طورخم کی سر حد پر شہید پولیس افسر طاہر خان داوڑ کی میت دینے کے عمل میں تین گھنٹے تک پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل حکومت نے جو سلوک کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں کن کی حکومت ہے‘ اور یہ حکومت پاکستان کے خلاف کس حد تک جا سکتی ہے؟ستمبر1978ء میں اٹل بہاری واجپائی جو مرار جی ڈیسائی حکومت میں بھارت کے وزیر خارجہ تھے‘ افغانستان پہنچے تو ان کی افغانستان کے وزیر اعظم حفیظ اﷲ امین سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات افغا نستان کے وزیر اعظم نے ایک لمحے واجپائی کی جانب جھکتے ہوئے کہا: کیوںنہ ہندوستان اور افغانستان دونوں مل کر پاکستان کو آدھا آدھا آپس میں تقسیم کر لیں۔ یہ تجویز سنتے ہی اٹل بہاری واجپائی کی آنکھوں میں ایک حیرت سی پھیل گئی اور انہوں نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد حفیظ اﷲ امین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا :اس کے لئے آپ لوگوں نے کوئی پلان تیار کیا ہے؟واجپائی بحیثیت وزیرخارجہ اپنا دورہ افغانستان مکمل کر کے جب نئی دہلی پہنچے تو مرار جی ڈیسائی نے جیسے ہی واجپائی کی زبانی اس منصوبے کے خدو خال سنے تو انہوں نے اسے سختی سے رد کرتے ہوئے اس سلسلے میں افغانستان سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ رکھنے سے منع کر دیا‘ کیونکہ اس وقت مرار جی ڈیسائی اور جنرل ضیا الحق کے آپس میں انتہائی دوستانہ تعلقات استوار تھے۔۔۔لیکن جیسے ہی مرار جی ڈیسائی کی حکومت ختم ہوئی تو حفیظ اﷲ امین کا نام و نشان مٹ چکا تھا اور افغانستان روسی فوجوں اور دنیا بھر سے امریکہ اور یورپ کی مدد سے بھیجے جانے والے مجاہدین کا میدان جنگ بنا ہوا تھا۔
ایک عرصہ گذر گیا اور روس شکست کھا کر اپنا وجود کھو بیٹھا اور مجاہدین آپس میں بر سرپیکار۔ RAW جو چپکے چپکے اپنے طور پر اس فائل پر کام کرتی رہی ایک بار پھر اس فائل کو متحرک ہو گئی۔چند ہفتوں بعددونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی نئی دہلی میں کئی ملاقاتیں ہوئیں جن میں اس منصوبے کے خدو خال پر بحث کی گئی ۔بھارت نے افغانستان کو بلوچستان اور اس وقت کے شمال مغربی سر حدی صوبے میں اپنے آدمیوں سے رابطے مضبوط کرنے کا ٹاسک دینے کے بعد سندھ اور پنجاب میں عملی اقدامات کا آغاز کر دیا‘ تاکہ ان حصوں میں جلد ہی ایسی صورتحال پیدا کر دی جائے کہ بھارت اور افغانستان کو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان اور کے پی کے کے ساتھ پنجاب اور سندھ سے اپنی فوجیں داخل کرنے کی اخلاقی اور قانونی اجا زت مل سکے۔لیکن قدرت بھارت اور افغانستان کے ان شیطانی منصوبوں پر قہقہے لگا رہی تھی‘ کیونکہ اسے علم تھا کہ اگلے سال دسمبر 1979ء میں روسی فوجوں نے اپنے تیار کئے گئے ورلڈ آرڈر پر عمل کرتے ہوئے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد گرم پانی کے حصول کے لئے بلوچستان کی جانب بڑھنا تھا۔ روس افغانستان پر قابض ہوا تو ساتھ ہی اس کے خلاف افغانستان کے پشتونوں نے ہتھیار اٹھا لئے اور تاریخ کی یہ طویل ترین گوریلا جنگ شروع ہو گئی۔ اسی جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی روسی فوجوں نے حفیظ اﷲ امین کو قتل کر دیا اور یہ منصوبہ امین کی موت کے ساتھ روس کی شکست سے و ہیں دفن ہو گیا ۔
وہ کون سے ہاتھ ہیں‘ کون سی طاقت ہے جس نے انتہائی مختصر مدت میں بلوچستان میں علیحدگی کے لئے مسلح جدوجہد میں مصروف عمل لیکن گزشتہ چند سالوں سے آپس میں متحارب تین کالعدم دہشت گرد تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی ، بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن گارڈز‘ جن کے سربراہان یورپ اور امریکہ میں مقیم ہیں‘کو پھر سے ایک کر دیا ہے‘ اور اس وقت بلوچستان میں راء پھر سے متحرک ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔ انڈونیشیا اگرچہ ہمارا مسلم برادر ملک ہے‘ لیکن اس وقت بلوچستان کے دہشت گردوں کے لئے اس کی سر زمین ایک پناہ گاہ کا کام دے رہی ہے‘ بلکہ اسی طرح جیسے افغانستان سےRAW کے ایجنٹ آپریٹ کر رہے ہیں ۔انڈونیشیا سے را کی نگرانی میںبلوچ علیحدگی پسندوں کی ویب سائٹس ہماری ملک کے سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت آمیز جھوٹ پھیلارہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ نریندر مودی بھارت کے آنے والے عام انتخابات سے پہلے ہندو ووٹرز کو ایک بار پھر اپنی جانب مائل کرنے کے لئے بلوچستان سمیت پاکستان کے کچھ حصوں میں افراتفری پھیلاتے ہوئے انتہا پسندتنظیموں اور ووٹرز کو پھر سے اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں ہے‘ جس کے لئے پاکستان کی مذہبی اور مشہور سماجی شخصیات کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ یہ مضمون پڑھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی سمیت حامد کرزئی اور اشر ف غنی جیسے کرداروں کو سامنے رکھنا ہو گا‘ جنہوں نے کے پی کے میں فاٹا کے ادغام کے فیصلے کو قدموں تلے روندنے کے اعلانات کر رکھے ہیں؟
مولانا سیاسی انتقام لینے کے لئے تلے ہوئے ہیں‘ ان سے بہت محتاط رہنا ہو گا بہت ہی محتاط۔ مجھ سے کئی گنا زیا دہ باخبر حلقے فضل الرحمان کے پس پردہ رابطوں اور ملک کی دو بہت بڑی قوتوں‘ جن میں سے ایک سیا سی اور دوسری نیم سیا سی ہے کی مدد سے آگ اور بارود کا وہ کھیل کھیلنے نکل پڑے ہیں‘ جس کے لئے بد قسمتی سے کچھ سہولتیں انہیں تحریک انصاف کے نادان اراکین اسمبلی فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اس قسم کے خواتین و حضرات عمران خان کا وہ سفر جو پانچ سال تک جاری رہنا تھا ‘اسے مہینوں میں ہی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ RAW اورNDS بالترتیب فاٹا اور بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے پشتون طلبا ونگ کو منظور پشتین کی مدد کے لئے استعمال کرے گی تو فوج اور عدلیہ کو کمزور کرنے کے لئے بلیک کوٹ کا استعمال ہو گا جس کے لئے انہیں متحرک کر دیا گیا ہے اور بلیک کوٹ اپنی لا علمی میں ایک بار پھر RAW کے تیار کردہ /خوش کن نعروں میں مدہوش ہو کر اس کے ہراول دستے کے طور سڑکوں پر آ چکے ہیں۔ آج کا سب سے خطرناک ہتھیار سوشل میڈیا ''ففتھ جنریشن وار‘‘ کی صورت میں ملکی اداروں کے خلاف اس حد تک حملہ آور ہو چکا ہے کہ اس نے نئی نسل کو اپنے ہی ملک کی فوج کے مقابل لا کھڑا کرنے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یہ ملک کے سکیو رٹی اداروں کی لاپرواہی کہہ لیں یا بے خبری کہ انہیں یہ بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی ہی نہیں دے رہی۔۔۔۔آج کے دور میں سائبر کرائم کے لئے پاکستان کی ہر حساس ایجنسی میں ماہرین اور وطن دوست جذبات سے لبریز نوجوانوں کا ایک علیحدہ سیل قائم کرنا ہو گا۔
آج کا سب سے خطرناک ہتھیار سوشل میڈیا ''ففتھ جنریشن وار‘‘ کی صورت میں ملکی اداروں کے خلاف اس حد تک حملہ آور ہو چکا ہے کہ اس نے نئی نسل کو اپنے ہی ملک کی فوج کے مقابل لا کھڑا کرنے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یہ ملک کے سکیو رٹی اداروں کی لاپرواہی کہہ لیں یا بے خبری کہ انہیں یہ بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی ہی نہیں دے رہی۔۔۔۔