پاکستان ایئر فورس کے تعاون سے تیار کی گئی پاکستانی فلم ''پرواز ہے جنون‘‘ کو سعودی حکومت نے اپنے سینمائوں میں نمائش کی اجازت دے دی ہے اور یہ غالباً پہلی پاکستانی فلم ہے‘ جسے سعودی عرب کے سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کیا جائے گا۔ جیسے ہی بھارتی قیادت کے کانوں میں اس خبر کی بھنک پڑی کہ سعودی انتظامیہ پاکستان کی ایئر فورس کے گرد گھومنے والی کہانی پر مبنی فلم ''پرواز ہے جنون‘‘ کو نمائش کی اجازت دینے جا رہی ہے تو بھارت سرکار اور اس کا میڈیا سعودیہ کے اس فیصلے سے غصے اور صدمے کے ساتھ ساتھ مہلک قسم کے حسد کی آگ میں جلنے بُھننے لگا۔ ان کا یہ غصہ اور چیخ و پکار خلاف توقع نہیں کیونکہ وہ بھارتی قیادت ہی کیا جو پاکستان سے حسد کی آگ میں نہ جلے۔ بھارتی سفارت کاروں سے لے کر نئی دہلی میں مودی سرکار کے سرخیل وزرا تک نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح ''پرواز ہے جنون‘‘ پر بھارت کے اعتراضات سعودیہ کی وزارتِ اطلاعات تک پہنچائے جائیں لیکن ان کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی اور سعودی عرب نے اس فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت دے دی‘ جس کی تکلیف سے مودی سرکار اس طرح کانٹوں پر تڑپتی نظر آ رہی ہے کہ ان کی چیخیں جنوبی ایشیا سے مشرق وسطیٰ تک سنی جا رہی ہیں۔
بھارت کے اس احتجاج سے یاد آیا کہ عرصہ ہوا پاکستان کی فلموں اور ڈراموں پر اس نے (بھارت) اپنے ملک میں مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے‘ لیکن پاکستان میں بھارتی فلموں کی اجازت ہے اور بھارتی ڈرامے بھی ہمارے بعض ٹی وی چینلوں پر دکھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ وہ جو کل تک سابق وزیر اعظم کے ارد گرد تھے ان سے اس سلسلے میں بات ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ نریندر مودی اور سجن جندال کہنے کو تو جاتی امرا میں نواز شریف کی سالگرہ اور مریم صفدر کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے‘ لیکن لگتا ہے‘ اس دورے کی آڑ میں اور بھی کچھ کر گئے تھے‘ کیونکہ ان کے واپس نئی دہلی پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکم جاری کر دیا کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر بھارتی فلموں کو پاکستان بھر میں نمائش کیلئے پیش کرنے کا اجازت نامہ جاری کیا جا رہا ہے۔ مریم اورنگ زیب صاحبہ نے بتایا کہ 3 فروری کو بھارتی فلم KAABIL اور 10 فروری کو فلم رئیس نمائش کیلئے پیش کی جائے گی۔ اندازہ کیجئے کہ ابھی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا‘ لیکن مریم اورنگ زیب صاحبہ کو نہ جانے کس نے بریف کر دیا کہ بھارت کی یہ فلمیں پہلے دکھائی جائیں گی‘ حالانکہ دستور یہ ہے کہ ان فلموں کو وزارت کامرس سے پہلے کلیئر ہونا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی فلموں پر پابندی نواز حکومت نے نہیں‘ بلکہ پاکستانی سینما اونرز اور فلم انڈسٹری نے اُڑی کیمپ پر حملے کی آڑ میں بھارت کی سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیوں کے جواب میں خود ہی عائد کر رکھی تھیں۔ نریندر مودی چپکے سے کابل سے پرواز کرتے ہوئے آئے تو بظاہر یہ دکھانے کے لئے تھے کہ وہ اپنے میاں نواز شریف کی 25 دسمبر کو ہونے والی سالگرہ اور پھر ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کر رہے ہیں‘ لیکن جاتی امرا کی اس یاترا کے چند ہفتوں بعد بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر سے پابندی کا اچانک اٹھ جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ نہ جانے اس شادی کی آڑ میں کون کون سے فیصلے ان دونوں دوستوں کے درمیان سجن جندال کی گارنٹیوں کے ساتھ ہوئے ہوں گے‘ جس کے بعد سرل المیڈا والے سکینڈل سمیت کئی معاملات سر اٹھانا شروع ہو گئے؟ نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی نہ جانے وہ کون سے ہاتھ اور کون سی سوچ تھی جس کی مہربانیوں سے پاکستان میں بھارتی فلمیں سیلاب کی طرح آنے اور نمائش پذیر ہونے لگیں۔ اب چونکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ جو اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتی نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری‘ اور اس کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کے پول کھولنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مقامی باشندوں پر ظلم و ستم اور غیر انسانی سلوک کو دنیا کے سامنے آشکار کر رہی ہے‘ اس لئے یقین ہے کہ وہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش روک دے گی اور وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کی گزارشات پر بغیر کسی توقف کے عمل کریں گے۔ نواز شریف اور ان سے پہلے آصف زرداری کے دور میں تو یہاں خصوصی طور پر ایسی فلمیں دکھائی جاتی رہیں جو پاکستان اور خاص طور پر افواجِ پاکستان کی تضحیک سے بھری ہوتی تھیں‘ بھارت کی ہماری افواج کے خلاف تیار کردہ پروپیگنڈا مہم پر مشتمل فلمیں۔ پاکستان میں قائم ایک تنظیم بھارت سے دوستی اور اسے ایشیا کا سب سے بڑا تھانیدار تسلیم کرنے والے پاکستان کے سکہ بند ایسے صحافیوں پر مشتمل ہے‘ جو امن کی آشا کے نام پر اپنے پیٹ بھرتے رہے۔ یہ لوگ اپنے اور دوستوں کے ٹی وی چینلز پر آئے روز سوائے پاکستان کی فوج کو کوسنے اور دھمکیاں دیتے ہوئے بدنام کرنے کے اور کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ ہاں سابق حکمرانوں کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پاکستان کی آرٹ اور کلچر سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ ایسے حضرات‘ جن پر بھارت نوازی کا جنون چھایا ہوا ہے‘ دبے دبے لفظوں میں بھارت سے اپیل کر تے رہے ہیں کہ پاکستان کی فلموں کو بھی بھارت میں نمائش کی اجازت دی جائے لیکن نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں‘ البتہ جب کبھی پاکستان میں بھارت کی فلموں پر پابندی کی ہلکی سی آواز بھی اٹھتی ہے تو یہ لبرل دانشور اور صحافی فن، کلچر کے قتل کے فتوے لگاتے ہوئے کوسنے دینا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی سول سوسائٹیاں کراچی اور اسلام آباد میں سر پیٹتے ہوئے دہائیاں دینا شروع کر دیتی ہیں کہ '' کوئی بات نہیں اگر بھارت ہماری فلموں اور ڈراموں پر پابندی لگائے ہوئے ہے‘ لیکن ہمیں بھارت کی تقلید میں ایسا نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایسا کیوں نہیں کرنا چاہئے ؟ کیا آپ کو بھارت کی ان فلموں کی کمائی سے حصہ ملتا ہے یا کوئی اور فنڈنگ ہوتی ہے؟ کل تک تو یہ بہانہ کیا جاتا تھا کہ اس طرح ہماری سینما انڈسٹری تباہ ہو جائے گی لیکن اب صورت حال مختلف ہو چکی ہے اور خیر سے نیا ٹیلنٹ آنے سے پاکستان میں معیاری اور پائیدار فلمیں بننا شروع ہوگئی ہیں۔پاکستان فلم پرڈیوسرز ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی نئی حکومت کے ذمہ داروں سے مطا لبہ کیا ہے کہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر مکمل پابندی عائد کر نا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس طرح کلچر اور فن کو فروغ نہیں ملے گا تو ایسے لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ فن اور کلچر کے فروغ کیلئے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ کیا فن اور کلچر صرف بھارت کیلئے ہی مخصوص ہے؟۔
سوشل میڈیا پر بھی اب یہ سوال اٹھناشروع ہو گئے ہیں کہ جب بھارت پاکستانی فلموں اور ڈراموں کو اپنے عوام کیلئے منا سب نہیں سمجھتا تو کیا بھارتی فلمیں ہمارے سینمائوں میں دکھانا ضروری ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے شہر یار آفریدی اور عمران خان سے پر زور اپیل کی گئی ہے کہ بھارت کی فلموں پر اسی طرح پاکستان میں پابندی عائد کر دی جائے جس طرح بھارت نے پاکستانی فلموں اور ڈراموں پر عائد کر رکھی ہے۔