"MABC" (space) message & send to 7575

اعتراف تو کیا

''پانچ سال میں تو باغ بھی تیار نہیں ہوتا اور یہ کھلنڈرا پانچ ماہ میں ملک کی قسمت کیسے سنوار سکتا ہے‘‘۔ یہ تھا تو طنز جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت کے طفیل وراثت میں ملنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے بے داغ اور اصلی چیئر مین آصف علی زرداری نے بدین میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بدین میں باتیں تو انہوں نے اور بھی نہ جانے کتنی کیں‘ لیکن بے خودی کہہ لیں یا ان کا جوشِ خطابت سمجھ لیں کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ نے کم ازکم پاکستانیوں کو یہ تو بتا دیا کہ پانچ ماہ میں پچاس لاکھ گھر اورایک کروڑ نوکریاں کیسے مہیا ہو سکتی ہیں‘ جبکہ پانچ سال میں تو پھل کھانے کیلئے لگایا ہوا باغ بھی تیار نہیں ہو سکتا۔ ویسے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی قیا دت اور اس کے دوسرے‘ تیسرے درجے کی بات چھوڑیں مرکزی لیڈرزجو 30 برسوں سے پنجاب‘ سندھ‘ کے پی کے اور مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور پی پی پی تو خیر سے گزشتہ دس برسوں سے یہ موجیں کر رہی ہے‘ اپنے سکولوں میں استاد اور پانی‘ پنکھے اور دروازے نہیں دے سکے ‘اپنے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر تو دور کی بات ہے ‘بستر اور ادویات تک مہیا نہیں کر سکے‘ وہ کس منہ سے تحریک انصاف کو طعنے دے رہے ہیں کہ اس نے پانچ ماہ میں کیا کر لیا ہے؟۔ ایسے لگتا ہے کہ نواز لیگ اور زرداری کے نزدیک وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا ایک ماہ ان کی حکومتوں کے پانچ سال کے برا بر ہے اور اب چونکہ پانچ ماہ گزر چکے ہیں‘ ا س لئے اس کی حکومت کو بھی ان کی نظروں میں تیس سال ہو گئے ہیں۔
بقول آصف علی زرداری صاحب کے؛ اگر آج وہ اور ان کا فرزند ارجمند بلاول بھٹو‘ نواب شاہ یا لاڑکانہ میں پھل اُگانے کیلئے ایک باغ لگانے کی کوشش کریں تو اس کیلئے بھی انہیں پانچ سال لگ جائیں گے‘ تو جناب پھر عمران خان کے پاس کوئی جن تو نہیں یا اس کے پاس کوئی جادوئی چراغ تو نہیں کہ وہ پھل دار درخت کا ادھر پودا لگائے تو اگلے ماہ وہ تن آور درخت بن کر پھلوں سے لدا ہوا دکھائی دینے لگے ۔ تحریک انصاف اور اسد عمر نے انتخابات سے پہلے جو 100 دن کی لاف زنی کی تھی‘ آج تک اس کی قیمت بھی تو ادا کر رہی ہے اور پوری اپوزیشن سمیت نواز لیگ اور پی پی پی سمیت ان کا حامی میڈیا اس بڑھک یا دعوے پرآج تک ان کی جو خبر لے رہا ہے‘ اس میں ذرا برا بر بھی کمی نہیں آ رہی ۔ میرے جیسے کسی تجزیہ کار سے اگر کوئی پوچھے تو میں اپوزیشن جماعتوں کو کم‘ لیکن تحریک انصاف کو کہوں گا: YOU ASKED FOR IT ۔ وہ تو بھلا ہو آصف زرداری کا کہ جوشِ خطابت میں ان کو ہوش نہ رہا اور انہوں نے عمران خان کی مدد کو آتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ بیوقوفو‘ پانچ سال میں تو باغ تیار نہیں ہوتا اور تم پی ٹی آئی سے اس کی کارکردگی پوچھنے لگے گئے ہو۔ 
جناب زرداری ہی کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی ایک سینئر رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن تحریک انصاف کی مدد کو آگے بڑھے اور انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کی 100 دن کی حکومت کے حوالے سے تنقید کے نشتر برساتے ہوئے ان کی خوب خبر لینے والوں کو صرف اتنا کہا '' اگر ملک میں صدارتی نظام نافذ ہوتا تو پھر ہم عمران خان سے یہ سوال کر سکتے تھے کہ آپ نے 100 دنوں کے عرصے میں اس ملک و قوم کیلئے کیا کیا ہے؟ بالکل ایسے ہی جس طرح امریکی صدر سے ان کے میڈیا نے ان کی کارکردگی بارے سوالات کئے تھے ‘لیکن پاکستان میں چونکہ صدارتی نظام کی بجائے پارلیما نی نظام حکومت ہے اور اس کے علا وہ اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ چاروں صوبوں کی علیحدہ علیحدہ حکومتیں ہیں‘ اس لئے سو دنوں میں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے یہ سب مضحکہ خیز سوالات تو ہیں اور ساتھ ہی تحریک انصاف کی بھی اپنی کارکردگی دکھانے کا دعویٰ کرنے کی ‘یہ بچگانہ قسم کی حرکت تھی۔
سابق صدر آصف علی زرادری لاڑکانہ‘ گھوٹکی ‘ کشمور ‘ حیدر آباد اور بدین میں جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد نہ جانے کس خوف کے تحت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں ۔ اگر غور سے دیکھا جائے ‘تو ایک طرح کی سہمی ہوئی فریاد کرتی پکار بھی ہے کہ ہم سے بات کر لو ہمیں ساتھ لے کر چلو ہمارا ہاتھ تھام لو یا ہمارے سر پر ہاتھ رکھ لو تو جو کہو گے وہی کریں گے‘ لیکن ساتھ ہی وہ للکارے بھی مارے جا رہے ہیں‘ تاکہ ان کے لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ '' بھیڑ ہو گیا جے‘‘ ۔ زرداری صاحب سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں کھڑے ہو کر بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دی گئی تھیں ‘لیکن پھر باہر بھاگ گئے تھے‘ لیکن آج کی دھمکیوں میں وہ سینہ تان لیتے ہیں کہ یہ جیلیں ہمارے لئے کوئی نئی نہیں جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ جیلیں تو ہم نے ہوش سنبھالتے ہی دیکھ لی تھیں۔بدین میں ان کا چھ جنوری کا خطاب تو اس قدر دھمکی آمیز لگ رہا تھا کہ شاید فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اسلام آباد کو آخری وارننگ دے رہے تھے کہ اگر اسے ہاتھ لگایا گیا‘ اگر اس کی تجوریوں کی جانب نظر ڈالی‘ اگر اس کی وراثت میں ملی ہوئی چیئر مین شپ کو بری نظروں سے دیکھا گیا‘ اگر پیپلز پارٹی کو سندھ میں من مانیاں کرنے سے روکا گیا تو پھر وہ کچھ ہو گا‘ جس کا اسلام آباد والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔اب یہ تو اسلام آباد والے ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کی فریادیں کیوں نہیں سن رہے اوراگر سن رہے ہیں تو ایک کان سے سن کو دوسرے سے کیوں نکال دیتے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے درجنوں کی تعداد میں زرداری صاحب کے متوالے( جیالے نہیں کیونکہ وہ زرداری صاحب کو پانچ برس سے زائد عرصہ ہوا چھوڑ چکے ہیں) ان کا دفاع کرنے کیلئے ایسی ایسی باتیں اور صفائیاں دینے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ‘جس سے لگتا ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان کے لیڈر آصف علی زرداری جیسا ایماندار‘ دیانتدار اور ملک کے خزانے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کرنے والا اس ملک میں اور کوئی نہیں اور جو گواہی کہہ لیں یا ہاتھ کی صفائی کہہ لیں‘ زرداری صاحب کیلئے قمر الزماں کائرہ جیسے لوگ دے رہے ہیں‘ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی روزِ محشر ان سے جواب طلبی نہیں ہو گی؟جس طرح میرے سمیت مختلف کالم کار یا ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دینے والے اپنے ہر لکھے اور کہے کا حساب دیں گے‘ اسی طرح آصف علی زرداری کی صفائیاں دینے والوں کو بھی ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہو گا ‘جو ان کے سامنے ایک چلائے جائیں گے‘ تاکہ وہ مکر نہ سکیں کہ انہوں نے تو یہ کہا ہی نہیں‘ کیونکہ اسی سکرین پر زرداری صاحب کے کارنامے بھی دکھائے جائیں گے۔ بتائیں اس وقت یہ لوگ اپنے خدا کو کیا جواب دیں گے‘ کیونکہ اس دن تو ہر ایک کا نامۂ اعمال سب کے سامنے کھول کھول کر بیان کر دیا جائے گا اور یہ صرف زرداری صاحب کیلئے نہیں ‘بلکہ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ عمران خان‘ مولا نا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت ہر ایک کے پول کھول کھول کر دکھائے جائیں گے اور جو کچھ وہاں پر دکھایا جائے گا ‘اس کا ایک ایک لفظ سچ اور صرف سچ ہو گااور یاد رکھو اﷲ نے جھوٹی شہا دت دینے کی خوفناک سزا مقرر کر رکھی ہے ۔
کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی روزِ محشر ان سے جواب طلبی نہیں ہو گی؟جس طرح میرے سمیت مختلف کالم کار یا ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دینے والے اپنے ہر لکھے اور کہے کا حساب دیں گے‘ اسی طرح آصف علی زرداری کی صفائیاں دینے والوں کو بھی ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہو گا ‘جو ان کے سامنے ایک چلائے جائیں گے‘ تاکہ وہ مکر نہ سکیں کہ انہوں نے تو یہ کہا ہی نہیں‘ کیونکہ اسی سکرین پر زرداری صاحب کے کارنامے بھی دکھائے جائیں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں