"MABC" (space) message & send to 7575

عمران کی کمزور ٹیم !

اعظم سواتی کا باغیچہ تو15کے ٹولے کو یاد آ گیا ‘لیکن 29 اکتوبر کی رات سے اب تک ٹی وی سکرینوں پر عمران خان پرگرجتے برستے ان مشتعل اینکرز ‘ نواز لیگ اورپی پی پی کو جاتی امرا میں نواز شریف کے وہ مور کیوں بھول گئے‘ جنہیں ایک جنگلی بلا کھا گیا تھا اور اس جرم عظیم کی پاداش میں لاہور پولیس کے23 اہلکار وزیر اعظم کے حکم سے معطل کر دیئے گئے ۔اس وقت کسی آئی جی کی غیرت کیوں نہیں جاگی ؟ عمران خان کی ٹیم اور ان کے اتحادیوں میں چوہدری شجاعت حسین چوہدری پرویز الٰہی ‘ شیخ رشید احمد‘ بابر اعوان اور راجہ ریاض جیسے چند لوگ موجود ہیں‘ جو دیکھ چکے ہیں کہ جیسے ہی بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم ہائوس منتقل ہوتیں تو بمشکل دو ہفتے بھی نہیں گذرتے تھے کہ ان کے بارے میں ایسی ایسی خبریں میڈیا میں شائع ہونا شروع ہو جاتیں کہ پی پی پی کو سمجھ ہی نہیں آتی تھی کیا جواب دے ۔وہ لاکھ ان کی تردید کرتیں لیکن وہ جھوٹ اور افسانے اس خوبی سے پھیلائے جاتے کہ سب اسے سچ سمجھنے لگتے ۔ پنجاب کے عوام کو ایک ہی بات باور کرائی جاتی کہ بے نظیر بھٹو پاکستان کیلئے وفادار نہیں ‘ان کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں‘ یہ راجیو گاندھی کی دوست ہیں‘ ان کا کشمیر سے کوئی سرو کار نہیں اور یہ تاجروں کی سخت مخالف ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کے مال روڈ پر ایک ہوٹل کے ساتھ والی بلڈنگ میں شہباز شریف کی براہ راست نگرانی میں ایک سیل قائم کیا ہوا تھا‘ جس میں حسین حقانی سمیت بڑے بڑے جغادری دانشور ‘ جرنلسٹ ‘ پروفیسرز اورپولیس افسران پروپیگنڈا سیل سے وابستہ تھے اور خاص خاص خبریں یہیں سے ہی بھجوائی جاتی تھیں ۔ اسی طرح عمران خان کی حکومت کو آئے ابھی پندرہ دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے خلاف میڈیا کے بعض حصوں نے طوفان اٹھانا شروع کر دیا ‘اور یہ طوفان ایسا ہی تھا جیساچائے کی پیالی میں اٹھایا جاتا ہے۔مہنگائی کا اس قدر شور کرا یا گیا‘ جیسے ہر چیز قوت خرید سے باہر ہو گئی ہو۔کہا جانے لگا کہ غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں‘ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘ گیس کی قیمتیں غریب کی پہنچ سے دور چلی گئی ہیں مگر اکتوبر میں جب گیس کے بل ان غریبوں کو موصول ہوئے تو ان میں صرف بیس روپے کا اضافہ تھا۔لیکن پرنٹ میڈیا کی جگہ اب الیکٹرانک میڈیا سے وہی بے نظیر بھٹو دور والا ایجنڈا استعمال کیا جا رہا ہے‘ اس لئے ہر جانب ایک ہی آواز گونجنے لگ گئی کہ پٹرول مہنگا کر دیا گیا ہے۔ عمران خان کی وزارتِ اطلاعات کی نا اہلی دیکھئے کہ حکومت نے آتے ہی پٹرول دو روپے پچاس پیسے اور ہائی سپید ڈیزل ساڑھے چھ روپے سستا کر دیا‘ لیکن کسی ٹی وی چینل اور حکومتی لیڈ کی زبان پر اس بارے ایک لفظ بھی نہیں آ سکا اور نہ ہی کسی وزیر نے کھل کر یہ بتانے کی کوشش کی۔ 1985ء سے جو لوگ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے‘ ان میں سے کئی اب بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں اور وہ اب بھی ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں؛چنانچہ اس وقت جو الزامات کے میزائل داغے جا رہے ہیں وہ ایسے ہی نہیں۔ شریف برادران سے فیض یاب ہونے والوں کی ایک فہرست نجم سیٹھی کے پاس ہے تو اس کی دوسری کاپی آج بھی میرے پاس امانت ہے۔ اس فہرست میں 85ء ‘93ء اور 99ء تک کے پرنٹ میڈیا کے ایسے ایسے لوگوں کے نام ہیں کہ اگر انہیں لکھ دوں تو کہرام مچ جائے۔ انہی لوگوں کا آج کل طوطی بول رہا ہے اور ہمارے جیسے لوگ جو اپنے نظریات کو لئے پھرتے ہیں‘ ان کی ادائیں اور تکبر سے بھرے رویے دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا تھے اور کیا بن گئے ہیں۔ دور نہ جائیں اگر میاں نواز شریف کی چار سالہ وزارتِ عظمیٰ اور میاں شہباز شریف کی پنجا ب کی دس سالہ وزارتِ اعلیٰ کا ریکارڈ سامنے لایا جائے تو ہر چہرہ بے نقاب ہو جائے گا کہ حکومت ِ پاکستان کے خرچے پر کون کون دنیا بھر میں نواز شریف کے ساتھ گھومتا رہا اور کتنے لوگ شہباز شریف کے ساتھ جرمنی‘ ترکی‘ ہالینڈ ‘ برطانیہ اور نہ جانے کتنے دوسرے یورپی ممالک میں پنجاب کے عوام کے ٹیکسوں سے گلچھرے اڑاتے رہے۔ وہ ویڈیو تو وائرل ہو چکی ہے جس میں میاں نواز شریف لندن سے واپس آتے ہوئے لاہور کے ائیر پورٹ پر جہاز میں بیٹھے ہوئے اپنے موبائل فون سے کسی خاتون اینکر کو فون پر کہہ رہے ہیں کہ یہ بیان ٹی وی پر نشر کرو اس طرح کا پروگرام کرو اور یہ وہی خاتون ہے جو ستمبر2016ء میں وزیر اعظم نواز شریف کے وفد کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکہ گئیں اور جب نیو یارک میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران میاں نواز شریف پر صحافیوں نے کلبھوشن یادیو اور کشمیر کے حوالے سے سوالات کئے تو نواز شریف کی وہ ریکارڈنگ آج بھی دیکھی اور سنی جا سکتی ہے جس میں وہ اسی خاتون اینکر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ تم سوال کرو‘اور وہ سوال ایسا ہی تھا جسے مدح سرائی کی آخری حد ہی کہا جا سکتا ہے ۔ وہ خاتون اینکرآج کل پروگرام میں وزیر اعظم عمران خان پر اس طرح کے حملے کرتی دکھائی دیتی ہیں جیسے اس وقت پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ عمران خان کے علا وہ اور کوئی نہیں۔
پنجاب کے اس وقت کے پرنٹ میڈیا میں شریف برادران نے اسی طرح اپنے لوگوں کی بھر مار کی ہوئی تھی جس طرح آج الیکٹرانک میڈیا میں جدھر دیکھیں ان کی بتائی اور سکھائی گئی آواز ہی گونجتی ہے۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے22 سے زیا دہ اینکرز نواز شریف کی لابی میں آ چکے ہیں اور عمران خان کی اطلاعات کی ٹیم ان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ آئی جی اسلام آبادجان محمد کے تبادلے کو ہی لیجئے‘ بائیس کے اس اینکر ٹولے نے اعظم سواتی کے بیٹے کے حوالے سے وہ دھول اڑائی کہ لاہور اور اس کے ارد گرد چھائی ہوئی سموگ بھی اس کے آگے ماند پڑ گئی ‘اور تحریک انصاف کا کوئی بھی وزیر اور مشیر اور اس کے میڈیا کے بڑے بڑے مجاور کسی کو بتا ہی نہ سکے کہ یہ جان محمد وہ ہیں جو شلوار قمیض پہننے والوں کو دہشت گرد کہتے تھے۔ان کے خلاف جسٹس فیصل عرب نے سپریم کورٹ بار کے اُس وقت کے صدر کامران مرتضیٰ اور سیکرٹری آصف چیمہ کی درخواست پر ایک جرنلسٹ کو مارنے اور اسے شلوار قمیض میں دیکھ کر دہشت گرد کہہ کر پکارنے پر نوٹس دیتے ہوئے اور 22 مارچ 2014ء کواپنی عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا تھا ۔وہ تو بھلا ہو نگران دو رکا‘ جس میں وزیر اعظم ناصر الملک نے جون میں انہیں اسلام آباد کا آئی جی تعینات کردیا۔چلتے چلتے بجلی کے نرخوں کی بات کریں تو یاد کیجئے پانچ برسوں میں چار دفعہ بجلی کے نرخوں میں جب نواز لیگ اضافہ کرتی تھی تو خواجہ آصف کی ہر تقریر سامنے رکھ لیں وہ کہتے تھے'' 50 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر اس اضافے کا اطلاق نہیں ہو گا جبکہ ان کے مقابلے میں عمر ایوب وزیر توانائی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت300یونٹ تک بجلی کے نرخوں میںاضافہ نہیں کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں