مقدمہ صرف اتنا سا ہے کہ احتساب کورٹ کے جج کے پوچھنے پر انتہائی محترم استاد کہنے لگے کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے جو ہدایت آتی تھی‘ اس پر فوری عمل کر دیا جاتا تھااور یہ وہ ہدایات ہی تھیں‘ جن پر عمل کرتے ہوئے ہم نے بھرتیاں کر لیں‘ ان کا حکم مانتے ہوئے ‘جو ہم مانتے ہیں کہ منا سب نہیں تھے‘ لیکن پھر بھی اس قسم کے جرم میں ہمیں کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے؟جس پر عدالت میں زبردست قہقہہ پڑا اور یہ بھرتیاں کوئی دس بیس نہیں‘ بلکہ گریڈ17 سے اوپر کی صرف550 ہیں۔ استاد محترم فرمانے لگے: جب گورنر اور وزیر اعلیٰ حکم دیں‘ تو پھر ہم میرٹ اور قواعد و ضوابط کا خیال کیسے رکھ سکتے تھے؟ اب قانون اور معاشرے سے دو سوالات کئے جا سکتے ہیں کہ جرم صرف ان پانچ وائس چانسلرز کا ہی نہیں‘ اس گورنر اور وزیر اعلیٰ کا بھی ہے‘ جنہوں نے یہ غیر قانونی بھرتیوں کی ہدایات بھیجی اور دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا یہ کسی استاد کا مقام ہو سکتا ہے کہ وہ غیر قانونی احکامات پر آنکھیں بند کرتے ہوئے عمل کرتا جائے؟اگر یونیورسٹی کی سطح پر استا دوں کا معیار یہ ہو گا تو پھر اس بیورو کریسی اور دوسرے اہل کاروں‘ سمیت ‘ جویہاں سے تعلیم حاصل کر کے زندگی کے دوسرے میدانوں میں کردار کیسا ہو گا؟لہٰذا عام پاکستانیوں اور قوم کا اس ملک کے ساتھ کیا جانے والا سلوک غیر متوقع تو نہیں‘ کیونکہ جو بویا جا رہا ہے ‘وہی تو کاٹنا ہے۔
٭ اگر استاد مقام اپنا سنبھالے رکھتا ‘کیسے ممکن تھا کہ دستار اچھالی جاتی‘ اگر احتساب بیورو میں ہمت ہے‘ تو اس گورنر اور وزیر اعلیٰ کو اس مقدمے میں باقاعدہ گرفتار کرتے ہوئے ہتھکڑیاں لگا کر دکھائیں‘ جن کے غیر قانونی احکامات کی اپنی ٹوہر اور نفع بخش نوکریوں پر قائم رہنے کیلئے تعمیل کی گئی ؟ اب سوال یہ ہے کہ ان اساتذہ کرام کو ہتھکڑیاں کس نے ا ور کس کے کہنے پر لگائیں؟قومی احتسا ب بیورو نے جب سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کو گرفتار کرنے کے بعد کئی بار ریمانڈ لینے کیلئے احتساب عدالت میں پیش کیا ‘تو کیا انہیں ہتھکڑی لگائی گئی تھی؟سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو ہر دس پندرہ دن بعد ریمانڈ کیلئے نیب کورٹ میں پیش ہوتے دیکھاجا رہاہے‘ کیا انہیں ہتھکڑیاںلگائی گئیں؟پھر کیا وجہ ہے کہ مجاہد کامران سمیت چار دوسرے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرز کو ریمانڈ کیلئے احتساب عدالت لاتے ہوئے ہتھکڑیوں میں لایا گیا؟ کیا یہ کوئی پہلے سے ترتیب دیا گیا سکرپٹ تھا کہ جیسے ہی وہ گاڑیوں سے اترے تو لمحے بھر کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح میڈیا نے ہتھکڑیوں کی فلمیں گھر گھر پہنچا دیں۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بہت ہی اچھا کیا کہ اساتذہ کرام کی اس توہین پر فوراً سو وموٹو ایکشن لے لیا‘ لیکن وہ سوال جو ابھی تک ہمارے جیسے لوگوں کے ذہنوں سے نکل نہیں رہا کہ اساتذہ کرام کو کیا یہ ہتھکڑیاں نیب کے اہل کاروں نے ہی لگائی تھیں یا یہ لاہور پولیس کی مہربانی سے ایسا کیا گیا‘تاکہ دو دن بعد چودہ اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے پڑھے لکھے گھروں کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے مشتعل کیا جا سکے۔
نیب کایہ ایک واضح طریقہ کار چلا آ رہا ہے اور جو ہم سب دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف ‘ شہباز شریف یا صاف پانی کیس کے قمر لاسلام سمیت کسی زیرتفتیش ملزم کو نیب کورٹ لاتے ہوئے ہتھکڑیں لگا ئی ہوں۔یہ بالکل اسی طرح سے ہے‘ جیسے کسی بھی جیل کے حکام اپنے قیدی یا حوالاتی کو عدالت میں جوڈیشل ریمانڈ یا کسی دوسرے مقدمے میں پیش ہونے کیلئے جب جیل سے باہر بھیجتے ہیں‘ تو ان ملزمان کو جیل کے احاطے سے ہی متعلقہ عدالتوں میں پیش کرنے کیلئے پولیس جوڈیشل گارڈ ہتھکڑیاں لگاتی ہے اور جب انہیں جیل حکام کے دوبارہ حوالے کیا جاتا ہے‘ تو ان کی ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔یہ وہ مروجہ طریقہ کار ہے ‘جس سے میڈیا سمیت دوسرے لوگ بھی یقینا آگاہ ہوں گے۔
ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ انتہائی درویش صفت ڈائریکٹر جنرل نیب سلیم شہزاد کو کس لئے نشانہ بناتے ہوئے مجاہد کامران اور ان کے دوسرے ساتھی پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا؟یہ وہ معما ہے‘ جسے میں سلجھانے کی بہت کوشش کر رہا ہوں‘ لیکن ہر بار ایک ہی آواز آتی ہے کہ خوف خدا رکھنے والے اس ملک کے ایک ایک چپے اور اس ملک کے ایک ایک پیسے کو قوم کی امانت سمجھ کر حفاظت کرنے والے کو نیچا دکھانے کے اس ڈرامے کے پولیس کرداروں کے پیچھے ‘ پس پردہ کچھ لوگ ہو سکتے ہیں۔
18 اگست کے بعد سے دس برس سے مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نواز‘ شہباز پولیس اور نو کر شاہی کا ایک ہی مقصد بن چکا کہ ہر وقت نیب کو بد نام کیا جائے‘ اس کی عزت و شہرت کو داغدار بنایا جائے‘ تاکہ عوام کے ذہنوں میں یہ رچ بس جائے کہ نیب زیا دتی کرتی ہے‘ جھوٹے مقدمات بناتی ہے اور حکومت وقت کے کہنے پر سیا سی انتقامی کاروائی کرتی ہے اور یہ وہ فیصلہ ہے‘ جو احد چیمہ کی گرفتاری کے وقت جی او آر آفیسرز میس میں کیا گیا تھااور جن کے حملوں کو آگے بڑھانے کیلئے کبھی کبھی ٹافیوں صافیوں کو اور کبھی کسی اور کو آگے کیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے معزز اینکرز کی آنکھوں کے سامنے نا جانے وہ کون سا '' دیکھا بھالا‘‘ پردہ چھا گیا ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کے لاڈلے سیف الرحمان کا احتساب سیل دکھائی ہی نہیں دے رہا‘ جہاں وہ اپنے سیا سی مخالف افسران ‘ سیاستدانوں ان کے دوستوں‘ ان کی بہو بیٹیوں اور بیویوں کو گرفتار کرتے ہوئے سردیوں میں جیل کے ننگے اور ٹھنڈے فرشوں پر اور گرمیوں میں پنکھے بند کرتے ہوئے‘ ان خواتین کو جن میں شرمیلا فاروقی‘ شہلا رضا اور ان کی والدہ شامل تھیں‘ اس قدر تشدد کیا جاتا کہ جیل کی دیواریں تک کانپ جاتی تھیں۔
نواز شریف کے احتساب سیل کا آنکھوں دیکھا حال مکمل بیان کروں تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں ‘ تاہم میرے الفاظ میں وہ سکت نہیں کہ ایک ایک فلم دکھا ئوں۔ ایک دفعہ سیف الرحمان نے نواز شریف کے ساتھ چلنے والے پرائیویٹ سے گارڈز سے احتساب سیل کی جیل میں بند کچھ لوگوں کی اس طرح تفتیش کرائی کہ ان کے جسم کے نازک حصوں میں مرچیں تک ڈالی گئیں اور کچھ کی انگلیوں کے نا خن تک ادھیڑ لئے گئے اور احتساب سیل کا چیئر مین سیف الرحمان پاس کھڑا فون پر نواز شریف کو ان کی چیخیں سناتا ہوا قہقہے لگا رہا تھا۔ سوشل میڈیا کے کچھ گروپس ‘پھر سے ایکٹو ہو کر نیب اور عدلیہ پر انتہائی رکیک اور گھٹیا قسم کے حملے کر رہے ہیں اور صبح و شام چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف من گھڑت قصے‘ تصویریں اور ٹویٹس کے ذریعے نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں تو ایف آئی اے سائبر کرائمز کے نا م پر ہر دوسرے دن کسی نو جوان کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مقدمات درج کرتی تھی‘ لیکن جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے‘ توسوشل میڈیا پر مذکورہ حرکتیں کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جا رہا؟نیب پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ مقدمے میں دیر لگا دیتے ہیں۔ تفتیش میں بار بار ریمانڈ لیتے ہیں ۔ابھی تک یہ بر آمد ہی کچھ نہیں کر سکے‘تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب سیف الرحمان کی نیب کی طرح ٹائر والا لتر نہیں ماراجاتا‘منجی نہیں لگائی جاتی اور الٹا نہیں لٹکایا جاتا۔