18 نومبر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پسندیدہ امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کو دئیے گئے‘ ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے خلاف ایک مرتبہ پھر برستے ہوئے کہا کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی‘ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے مختص فنڈز میں سے 300million dollor بطور فوجی امداد تو ایک طرف‘ اب ایک ڈالر بھی نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
ٹرمپ کے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات کے حوالے سے ادا کئے گئے الفاظ ہیں:A DAMN THING FOR US ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اسی موضوع پر انہی الفاظ کے ساتھ پاکستان کے خلاف یہ پہلا بیان نہیں ‘ بلکہ ڈونلڈٹرمپ نے جنوری2016ء پھر 22 اگست2017ء اور اس سال 26 اپریل کو بھی پاکستان پر اسی انداز اور الفاظ سے گرجتے برستے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان نے امریکہ کیلئے کچھ نہیں کیا ‘ جس پر عمران خان نے26 اپریل کو اکانومسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر کے اس بیان کو تاریخ کی سب سے بڑی لا علمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو چاہئے‘ پہلے 1979ء سے مسلسل چلی آ رہی ‘افغانستان کی جنگ کو دیکھے اور پھر بتائے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کیا خدمات ہیں؟اگر ڈونلڈ ٹرمپ سی آئی اے کے ریکارڈ اور پینٹاگان کی تمام دستاویزات کو چند منٹوں کیلئے دیکھ لیتے‘ تو انہیں یہ کہتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کس ترنگ میں کس کیلئے کہہ رہے ہیں؟ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ سی آئی اے اور پینٹاگان کے پاس ریکارڈ نہیں ‘تو وہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے رابطہ کر لیں‘وہاں سنہرے حروف میں پاکستان کی خدمات کے اعتراف میں ان کی غلط سوچ اور تنگ نظری کو حقائق پر مبنی یہ الفاظ کھرچنے کی پوری کوشش کریں گے‘ جو ان کے دماغ میں گھس چکے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے سینئرز اور سفارت کاری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ انٹر ویو دیکھتے ہوئے وہ یہی سمجھتے رہے کہ شاید ٹرمپ کا اشارہ بھارت کی طرف ہے‘ کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس کا افغانستان میں روسی جارحیت سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی قسم کا کردار نہیں‘ سوائے اس کے کہ وہ اس وقت امریکہ اور ساری دنیا کے مقابلے میں افغانستان کی بجائے روس کے ساتھ کھڑا رہا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب کچھ جانتے بوجھتے صرف پاکستانی عوام کے زخموں پر ہی نہیں‘ بلکہ ان پر مسلط کی گئی دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے سات ہزار سے زائد پاکستانی فوج کے جوانوں اور افسروں کی شہا دت سمیت اتنے ہی سکیورٹی فورسز کے زخمیوں اور زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوجانے والوں پر نمک پاشی کرتے ہوئے ہرایک پاکستانی کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ کبھی بھی امریکہ پر زندگی بھر اعتماد نہ کرے‘ صدر جمی کارٹر سے صدر ریگن اور صدر بل کلنٹن سے صدر بش تک اور پھر اوبامہ کی ایک نہیں‘ بلکہ درجنوں اعترافی تقاریر اور بیانات امریکی ریکارڈ میں موجود ہیں‘ جن میں وہ بار ہا مرتبہ تسلیم کرتے رہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
ٹرمپ سے پہلے کے تمام امریکی صدور کیا اندھے گونگے اور بہرے تھے کہ انہیں پتا ہی نہ چل سکا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اقوام عالم کی مدد کرنے کے کوئی شواہد نہ ہونے کے با وجود وہ کولیشن سپورٹ فنڈز سے پاکستان کو اس کے حصے کے کروڑوں ڈالرز ادا کرتے رہے۔کیا دنیا بھر میں ہلچل مچائے رکھنے والی امریکی سی آئی اے اس قدر بودی ا ور نا اہل تھی کہ وہ وائٹ ہائوس کے کسی بھی مکین کو یہ بتا ہی نہ سکی کہ پاکستان ان کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہا ‘اس لئے اس کے تمام فنڈز روک دیئے جائیں۔ کیا دنیا بھر کے سمندروں اور زمینی مقامات پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے امریکی پینٹاگان کی معلومات اس قدر ناقص اور غیر تصدیق شدہ تھیں کہ وہ یہ جان ہی نہ سکا کہ پاکستان کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہے اور دہشت گردوں سے اپنے ملک کے چپے چپے کو واگزار کرانے کیلئے یہ فوج نہیں‘ بلکہ چمڑے کے بنے ہوئے پتلے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔یہ جو سوات‘ وزیرستان میں دہشت گردوں کے گروہ پاکستانی فوج کے افسروں کے جوانوں کو زبح کرنے کے بعد ان کے سروں سے چنگیز اور ہلاکو خان کی طرح وحشیانہ قہقہے لگاتے ہوئے فٹ بال کھیلتے رہے‘ وہ محض ایک خواب تھا۔
امریکہ نے پاکستان پر اس کی دوستی اور قربانیوں کی تضحیک کا جو کیچڑ پھینکا ہے‘ وہ پاکستان کی آنے والی نسلیں کبھی بھی نہیں بھولیں گی ۔امریکیوں میں اگر ہمت ہے تو سنیں کہ پاکستان جب تحریک طالبان پاکستان اور داعش سمیت القاعدہ کے عالمی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے رہا تھا تو اسی وقت سی آئی اے بلوچستان اور فاٹا میں بھارت کی راء اور افغانستان کی این ڈی ایس کو جدید قسم کا تخریبی اسلحہ اور سامان فراہم کرتے ہوئےBLA, BLF, BRG اور تحریک طالبان کے ذریعے پاکستان کے دفاعی اداروں اور تنصیبات کو تباہ کراتی رہی‘ بلوچستان کے ہر اس گھر جہاں سے پاکستان کی آواز نکلتی اسے تباہ کراتا رہا‘ فرقہ وارانہ فسادات کراتا رہا ‘ پاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کراچی کو آگ و خون کا ڈھیر بناتا رہا۔ 70 ہزار سے زائد پاکستان کے بچوں بوڑھوں اور مردو خواتین کی جگہ جگہ بم دھماکوں خود کش حملوں سے کٹی پھٹی لاشوں کو سنبھالتے ہوئے راہ حق‘ ضرب عضب اور ردالفساد کی پر کظر اور کٹھن راہوں پر چلتا رہا۔
جاپان جیسے پر امن ملک اور یورپی یونین جیسی دہشت گردی سے ہمہ وقت بر سر پیکار اور گھبرائی ہوئی قوموں کو بھی اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرتے ہوئے اگر اپنی آزادانہ رائے رکھتے ہیں تو امریکہ سمیت دنیاکو بتانا پڑے گا کہ وہ1979ء سے اب تک افغانستان میں روسی کمیونزم ‘القاعدہ‘ داعش اور تحریک طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں 70 ہزار سے زائد شہریوں اور سات ہزار سے سکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں کی صورت میں پاکستان کی دی جانے والی لازوال قربانیوں کے ساتھ ہیں۔
گھریلو سکون سے محروم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ‘جسے وائٹ ہائوس کے اندر اور وہاں سے باہر نکلتے ہوئے ہر لمحے یہی گھبراہٹ اور خوف لاحق رہتا ہے کہ نہ جانے کس لمحے امریکہ کی خاتون اول‘سر بازار اس کی بے عزتی کر کے نہ رکھ دے اس کے اپنی جانب بڑھے ہوئے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے دھتکار تے ہوئے اسے تماشا نہ بنا دے‘ کسی پارٹی یا سفارتی ڈنر میں اس کی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر ناک بھوں چڑھا کر کسی اور طرف نہ چل پڑے‘ا یسے انسان سے معقول رویہ یا سوچ رکھنے کا خیال ہی عبث ہے اور جب یہ شخص امریکی صدر ہو تو اس سے اسی قسم کی بو نگیاں سر زد رہتی ہیں۔
کبھی کبھی امریکیوں کی سوچ اور ورلڈ آرڈر کا ڈنڈا اٹھائے امریکی ووٹروں کے انتخا ب اورفہم و فراست پر سوالیہ نشانات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کیا‘ جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ جس جہاز میں وہ امریکہ اور دنیا بھر میں گھوم رہا ہے‘ اس میں سے کھلا ہوا چھاتہ گزرنے کی قطعی گنجائش نہیں‘ جسے اب تک یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ اس کے جہاز کے داخلی دروازے کا سائز کھلے ہوئے چھاتے سے بہت چھوٹا ہے۔ایسا شخص کیسے جان سکتا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کس قدر عظیم قربانیاں ہیں۔