"MABC" (space) message & send to 7575

گورنر راج کیوں ؟

اگر کوئی صوبائی حکومت یہ اعلان کر دے کہ وہ مرکزی حکومت کے وزراء کو اپنے صوبے میں داخل ہونے کی اجا زت نہیں دے گی اور وہ جب چاہے گی‘ مرکزی حکومت کے وزراء کو 16ایم پی او کے تحت گرفتار کرنے کے بعد اپنے صوبے کی سب سے سخت جیل میں نظر بند کر دے گی ‘تو کیا یہ وفاق پر براہ راست حملہ نہیں؟ کیا یہ مرکز سے گریز نہیں؟کیا یہ اپنے صوبے کی عوام کو مرکز کے خلاف بھڑکانے کی ابتدا نہیں؟کیا پی پی پی کی قیا دت یا اس کے صوبائی وزراء آئین کی اس شق سے نا واقف ہیں کہ پروٹوکول میں مرکزی وزرا کا درجہ صوبائی وزیر اعلیٰ سے زیا دہوتا ہے؛اگر مرکزی وزراء کو کسی صوبائی حکومت میں نظر بند کر لیا جائے یا ان کے سندھ بھر میں داخلے پر پابندیاں عائد کر دی جائیں یا ان کے خلاف سولہ ایم پی او کے تحت مقدمات قائم کر دیئے جائیں‘ تو پھر اس صوبے میں گورنر راج کا کتنا امکان ہو سکتا ہے۔
آصف علی زرداری کے انتہائی معتمد اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے دو اہم ترین وزراء سید ناصر شاہ اور سعید غنی نے قومی میڈیا کے ذریعے گرجتے برستے ہوئے خبردار کر دیا ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وہ مرکزی وزراء جو سندھ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں ؛اگر انہوں نے ہماری قیا دت کے خلاف الزام تراشی بند نہ کی تو ان کے خلاف16 ایم پی او کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ان کو نظر بند کر دیا جائے گا یا ان کے سندھ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
پی پی پی کے ترجمان چوہدری منظور کے کسی الزام یا بیان کی بات نہیں کر رہا‘ کیونکہ 2013 ء اور پھر2018ء کے قومی اسمبلی کیلئے ہونے والے انتخابات میں جسے اس کے گھر کے لوگ ہی ضمانت ضبطی جیسے اعزاز سے نواز دیں‘ اس کی خواہ مخواہ کی لیڈری کا ذکر ہی کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے خلاف میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت مسلم لیگ نواز کے لیڈران اور وزرا‘ جس قسم کی زبان اور الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں ‘وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں‘ تو کیا چارٹر آف کرپشن کے اپنے ان ساتھیوں کے بیانات پر کبھی سننے یا دیکھنے کو ملا کہ سندھ حکومت کے وزراء نے کہا ہو کہ ان کے سندھ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی یا مشاہد اﷲ خان‘ احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی جیسے وفاقی وزراء کی سندھ آمد پر انہیں گرفتار یا نظر بند کر دیا جائے گا یا ان کے خلاف 16 ایم پی او کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ فیصل واوڈا‘ علی زیدی یا فواد چوہدری نے یہ تو کبھی نہیں کہا کہ زرداری کو لاڑکانہ اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے یا ان کو بھاٹی چوک لاہور میں الٹا لٹکا کر ملک کی لوٹی ہوئی دولت ان سے واپس لائیں گے‘ تو پھر یہ نظر بندی اور سندھ داخلے پر پابندی جیسی سزائیں تحریک انصاف کیلئے کیوں؟
بلاول بھٹو صاحب ‘آپ تو اتنی سی بات پر کھول اٹھے ہیں‘ ذرا صبر کریں‘ اتنی جلدی گھبرا کیوں گئے ہیں‘ وہ دن اور وہ لمحہ بھی یاد کریں‘ جب14 مئی2013 ء کو آپ کے والد گرامی‘ جو اس وقت صدر ِمملکت اور نگران حکومتوں کے گاڈ فادر تھے‘ لاہور بلاول ہائوس تشریف لائے اور میڈیا کے سینئر اراکین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ تین روز قبل 2013ء کے منعقدہ‘ انتخابات آر اوز کے انتخابات تھے‘ جس میں سارا کام پنجاب کے ریٹرننگ افسران نے کیا ‘ تو احسن اقبال‘ مشاہد اﷲ خان‘ خواجہ سعد رفیق‘ رانا تنویر‘ شاہد خاقان عبا سی اور بی بی مریم صاحبہ کیا صدر مملکت جن کے پاس اس وقت کی ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹس پہنچ رہی تھیں ‘ان کے مطا بق؛ آپ کے ہر دلعزیز لیڈر میاں محمد نواز شریف‘ پنجاب کے ریٹرننگ افسران کی مہربانی سے منتخب وزیر اعظم نہیں تھے؟
پاکستان کے حالیہ قومی انتخابات کے خلاف اپنی ناکامیوں کا ماتم کرتے ہوئے آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور پی پی پی ایک ہی تان میں واویلا کئے جا رہی ہے کہ عمران خان کو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اور مسلط کرنے والے اب پچھتا رہے ہیں یا یہ الیکشن چرایا گیا ہے لاگر آئینہ دکھایا جائے تو امید ہے کہ آصف علی زرادری یا بلا ول بھٹو زرداری تو بہت ہی مرتبے والے لوگ ہیں‘ وہ تو اس طرح کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنا کیسے پسند کر سکتے ہیں‘ کیونکہ جنہیں سرے محل یا دبئی محل میں مزین آئینے دیکھنے کی عادت ہو ‘ان کیلئے یہ عام سے آئینے بھلا کیا وقعت رکھتے ہیں ‘لیکن پی پی پی کے باقی تمام لیڈران کو یہ آئینہ دکھا دیتے ہیں کہ2008ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اورچوہدری پرویز الہٰی نے ایک مرتبہ نہیں‘ بلکہ کئی دفعہ لاہور اور اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہوں پر بلائی گئی پریس کانفرنسوں اور پھر ٹی وی پر میڈیا ٹاک میں کہا تھا کہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ لاہور آئے اور انہیں کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا '' ان انتخابات میں ‘اگر آپ کی جماعت مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کر بھی لی تو پھر بھی امریکہ اسے تسلیم نہیں کرے گا‘‘کیونکہ ہم نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا ہے ‘جس کے تحت پی پی پی کی مرکز اور سندھ میں ‘ نواز شریف فیملی کی پنجاب اور اسفند یار ولی خان کی کے پی کے میں حکومت قائم کروائی جائے گی‘تو بلاول بھٹو صاحب‘2008ء میں کیا آپ کے والد گرامی منتخب صدر نہیں تھے اور کیا یوسف رضا گیلانی آپ کے والد گرامی کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نہیں تھے؟ اور پھر آپ کو یاد تو ہو گا کہ اسی چوہدری پرویز الہٰی کو آپ کے والد گرامی قدر نے اپنی اس منتخب حکومت کے آخری عشرے میں ملک کا ڈپٹی وزیر اعظم مقرر کر دیا تھا‘ جس کا اس آئین میں کوئی تصور ہی نہیں ہے‘ جس کا بجلی کے ماہر خورشید شاہ اٹھتے بیٹھتے ذکر کرتے رہتے ہیں۔ 
زرداری صاحب کے حکم خاص پر سندھ کے ان وزراء کی تباہ کاریوں پر نظر رکھتے ہوئے ملک کی حساس ایجنسیوں کو ان حالات میں رحمان ملک اور حسین حقانی کے لندن ا ور امریکہ میںNEXUS سے غافل نہیں رہنا چاہئے؛ اگر ملکی ادارے رحمان ملک کی اندرون اور بیرون ملک سرگرمیوں کو مانیٹر نہیں کر رہے تو یہ ان کی غلطی ہو گی۔ہمارے ادارے کیوں بھول جاتے ہیں کہ نا اہل کئے گئے‘ پی پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جب اپنے پہلے دورہ امریکہ کیلئے روانہ ہوئے تو ان کا جہاز ابھی امریکی فضائوں میں ہی تھا کہ آصف زرداری کے حکم پر ان کے راز داں اور انتہائی معتمد خاص رحمان ملک وزیر داخلہ نے ہنگامی طور پر حکم جاری کرتے ہوئے پاکستان میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے سیکشن آفیسرز کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جا ری کر دیا اور اس کی کاپی گیلانی کے جہاز کے امریکی سرزمین کو چھونے سے پہلے وائٹ ہائوس اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک پہنچا دی گئی تھی ۔
اندرون سندھ کی وہ علاقائی قوتیں ‘جو آج بھی قیام پاکستان کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھیں‘ انہیں ساتھ ملایا جا رہا ہے اور اس کیلئے واویلا کیا جا رہا ہے کہ پنجاب نے سندھ کا پانی روک دیا ہے اور بد قسمتی دیکھئے کہ پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف جھوٹ اور بہتان ترازی پر مبنی اس نفرت کو ہوا دینے میں قمر الزماں کائرہ اور چوہدری منظور جیسے لوگ‘ جنہیں ان کے گھر کے لوگوں نے ہی قبول کرنے سے انکار کر تے ہوے انتخابات میں بری طرح شکست دیتے ہوئے دھتکار دیتے ہیں‘ اچھل اچھل کر ہائو ہو کرتے ہوئے اس نفرت کو ہوا دینے میں ایک دوسرے سے بازی لینے میں لگے ہوئے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں