میگا جعلی اکائونٹس مقدمے میں ضمانت کیلئے آصف علی زرداری جب کراچی بینکنگ کورٹ پہنچے ‘تو کورٹ کے باہر موجود پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد 'ایک زرداری سب پر بھاری ‘کے نعرے لگاتی رہی ۔یہ وہ نعرہ ہے‘ جو ایک وقت میں زرداری صاحب کے ہر متوالے کی زبان پر رہتا تھا‘ لیکن پھر ایک دن نہ جانے کیا ہوا کہ زرداری صاحب نے خود ہی ایک حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے سب کو یہ نعرہ لگانے سے روک دیا‘ لیکن ایک طویل وقفے کے بعد جیسے ہی فالودے والے کا ڈھائی ارب اور سائیکل مکینک کا دو ارب سامنے آیا‘ تو اس نعرے کو پھر سے پی پی پی کا سرکاری نعرہ بنا دیا گیا ہے۔ اب یہ سوال تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ آصف علی زرداری ‘قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا اثاثہ ہیں یا اس پر ایک بھاری بوجھ؟
امریکہ کی سابقہ سیکرٹری آف سٹیٹ کونڈا لیزا رائس نے اپنی کتاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان این آر او کی جو تفصیلات دی ہیں‘ان کو اگر پی پی پی کا کوئی ایک بچا کھچا جیالا جو کسی لالچ کے بغیر آج بھی زرداری صاحب کا حقِ نمک ادا کرنے کے لیے دن بھر ٹی وی کی سکرینوں پر ان کی مدح سرائی اور صفائی کے گواہوں کے طور پر پیش ہو رہا ہوتا ہے‘ ایک نظر دوبارہ دیکھ لے تو پھر کبھی بھی اپنی زبان پر ڈکٹیٹر کا لفظ لانے کی جرأت نہ کرے‘ کیونکہ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے۔
جنرل ایوب خان سے یحییٰ خان اور پھر جنرل ضیاالحق سے جنرل مشرف تک پی پی پی ہر ڈکٹیٹر سے فیض یاب ہوتی رہی اور ان آمروں کے ہی پروردہ لوگوں کو زرداری صاحب‘ چن چن کر آگے لاتے رہے؛ اگر شک ہے تو یوسف رضا گیلانی کا وزیر اعظم بنانا اور پرویز الہٰی کو نائب وزیر اعظم مقرر کرنا‘ کوئی صدیوں پرانی نہیں ‘بلکہ چھ سال پرانی بات ہے۔ کوئی ایک بھی بھٹو شہید کا جیالا ان سے یہ یا بی بی سے یہ توقع کر سکتا تھا؟ 2006ء سے دبئی اور لندن سے ملنے والی خبروں کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آئے گی تو اس دفعہ نہ تو آصف علی زرداری کو حکومت میں کوئی عہدہ دیا جائے گا اور نہ ہی انہیں وزیر اعظم ہائوس میں رہنے کی اجا زت ہو گی‘ کیونکہ بی بی کا کہنا تھا کہ ان کے اقتدار کی کرسی کیلئے زرداری صاحب1988ء اور پھر1994ء میں بہت بھاری ثابت ہو ئے‘ جس کی وجہ سے ان کے اقتدار کی کرسی ان کا اس قدر بھاری بوجھ سنبھال نہ سکنے کی وجہ سے جلد ہی دب کر ٹوٹ گئی اور ان ذرائع کی بی بی شہید کے اس غیر ملکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو سے یہ بات سچ بن کر سامنے آ گئی کہ انہوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ ان کے شوہر آصف زرداری کا وزیر اعظم ہائوس یا اس کے معاملات میں کسی کا دخل نہیں ہو گا ۔
سینہ بہ سینہ اور پھر میڈیا سمیت مختلف ذرائع سے ملنے والی ان روایات کو سامنے رکھا جائے ‘تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ ‘اسی لئے مشہور ہوا کہ ایک طرف مسلم لیگ نواز اور اس کی حامی جماعتیں اور اس کے لاکھوں کی تعداد میں کارکن سب مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو عوام کے دلوں سے نہ نکال سکے‘ ان کے مقابلے میں صرف اکیلے زرداری صاحب نے وہ کام کر دکھایا‘ جو بھٹو کے تمام مخالفین مل کر بھی نہ کر سکے۔ زرداری صاحب ‘خیر سے پوری پیپلز پارٹی کو آج اس حالت میں لے آئے ہیں کہ اگر سندھ سے اقتدار نکال دیا جائے‘ تو مراد علی شاہ یا شرجیل میمن تو دور کی بات ہے‘ نثار کھوڑو بھی سب سے پہلے چھلانگ لگاتے ہوئے ‘ سیاست کے دریا میںاتر کر جہاں رستہ نظر آیا‘ بھاگ جائیں گے۔
سب پر بھاری کے نعرے کی تشریح کرتے ہوئے جتنے منہ اتنی باتیں ‘والی بات ہے ۔کچھ حاسدین کا کہنا ہے کہ جناب زرداری صاحب کے پاس ہر وقت سٹاک میں لاکھوں ٹن چینی پڑی رہتی ہے‘ اس لئے اتنے زیا دہ وزن کی وجہ سے انہیں سب پر بھاری کہا جاتا ہے‘ لیکن یہ بات بھی ماننے یا تسلیم کرنے میں نہیں آتی ‘ کیونکہ بہت سے دوسرے لوگوں کے پاس بھی چینی کا اس سے بھی بھاری سٹاک ہوتا ہے اور اگر چینی سے ہٹ کر بات کی جائے تو سیمنٹ کا وزن سب سے زیا دہ ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے لوگ ہیں‘ جن کے پاس ٹنوں کے حساب سے سیمنٹ ہے تو اس طرح تو وہ بھی سب سے بھاری ہوئے‘ لیکن ایسے لوگ جنہیں ان سے خدا واسطے کا بیر ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطا بق؛ اگر نواب شاہ‘ نو ڈیرو‘ کراچی اور لاہور کے بلاول ہائوس جیسے گھروں کیلئے استعمال ہونے والی سیمنٹ کا وزن کیا جائے تو اس کا تو کوئی شمار ہی نہیں تو پھر کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ عجمان یا دبئی میں کوئی ایسی دھات ہے یا امریکہ ا ور لندن میں کچھ ایسے پلنگ یا صندوق ہیں‘ جن کاوزن بہت ہی بھاری ہے ‘تو یہ بھی کوئی ماننے والی بات نہیں ہو سکتی‘ بھلا پلنگ یا صندوق بھی اتنے بھاری ہو سکتے ہیں کہ کوئی ان کے بھاری پن کامقابلہ ہی نہ کر سکے۔
ہر وقت حسد کی آگ میں جلنے والوں کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ زرداری صاحب کے پاس علم کا خزانہ ہے‘ کیونکہ ہم سب یہی سنتے رہتے ہیں کہ جس قدر ذہین اور چالاک سیا ستدان کے طور پر زرداری صاحب کا نام لیا جاتا ہے‘ اس قابلیت کا اب تک کوئی بھی سیا ستدان پاکستان میں موجود نہیں اور وزیر اعظم عمران خان سمیت نواز شریف اور شہباز شریف تو ان کے سامنے طفل مکتب ہیں۔ ان کے اکائونٹس یا کسی فرضی پلازے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ ان کے پاس سیا ست جیسے بھاری علم کی وجہ سے انہیں سب پر حاوی کہا جاتا ہے‘ کیونکہ وہ اپنے اسی علم کی وجہ سے ملکی ادارے تو دور کی بات ہے‘ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کی طاقتور ایجنسیوں کو بھی حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کی مدد سے کئی دفعہ اپنی انگلیوں پر نچا چکے ہیں۔ جب یہ مفروضہ بھی رد ہو گیا ‘تو پھر کسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس امریکہ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی یونیورسٹیوں سے حاصل کی گئی ڈگریوں اور کتابوں کے ڈھیر ہوں‘ جن کے وزن کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں سب پر بھاری کہا جاتا ہو‘ لیکن ان کے کسی خاندانی مخالف نے یہ بتا کر اس خیال کو ختم کر کے رکھ دیا کہ وہ صرف میٹرک پاس ہیں اور انہیں زیا دہ پڑھنے کی وجہ سے کیڈٹ کالج پٹارو سے نکال دیا گیا تھا۔
بہت سے سیانوں اور ڈبہ پیروں سے بھی پوچھا کہ آخر انہیں سب پر بھاری کس لئے کہا جاتا ہے‘ تو کچھ نے سرگوشیوں کی زبان میں کہا کہ ان کے مبینہ اکائونٹس اور ان کے زیر زمین چھپے ہوئے خزانوں میں اس قدر دولت ہے کہ ان کے مجموعی وزن کا اب تک کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکا‘ اس لئے اس نا قابل بیان وزن کی وجہ سے انہیں سب پر بھاری کہا جاتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس بھاری بوجھ کی وجہ سے زمین کو اپنے سینگوں پر اٹھانے والا بیل بھی ہانپنے لگتا ہے‘ لیکن یہ کیسے تسلیم کیا جائے‘ کیونکہ زمین پر کھربوں انسانوں‘ پہاڑوں ‘ درختوںاور جانوروں کے بوجھ سے یہ بیل نہیں گھبرایا‘ ہاں! جب کچھ تھک جاتا ہے تو ایک سینگ سے دوسرے سینگ تک لے جانے کے دوران آرام کی غرض سے دوسرے سینگ پر رکھتے ہوئے زمین کچھ دیر ڈولنے لگتی ہے ۔