتی کی وارداتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس قدر کہرام مچا ہوا ہے کہ ہر شخص گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتا ہے۔ لٹنے والوں میں سے بمشکل بیس فیصد مرد و خواتین تھانوں میں رپورٹ کرتے ہیں‘ ورنہ ایف آئی آرز کی اس قدر بہتات ہو جائے کہ تھانوںکے رجسٹر تک ختم ہو جائیں۔ پولیس افسران کو شاید اب اس لیے کوئی پروا نہیں کہ کوئی بھی عوامی نمائندہ ان کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے فون کرتے ہوئے ڈرنے لگا ہے۔ کچھ حلقوں کی جانب سے شہ ملنے پر پنجاب بھر کی پولیس شتر بے مہار ہو تی جا رہی ہے‘ ساتھ ہی تحریک انصاف کی حکومت غیر مقبولیت کے راستے پر گامزن ہے‘ کیونکہ وہ کسی پولیس ا فسر سے جواب طلب نہیں کر سکتی ہے کہ اس کے علا قے میں جرائم کیوں بڑھتے جا رہے ہیں۔ لاہور کے جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ‘وہاں چن چن کر ایسے ایس ایچ اوز اور دوسرے پولیس افسرتعینات کر دیئے گئے ہیں‘ جو حمزہ شہباز اور سعد رفیق سمیت افضل کھوکھر کے قدموں میں بیٹھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور پولیس پر ہی کیا موقوف‘ انتظامیہ بھی اپنے سابق آقائوں کی بھرپور مدد کر رہی ہے۔ محترم وزیر اعظم صاحب! ہم ایک دوسرے کوذاتی طور پر جانتے ہیں کیونکہ میرا اور آپ کا 1997ء سے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ آپ کی ذات کو شریف برادران کی بھرتی کی ہوئی انتظامیہ کس طرح نا کام بنا رہی ہے اس کا ایک چشم دید واقع سن لیجئے۔ لاہور کی مال روڈ پر واقع راجہ صاحب گارمنٹس شاپ سے ملحق چھوٹی سی سڑک کے ساتھ ساتھ اندرکی طرف جائیں تو بائیں ہاتھ پر ایک پٹھان بابا کا چائے کا ایک چھوٹا سا کھوکھا ہے جہاں سے اندر آبادی میں پھیلی ہوئی بہت سے چھوٹی موٹی ورکشاپس اور ہاتھ سے کام کرنے والے مختلف مزدور چائے پیتے ہیں ۔ چند دن ہوئے کچھ لوگ اس پٹھان با با کے کھوکھے پر آئے اور انہیں کہا کہ تمہارے کھوکھے کے نیچے یہ پلاسٹک کا شاپر پڑا ہے جس کا تمہیں ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جا رہا ہے ‘کیونکہ عمران خان کی نئی حکومت نے حکم دیا ہے کہ جو بھی یہ کچرا اور کاغذ وغیرہ پھینکے گا‘ اسے ایک ہزار روپیہ جرمانہ کر دو۔ا ب وہ غریب چھوٹے سے کھوکھے والا پٹھان‘ جس کی روز کی آمدن پانچ سو روپے بمشکل ہوتی ہے‘ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ چائے تیار کرتے ہوئے ہمارا دھیان اس سڑک پر نہیں ہوتا‘ اور کوئی اگر میرے کھوکھے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس گلی میں کاغذ کا ٹکڑا پھینک جائے تو اس کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتاہوں‘ اور دوسرا یہ کہ یہ تو کچی آبادی ہے اس کا مال روڈ سے کیا تعلق؟ لیکن وہ سرکاری اہلکار بضد تھے کہ ایک ہزار جرمانہ ادا کرنا ہی ہو گا۔ تنگ آ کر اس خان با با نے کہا کہ میرے پاس ایک ہزار روپیہ نہیں ہے‘ ہم کو عمران خان کی جیل میں ڈال دو۔ شور بڑھا توبہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور کہا کہ اس میں اس کھوکھے والے خان کا کیا قصور ہے۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ کہیں سے اڑتا ہوا ایک خالی شاپر آیا چائے والے کے کھوکھے کے ساتھ والی دکان کے ساتھ رکھے بنچ سے ٹکرا کر رک گیا۔ اب سب لوگ کہنے لگے کہ دیکھو اس میں اس دکا ندار کا کیا قصور ہے؟ بڑی مشکل سے اس چائے والے کی جان اس بات پر چھوٹی کہ ہم تمہیں وارننگ دے کر جا رہے ہیں آئندہ کوئی شاپر یا کاغذ نہ دکھائی دے ۔
پنجاب میں عمران خان کے خلاف بڑے ہی منظم طریقے سے نفرت بڑھائی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب میں ہیلمٹ کی پابندی کے حوالے سے متعدد آپریشن کئے گئے‘ لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ چند دنوں میںپکڑ پکڑ کر ایک ہزار روپیہ جرمانہ شروع کر دیا جائے‘ جبکہ لاہور کی مارکیٹ میں اس وقت ہیلمٹ ختم ہو چکے تھے ۔ایک نہایت غریب آدمی‘ جس کے پاس ایک پرانی سی موٹر سائیکل ہے‘ اسے روک کر ایک ہزار جرمانہ کر دیا گیا ‘جبکہ وہ ہیلمٹ لینے کے لیے گیا تھا‘ لیکن سٹاک شاید کم تھا‘ اور میکلوڈ روڈ کے دکاندار بلیک میں پندرہ سو سے دو ہزار روپے مانگ رہے تھے۔ وہ بے چارہ صرف سات سو روپے لے کر گیا تھا‘اور اس کا چالان ہو گیا۔ اس بے چارے کو میں نے اپنے بیٹے کاایک پرانا ہیلمٹ دے دیا کیونکہ جرمانہ ادا کرنے کے بعد اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ جناب وزیر اعظم صاحب! نہ جانے آپ کی جماعت کا سیکرٹری جنرل کون ہے جسے خبر ہی نہیں کہ ضمنی انتخابات سے پہلے رائے عامہ کو تحریک انصاف سے بد ظن کرنے کے لیے شہباز شریف کے شہبازآپ کی جماعت کے خلاف کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ انہیں کوئی فون نہ کرے کہ لاہور میں ہر راہ گیر کیوں لٹ رہا ہے ‘کوئی انہیں پوچھنے کی ہمت نہ کرے کہ ان کے گھروں میں ڈکیتیاں کیوں ہو رہی ہیں‘ جبکہ میرے ایک عزیز کے گھر میں‘ جو محکمہ ٹیلیفون کے ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے ہیں ‘ایک ماہ میں دو دفعہ چوری نہیں ڈاکہ پڑ چکا ہے۔ واپڈا ٹائون لاہور میں چور ان کے گھر میں اس وقت داخل ہوئے جب وہ شادی میں شرکت کے لیے فیصل آباد گئے ہوئے تھے۔ چور گھر کے چاروں جانب لگے ہوئے تالے توڑ کر بند گھر میں داخل ہوئے اور وہاں سے تمام سامان‘ جن میںسلے ‘ان سلے زنانہ اور مردانہ کپڑے‘ تمام جوتے‘ قیمتی برتن اور دوسرا تمام چھوٹا موٹا قیمتی سامان تھا ساتھ لے گئے۔ گھر کے دروازوں کو ہتھوڑیوں اور بھاری چیزوں سے توڑ کر ہر کمرے میں داخل ہوئے اور ایک ایک کمرے کا سامان ساتھ لے گئے۔ گھر کی وہ حالت کر دی کہ کوئی الماری اور کوئی دروازہ سلامت نہیں چھوڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان چوروں کو کسی کا ڈر نہیں تھا‘ کیونکہ جس طرح دروازے اور الماریاں توڑی گئی ہیں‘ اس سے پیدا ہونے والی آوازوں سے پورا علا قہ اٹھ سکتا تھا ۔ مظلوم گھر والے پولیس کے پاس گئے۔ پہلے تو کسی نے بات ہی نہیں سنی۔ کسی طریقے سے مٹھی گرم کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازم پر شک کا اظہار کیا‘ جسے پولیس نے گرفتار تو کر لیا‘ لیکن اس علاقے کی ہمیشہ سے ہی چلی آئی انتہائی طاقتور شخصیت کے کہنے پر فوری چھوڑ دیا گیا۔ اور اب آٹھ دس روز ہوئے کہ ایک مرتبہ پھر ان کے گھر میں چوری کی واردات ہو گئی ہے‘ جس کی دوسری ایف آئی آر بھی درج کرا دی گئی ہے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب ہی ہمارا یہ نقصان پورا کر دیں ‘ تھانے کے چکر لگاتے ہیں تو کوئی سنتا ہی نہیں۔ جب انہیں کہا: ایس ایچ او صاحب اب ایسا نہ کریں تبدیلی آگئی ہے توسب ہنسنے لگے کہ با با جی پاگل ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا: با با جی تبدیلی آپ کی ہے ‘افسر تو وہی ہیں۔سنا تھا کہ ہمارے ناصر درانی اور کے پی کے سے نئے انسپکٹر جنرل پولیس طاہر صاحب پنجاب تشریف لائے ہوئے ہیں‘ لیکن آج کوئی بیس دن گزرنے کے بعد حالت یہ ہے کہ ان کی ماتحت پورے پنجاب کی پولیس تو ایک طرف‘ لاہور واپڈا ٹائون کی پولیس ہمارے گھر میں دو مرتبہ ڈکیتی کی اس واردات کی اس طرح تفتیش کر رہی ہے جیسے مرغی چوری کی گئی ہو۔لاہور پولیس کے افسران کے موبائل فونز پر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی گفتگو تو ریکارڈ ہو جاتی ہے‘کیا وجہ ہے کہ حمزہ شہباز کی نہیں۔ محترم عمران خان صاحب بتا دیجئے کہ لاہورپولیس کس کو جواب دہ ہے‘ تاکہ ایک ماہ میں اپنے گھر ہونے والے دو ڈاکوں کا انصاف اس سے مانگ لیں۔
وزیر اعظم صاحب نہ جانے آپ کی جماعت کا سیکرٹری جنرل کون ہے جسے خبر ہی نہیں کہ ضمنی انتخابات سے پہلے رائے عامہ کو تحریک انصاف کے خلاف بد ظن کرنے کے لیے شہباز شریف کے شہبازآپ کی جماعت کے خلاف کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ انہیں کوئی فون نہ کرے کہ لاہور میں ہر راہ گیر کیوں لٹ رہا ہے ‘کوئی انہیں پوچھنے کی ہمت نہ کرے کہ ان کے گھروں میں ڈکیتیاں کیوں ہو رہی ہیں۔