"MABC" (space) message & send to 7575

پانی اور بجلی۔۔۔۔۔۔دو ملک دوچیف جسٹس

آپ میرا یہ مضمون غور سے پڑھیں یا سر سری سی نظر ڈال کر آگے بڑھ جائیں‘ لیکن اس مضمون میں جو اہم سوال پوچھا جا رہا ہے‘ اس کا جواب تو آپ کے ذہن میں لازمی ہو گاکہ گذشتہ چالیس برسوں سے پاکستان میں پانی اور سستی ترین بجلی کی فراہمی کیلئے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ولی خان ‘ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی سمیت سندھ کی انتہا پسند جماعتیں کھلے عام کالا باغ ڈیم کو بم سے اڑا دینے کی دھمکیاں دیئے جا رہے ہیں۔۔۔اب جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کالا باغ کی بجائے'' دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایاہے تو ڈیم بنانے کے مخالف نواز لیگ‘ پی پی پی اور ان کا حامی میڈیا بھیس بدل کر کبھی آواز بدل کر راہ ‘ کہیں آتے جاتے یا ٹی وی کی سکرینوں پر وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی اپیلوں پر قہقہے لگاتے ‘تمسخر اڑاتے‘ آوازے کستے نظر آ رہے ہیں'' کبھی چندوں سے بھی ڈیم بنے ہیں‘‘ بھیک مانگنے سے بھی ڈیم بنے ہیں‘‘ ۔
پانی اور سستی بجلی کے ان دشمنوں کوکون بتائے کہ گھر میں یا آپ کے کھیتوں میں پانی کی کمی ہو جائے تو زندہ رہنے کیلئے گھر میں نلکا یا زمینوں کیلئے ٹیوب ویل لگانے کیلئے باپ‘ بیٹے یا بھائی بہن سب مل کر یہ اخراجات پورے کر لیں تو اس میں کیا برا ئی ہے ؟ پاور کمپنیوں کے ان حصے داروں اور سستی بجلی کے دشمنوں کی ذہنیت دیکھئے کہ اس ملک کا چیف جسٹس ایک ایک سے دس دس روپے کیلئے اپیل کرتے ہوئے ‘کل کو آنے والے قحط سے پاکستانیوں کو بچانے کیلئے ملک کے اندر اورباہر ہر سننے اور دیکھنے والے کو جھنجھوڑرہا ہے کہ نادانوں اپنی آنکھیں کھولو'' بھارت اب دریائے سندھ پر بھی53 بجلی گھر اور سات ڈیم تعمیر کر رہا ہے‘ جس سے پندرہ سال کے اندر اندر پاکستان قحط کا شکار ہو جائے گا‘‘۔ لیکن میرے پاکستان کے گلشن میں سبزہ اور پھول کھلتے دیکھ کر آگ بگولہ ہونے والے پانی اور بجلی کے دشمن قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت صوبائی اسمبلیوں میں بھاشا ڈیم کیلئے چندے کی اپیلوں کا مذاق اڑانے کیلئے جگت بازی کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لئے جا رہے ہیں۔ تمسخر اڑانے والے کہہ رہے ہیں کہ ڈیم بنانا اور پانی کا بندوبست سیا سی حکومتوں کا کام ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر آپ نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں یہ ڈیم کیوں نہیں بنائے؟ پاکستانیوں کے پانی کے دشمن معزز سپریم کورٹ کا تمسخر اڑانے سے پہلے بھارتی سپریم کورٹ کا بھارتی حکومت کو فوری طور پر تمام دریائوں کو آپس میں انٹر لنک کرنے کا حکم پڑھ لیں۔ یہ حکم دیتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اس منصوبے کی مدت میں ایک دن کی توسیع بھی نہیں کی جائے گی!اور یہ حکم پاکستان کو بنجر کرنے کا حکم ہے‘ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بھارت کا ہمالیہ اورPeninsular Rivers سے منسلک تیس دریائوں کو انٹر لنک کرنے کا یہ منصوبہ مستقبل میں اس کے شہریوں کی ضروریات کے علاوہ بھارت کی زرعی اور توانائی ضروریات میں آسانی پیدا کرنے کیلئے ہے جس پر5,60,0000 ملین بھارتی روپے لاگت آئے گی۔ جس سے ہر سال کروڑوںملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور اس پانی سے بھارت کی ہر ریا ست کی پانی کی ضروریات کو بخوبی پورا کیا جا سکے گا۔۔۔ایک طرف بھارت کا یہ منصوبہ ہے‘ جسے اس کی سپریم کورٹ مکمل کرانے جا رہی ہے تو دوسری طرف پانی کے دشمن راء کی فنڈنگ سے محل ‘ فیکٹریاں اور ملائیشیا‘ دبئی میں محلات بنانے کیلئے کالا باغ ڈیم کو دفن کرتے ہوئے ہر سال پاکستان کا قیمتی پانی سمندر میں غرق کر نے پر خوشیاں مناتے دیکھے جاتے ہیں۔۔۔پاکستانیوں کیلئے یہ رپورٹ بھی حیران کن ہو گی کہ دریائوں کو انٹر لنک کرنے کے اس منصوبے پر بھارت کے پہلے سے ہی جاری پانی کے منصوبوں سے بھی پچاس گنا زیا دہ رقم خرچ کی جا رہی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا بھارت کے تمام دریائوں کو آپس میں انٹر لنک کرنے کا دیا گیا حکم بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے اور اگر صاف صاف لفظوں میں لکھا جائے تو یہ پاکستانیوں کے قتل عام کا حکم ہے ‘کیونکہ 1960ء میںورلڈ بینک کی معاونت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرائے جانے والے انڈس بیسن معاہدے کی رو سے بھارت کے مغربی حصوں کے دریا کسی دوسرے دریا سے تو دور کی بات ہے کسی دوسریTributaryسے بھی لنک نہیں کئے جا سکتے اور بھارتی سپریم کورٹ کا دیا جانے والا یہ حکم قانون اور انصاف کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔۔۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے نیلم پر جو کشن گنگا ڈیم کا تنازعہ چل رہا ہے اس کیلئے پاکستان نے ہیگ میں عالمی عدالت برائے انصاف میں جو آربیٹریشن کیس دائر کیا تھا اس میں پاکستان کی طرف سے انڈس بیسن معاہدے کے آرٹیکل1X اور کلازG کے تحت جو سب سے اہم ترین دو نکات اٹھائے گئے ہیں ان میں عالمی عدالت برائے انصاف کے چیئرمین سٹیفن ایم شیوبل سے سوال کیا گیا تھا کہ'' بنارمد متی نالہ جو بھارت کے کشن گنگا دریا سے منسلک ہے اس کا رخ تبدیل کیا جانا کیا اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے‘ جس کے آرٹیکل111(2) میں لکھا ہوا ہے کہLet flow all the waters of the westren rivers and not permit any interference with those waters ۔۔۔۔انڈس بیسن معاہدے کے آرٹیکل3 کی کلاز ایک ‘دو اور تین میں واضح لکھا ہوا ہے کہ بھارت مغربی دریائوں کے نہ تو رخ موڑ سکے گا اور نہ ہی اس کی راجباہوں کے۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اگر فرصت ملے تو وہ 31 مارچ1960 ء کو پانی کی تقسیم بارے ہونے والے پاک بھارت معاہدے کی اس شق کو ضرور پڑھ لیں‘ جس کے مطابق '' بھارت اس بات کا پابند ہے کہ مغربی دریائوں کے پانیوں کو پاکستان کی طرف بہنے دے اور ان پانیوں کے بہائو میں کسی بھی قسم کی کوئی رکا وٹ ڈالنے کی اجا زت نہ دے‘‘۔
دریائے جہلم وادی کشمیر سے گذرنے کے بعد وولر نام کی ایک مشہور قدرتی جھیل میں جا گرتا ہے‘ جوسری نگر سے 55 کلو میٹر نیچے واقع ہے اور اس کا پانی بہتے بہتے مقبوضہ کشمیر میں ہی سو پور کے مقام پر دوبارہ دریا بن جاتا ہے ۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ تمام دریا جموں و کشمیر اور کچھ دوسرے بھارتی علا قوں سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچتے ہیں اور اگر بھارت کے تمام دریائوں کو آپس میں انٹر لنک کر لیا گیا تو پھر اس سے پیدا ہونے والے نتائج محب ِوطن پاکستانیوںکے سامنے ہونے چاہئیں ۔۔۔ سندھ طاس معاہدے میں صاف لکھا ہوا ہے کہ '' کسی بھی دریا کے پاٹ کے تمام چینل اور کھاڑیاں(Creeks) اس میں شامل سمجھے جائیں گے اور وہ تمام تالاب اور جھیلیں جو دریا کے پاٹ کو آپس میں ملانے والے ہوں اور جو اس دریا کا حصہ ہوں وہ دریا کے پاٹ ہی کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ وولر جھیل دریائے جہلم کا ہی حصہ ہے اس لئے معاہدے کی رو سے جہلم کا پاٹ وری ناک اور چناب کا پاٹ چندرا اور بھاگا ندیوں کے سنگم تک متصور ہو گا۔دریائے چناب کا سارا پانی چندرا اور بھاگا دریائوں کے سنگم تک پاکستان کا ہے ۔دریا کے بہائو کے مخالف سمت چناب کے کنارے کنارے چلتے جائیں تو پورے پنجاب اور مقبوضہ کشمیر سے گزرنے کے بعد بھارتی صوبے ہما چل پردیش کے ضلع چمبا میں ٹانڈی کے مقام اور کیلانگ کے مقام پر چندرا اور بھاگا دریائے چناب میں گرتے ہوئے آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں