پاکستان کا اگر موازنہ کیا جائے ‘تو یہاںمذہبی رواداری کی خلاف ورزیوں کا گراف باقی دنیا سے سب سے کم نہیں‘ تو زیا دہ بھی نہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے چند لاکھ لوگ اگر دشمن ممالک کے ایجنٹ بن کر انتہا پسندی اپناتے ہیں ‘تو اکیس کروڑ نوے لاکھ لوگ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے واقعات کی بات کریں‘ تو ابھی حال ہی میں ایک امریکی نے کیلیفورنیا میں یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کرتے ہوئے پانچ افراد کو قتل کر دیا گیا‘ تو کیا یہ مذہبی رواداری کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ امریکہ ‘برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس میں مسلم عبادت گاہوں پر پٹرول بم پھینکے گئے اورامریکی سکولوں میں مسلم بچوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر توہین آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
امریکہ نے پاکستان میں مذہبی رواداری کی مبینہ خلاف ورزیوں کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان کو بلیک لسٹ میں تو شامل کر دیا‘ لیکن بھارت کے صوبے اتر پردیش میں گائو کشی کے نام پر مسلمان مرد و خواتین کی جو کھالیں کھینچی جا رہی ہیں‘ وہ اسے نظر کیوں نہیں آتیں؟ اڑیسہ‘ گجرات اور آسام سمیت چھتیس گڑھ‘ ناگا لینڈ میں دلت‘ عیسائیوں اور مسلمانوں کے گھروں‘ مسجدوں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے‘ کیا یہ سب امریکہ کی نظروں سے اوجھل ہے؟اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگیندر ناتھ یوگی نے جب معروف کرکٹر اور کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی نوجوت سنگھ سدھوکو کرتار پور کی آواز بلند کرنے پر ان کا سر کاٹنے والے کیلئے ایک کروڑ بھارتی روپے انعام میں دینے کی‘ جو پیشکش کی ہے ‘تو امریکہ سمیت کسی بھی انسانی حقوق کے چیمپئن کی مذہبی آزادی اور رواداری کی اس مجرمانہ پامالی پر آواز کیوں نہیں نکل رہی ہے؟۔
پاکستان کو مذہبی رواداری کے نام پر امریکہ کی دی گئی سزا اور بھارت کے ایک اہم ترین صوبے کے وزیر اعلیٰ کا کھلم کھلا سکھ لیڈر نوجوت سنگھ سدھو کا سر کاٹنے کی یہ دونوں خبریں ایک ساتھ پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ سر کاٹنے کی بات اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے نہیں‘ بلکہ جنگل کے کسی خونی درندے کی جانب سے کی گئی ہے‘ جس پر کسی قانون کسی بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا‘ ورنہ دنیا کی مہذب قوموں میں سے کوئی ایک آگے بڑھ کر بھارت کی جواب طلبی کرسکتا ہے ۔ ملعون سلمان رشدی نے نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے جب اپنی بد نام زمانہ کتاب لکھی اور اس پر ایران کی حکومت نے ملعون رشدی کو قتل کرنے والے کیلئے بھاری انعام رکھا‘ تو پورا یورپ‘ برطانیہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور امریکہ بھر میں ہر کسی کو آگ سی لگ گئی اور سب نے ایران پر پابندیاں لگانے اور اس کے شہریوں کو دیس نکالا دینا شروع کر دیا۔ انڈیا ٹو ڈے کے زیر اہتمام جب دنیا بھر کی اہم ترین شخصیات کو نئی دہلی بلایا گیا اور پاکستان سے عمران خان کو جب خبر ملی کہ ملعون سلمان رشدی بھی اس میں شرکت کر رہا ہے‘ تو جیسے ہی عمران خان نے اس ملعون کو دعوت دینے پر اس سیمینار کا بائیکاٹ کر دیا‘ تو اسے مذہبی انتہا پسند کہتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا گیا‘ لیکن جب سدھو کا سر کاٹنے کے اعلانات ہو رہے ہیں‘ تو نہ جانے کیوں سب کی زبانیں بند ہیں ۔
نوجوت سنگھ سدھو کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بھارت اور دنیا بھر میں با با جی گرو نانک کی آخری آرامگاہ کی یاترا کیلئے کم تر خرچ اور آسان سفر کیلئے پاکستان اور بھارت سرکار کی بنتی کرتا رہا‘ جس پر پاکستان میں عمران خان حکومت نے گرو نانک جی کی سیوا کیلئے عقیدت سے سر جھکاتے ہوئے‘ اسے دل و جان سے منظور کر لیا‘ لیکن بھارت کی براہمن ہندو سرکار نے دل پر پتھر اور آنکھوں میں چھپی نفرت کو عیاری کی چمک کے پردے میں سمیٹتے ہوئے نیم دلی سے کچی پکی سی اجا زت تو دے دی‘ لیکن پاکستان کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر رہی ہے کہ بھارت سے روزانہ چار سے پانچ ہزار سکھ یاتریوں کو کرتار پور راہداری کی ویزہ فری سہولت سے فیض یاب ہونے کیلئے آنے کی اجا زت دی جائے ۔
کرتار پور کیلئے ویزہ فری راہداری کو‘اگر AN UNEQUAL LOVE ــکہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ‘ کیونکہ ایک جانب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جہاں کرتار پور راہداری کی اجا زت دینے کیلئے انتہائی پر جوش اور جذباتی ہو رہے تھے تو دوسری جانب نریندر مودی اکھڑے اکھڑے اور ڈانواں ڈول دکھائی دیتے رہے‘ اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سکھوں کے اس مقدس مقام کی یاترا کیلئے ملنے والی اس عظیم الشان اور خوش کن سہولت سے دلی طور پر خوش ہوتے تو کرتار پور میں با با جی گرو نانک کی جنم بھومی کے پہلو میں بیٹھ کر اس تقریب کو اس طرح مناتے کہ دنیا بھر کا میڈیا اس کی کوریج کیلئے امڈتا چلا آتا‘ اس سے ایک جانب جہاں سکھ دھرم کے پیرو کاروں کی خوشیاں دگنی ہو جاتیں‘ تو ساتھ ہی وسیع پیمانے پر بین الاقوامی کوریج ملنے سے گرو نانک جی کا پیغام بھی دنیا بھر میں پھیل جاتا۔شاید یہی وجہ تھی کہ براہمن کسی صورت بھی اس کوریج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوا‘ کیونکہ اس طرح دنیا ہندوئوں کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جا نا تھا کہ سکھ دھرم ہندو مذہب کا ہی ایک ذیلی فرقہ ہے ۔
1539ء میں جب با با گرو نانک جی اس دنیا سے ظاہری طور پر رخصت ہوئے‘ تو ان سے مسلمانوں کی عقیدت اس حد تک تھی کہ وہ انہیں اپنی مذہبی رسومات کی طرح دفنانا چاہتے تھے‘ جبکہ ہندو ان کی چتا کو جلانے کیلئے تلے ہوئے تھے‘ اسی طرح26 نومبر کو بھارت نے اپنی حدود میں تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کی حدود کرتار پور میں اس راہداری کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے پونے پانچ سو برس قبل کی یاد تازہ کر دی‘ امید کی جانی چاہئے کہ یکم نومبر2019 ء کو جب کرتار پور راہداری کا یہ پراجیکٹ اپنی تمام سہولیات کے ساتھ مکمل ہو جائے گا‘ تو بھارت گرو نانک جی کے ا حترام میں26 نومبر2018ء والی سرد مہری نہیں دکھائے گا۔ سکھ یاتریوں کی کرتار پور آمد کیلئے دریائے راوی پر تعمیر کیا جانے والا 800 فٹ طویل پل یاتریوں کی بس لے جانے کیلئے ہو گا‘ نہ کہ کسی ٹینک کیلئے۔
بھارتی پنجاب کی کابینہ کے بہت سے نام نہاد سکھ وزیر‘ جو براہمنوں کے اشاروں اور دولت پر ناچنا ہی اپنا دھرم سمجھتے ہیں‘ نوجوت سنگھ سدھو سے استعفیٰ کا مطا لبہ کر رہے ہیں ‘اس قسم کے نام نہاد سکھ گرو جی کے سکھوں کے ہی ووٹ لے کر پنجاب میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں‘ لیکن اصل میں اندر سے وہی پرانے براہمن ہیں‘ جن کے بڑوں کوہندو پنڈتوں نے سکھ دھرم میں ایک منصوبے کے تحت داخل کیا تھا ‘اپنے اصل آقا کا ایجنڈہ پورا کرنے کیلئے ظاہری اور جھوٹ موٹ طور پر اپنایا ہواسکھ دھرم بھول کر براہمن نفرت کے ساتھ کرتار پور راہداری کا جرم کرنے پر نو جوت سنگھ سدھو کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو کو اس وقت بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پر رہا ہے؛ ایک بھیس بنائے ان سکھ لیڈروں سے ‘تو دوسرا بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت بھارت کی پچیس کے قریب ہندو انتہا پسند جماعتوں کی نفرت سے۔
اگر بھارت میں قانون ہوتا یا قانون کی حکمرانی ہوتی‘ تو عدالتیں مذہبی تعصب سے آزاد ہوتیں اور اب تک یوگی ادھیتا نند وزیر اعلیٰ یو پی کو گرفتار نہیں‘ توکم از کم اس کو موجودہ عہدے سے بھارت کی کوئی بھی اعلیٰ عدالت کان سے پکڑ کر کب کی نیچے اتارچکی ہوتی ۔