"MABC" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف اور خود کشی

اقتدار پر آنے والی کسی بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتائج کیا 60 دنوں میں ہی بر آمد ہو سکتے ہیں؟ اور وہ بھی اس صورت میں جب آتے ہی اس حکومت کو1180 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہوں۔گیس خسارے کے157 ارب پورے کرنے ہوں۔پی پی پی اور نواز لیگ کی حکومتوں کے دور میں 29,861 ارب روپے سے زائد کے قرضے اور دو ماہ بعد ان قرضوں پر واجب الادا سود کی 9 ارب ڈالر کی قسط اداکرنی ہو اور شاہد خاقان عبا سی اور میاں نواز شریف کے جنوری 2016ء میں قطر سے کئے گئے LNG کے معاہدے کی روسے LNG ٹرمینل کے کرائے کی مد میں روزانہ 2 لاکھ45 ہزار ڈالر ادا کرنے ہوں۔کس کی عقل پر ماتم کیا جائے کہ وزیر اعظم ہائوس کی8 بھینسوں کو بیچنے پر کچھ اینکرز اور تجزیہ کار بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے کہ اب آئی ایم ایف کا قرض ادا ہو جائے گا۔یہ بھی قوم کی بتائو کہ یہ بھینسیں بیچ کر عمران خان صاحب نے ہر سال ان پر خرچ ہونے والی معقول رقم بچا لی ہے۔ اگر پانچ سال وزیر اعظم رہتے ہیں تو قوم کے ٹیکسوں کے یہ بڑی رقم جو ان بھینسوں کی پرورش پر خرچ ہوجانا تھی ان کی بچت کر کے انہوں نے کون سا گناہ کر دیا ہے؟ تعصب یا مفادات کی عینک اتار کر بات کریں تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اگر دو تین سال گزرنے کے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ مانگتی تو پھر اس پر سوال اٹھائے جا سکتے تھے‘ لیکن جمعہ جمعہ آٹھ دن اس حکومت کو ہوئے ہیں اورـقیامت کی نشانیاں دیکھئے کہ وہ بھی عمران خان صاحب کو طعنے دے رہے ہیں کہ جن کے اپنے اثاثے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ وہ قصہ تو سب نے سنا ہی ہو گاکہ شہر کی ایک مصروف گلی کی نکڑ پر واقع گھر والوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی کوئی خاتون روزانہ سرکاری نل سے پانی بھرنے کے بعد ان کے دروازے کے سامنے جان بوجھ کر بالٹی کا سارا پانی بہا دیتی۔اب جو بھی شریف آدمی وہاں سے گذرتا تو کیچڑ اور پانی سے کپڑے خراب ہونے پر اس گھر والوں کو اونچی آواز سے کوسنے لگتا ۔یہی حال ہمارے اینکرز اور تجزیہ کار حضرات آج کل جناب عمران خان کے ساتھ کر رہے ہیں‘اور وہ لوگ جنہوں نے وہاں کیچڑ پھیلایا ہوتا ہے‘ ان اینکرز کے تبصرے تجزیے سنتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر تالیاں بجاتے ہوئے قہقہے برساتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو خورشید شاہ صاحب اور شہباز شریف صاحب کو دیکھ لیجئے۔ ۔ وہ تقاریر ہم سب کے سامنے ہیں جن میں وزیر اعظم عمران خان نے جوش خطابت سے ہی سہی دعوے کئے تھے کہ وہ قرض مانگنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دیں گے ۔یہ وہ تقاریر ہیں جنہیں نہ تو جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے انکار کی گنجائش ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے کوئی دو تین ہفتے بعد جیسے ہی وزیر خزانہ اسد عمر کی زبان سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے الفاظ نکلے تو پورے ملک کی ہر سکرین اور اور ان پر بیٹھے ہوئے اینکرز کے لہجوں سے کڑکتی بجلیوں جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں‘ جن کی گونج آج بھی ہر جانب سنائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس میں سب سے زیا دہ خوفناک وزیر اعظم عمران خان کی گذشتہ دس برسوں میں کی جانے والی تقریروں میں ادا کئے جانے والے یہی الفاظ رہ گئے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دیں گے۔ گذشتہ ایک ماہ سے ٹی وی چینلز پر وزیر اعظم پر دکھائے گئے تضحیک آمیز پروگرام دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اگر عمران خان صاحب نے اپنی تقاریر میں خود کشی کے الفاظ ادا نہ کئے ہوتے توآج نہ تو ہم پر کسی قسم کا قرض واجب الادا ہوتا اور نہ ہی ہماری معیشت کسی خسارے کا شکار ہوتی اور نہ ہی آئی ایم ایف اپنی9 ارب ڈالر قسط کی فوری ادائیگی کے لیے ہماری گردن پر سوار ہونے کے لیے سات نومبر کو پاکستان آ رہا ہوتا۔
اب یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اپنے اپنے ٹی وی چینلز پر فروکش اینکرز سے ہم اپنا موازنہ شروع کر دیں ‘کیونکہ کہاں ہم اور وہ کہاں ۔ہماری تحریر کو گنتی کے چند سو لوگ بھولے بھٹکے سے پڑھ لیتے ہوں گے‘ جن کی کوئی ریٹنگ ہی نہیں جبکہ ان اینکرز کو دیکھنے والے لاکھوں اور ان کی کرسیاں اس قدر مضبوط کہ بڑے بڑے چینلز کے مالکان کی بھاری پیشکشیں ان کی راہ تک رہی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ہم سے کئی درجے بڑھ کر تعلیم یافتہ بھی ہوں گے‘ اس لئے ان کی قابلیت ‘ تجربہ اور معلومات کا بھی ہمارے جیسے لوگ ادراک نہیں کر سکتے۔لیکن ان سے ایک عام انسان کی حیثیت سے یہ پوچھنے کی جسارت کر ہی لیتے ہیں کہ آپ اسی پاکستان میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔ اس ملک کے ساتھ گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں جو کچھ ہوا وہ آپ سے پوشیدہ تو نہیں ‘ آپ کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ یہ ملک پی پی پی اور نواز لیگ حکومتوں میں کتنے ارب ڈالرز کا مزید مقروض ہوا ‘ آپ سے یہ کیسے مخفی رہ سکتا ہے کہ اس ملک کی امپورٹس کتنی ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں گے کی ایکسپورٹس کتنے ارب ڈالر تک گر چکی ہیں۔یہ بھی یقیناجانتے ہوں گے کہ ان دونوں کے دور حکومت میں کتنے صنعتی یونٹ بند ہوئے ۔ میرے جیسا ایک عام سا لکھاری یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ یہ معزز اینکرز جنہیں اپنا ہمراہی بنانے کے لیے میرے ملک کے یہ حکمران خاندان فخر محسوس کرتے رہے ہیں ‘کیونکر بے خبر ہو سکتے ہیں کہ پاکستان کو میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عبا سی کے قطر سے LNG پر کئے گئے معاہدے کی رو سے روزانہ2 لاکھ پینتالیس ہزار ڈالر کرائے کی مد میں ادا کرنا پڑ رہے ہیں‘ تو بتایئے عمران خان کی حکومت روزانہ یہ پیسے کہاں سے لائے؟ ایک ماہ میں 60 لاکھ ڈالر اور پی ٹی آئی کی دو ماہ کی حکومت نے120 لاکھ اس بین الاقوامی معاہدے کی رو سے ڈالرز ادا کرنے پر مجبور ہے۔
یہ معزز اینکرز اور تجزیہ کار جو اسی پاکستان میں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں جو اس وقت قرضوں کی دلدل میں ڈبو دیا گیا ہے‘ جہاں سستی روٹی کے نام پر پنجاب کے تندوروں میں42 ارب روپے جھونک دیئے گئے اور یہ تجزیہ کار چپ رہے‘ وہ پاکستان جس کی مٹی میںانہوں نے دفن ہونا ہے‘ اسی پاکستان میں ان کے بڑے بڑے گھر ہیں جہاں دنیا کی ہر آسائش ان کے ایک اشارے پر ان کے قدموں میں لا کر رکھ دی جاتی ہے۔ وہ اسی پاکستان کی قسم کھا کر کہیں کہ اس پاکستان کی یہ حالت کیا عمران خان نے کی ہے؟کیا آئی ایم ایف کے پاس عمران خان اس لئے جا رہا ہے کہ اس نے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہوئے گذشتہ دس سال میں اس ملک کو لوٹ لیا ہے؟ اس پاکستان کی مٹی کی قسم کھا کر میرے معزز اینکرز اور تجزیہ کارسچائی کی گواہی دیتے ہوئے بتائیں کہ اس ملک پر 94 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے عمران خان نے لادے یا زرداری شریف نے؟تماشا دیکھئے کہ وہ جو 30برس تک باری باری اس ملک پر حکمران رہے‘ وہ عمران خان کواس بنا پر طعنے دے رہے ہیں کہ ان کے لئے گئے قرضوں کے پہاڑ کی پہلی قسط ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے ادھار کیوں مانگ رہا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں