اشرف غنی نے جولائی میں ہونیوالے افغان صدارتی انتخاب کیلئے خود کو رجسٹرڈ کراتے ہی یکلخت قینچی بدلی اور پاکستان پر حسب ِمعمول طنزیہ نشتر برساتے ہوئے کہا: '' اگر طالبان کے ساتھ اسلام آباد میں مذاکرات کرنے ہیں‘ تو پھر کیوں نہ ان کی بجائے پاکستان سے ہی مذکرات کر لیے جائیں‘‘۔ لگتا ہے کہ اس قسم کی طنزیہ گفتگو اپنی صدارتی الیکشن مہم کا آغاز اشرف غنی نے طالبان کو مزید بھڑکانے اور بھارت سے بٹورا ہوا مال ڈکارنے کیلئے کیا۔ دنیا بھر کے سفارتی حلقے اشرف غنی کے لہجے کی اس تبدیلی پر سوچنے لگے ہیں کہ یہ نئی ہدایات اشرف غنی کی الیکشن مہم کے '' سیا سی اور مالی انچارج‘‘ کی جانب سے دی گئی ہوں؟ طالبان شاید اشرف غنی کی بھارت سے پس پردہ ہونے والی مشاورتی ملاقاتوں سے پہلے ہی آگاہ تھے‘ اس لئے انہوں نے اشرف غنی کے اس بیان سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ موجو دہ افغان انتظامیہ سے کسی صورت بھی مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قطر میں شیر عباس کی قیا دت میں طالبان کا آٹھ رکنی وفد افغانستان کی این یو جی سے نہیں‘ بلکہ صرف زلمے خلیل زاد کی قیادت میں 11 رکنی امریکی وفد سے امن مذکرات کر رہا ہے۔
امریکہ سمیت یورپی یونین‘ اقوام متحدہ اور برطانیہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے جولائی کے انتخابات میں اشرف غنی کے حق میں کوئی مداخلت کرنے کی کوشش کی تو ان کا افغانستان میں امن کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا‘ کیونکہ طالبان نا مساعد حالات اور امریکی‘ نیٹو اور ایساف فورسز کے ساتھ بھارت اور افغانستان کی این ڈی ایس کے تابڑ توڑ حملوں کے با وجود 2001ء سے پہلی والی پوزیشن سنبھال چکے ہیں اور وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ طاقت جو16 برس کی لاتعداد قربانیوں سے حاصل کی گئی ہے‘ اسے ایک معمولی سی غلطی سے ضائع کر دیں۔
افغان طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کو کٹھ پتلی کی طرح اپنی انگلیوں اور خواہشات پر نچانے والا بھارت کبھی بھی طالبان سے مخلص نہیں ہو سکتا۔ ان 16 برس میں بھارت نے مدرسہ دیو بند بھارت کی قیا دت کے ذریعے ان میں اپنے ایجنٹ داخل کرتے ہوئے‘ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی بھر پور کوششیں کیں‘ نئی دہلی اور بنگلور سمیت ا حمد آباد میں دیوبند مدرسے کے طالبعلموں کے ذریعے پاکستان کے پرچم جلاتے ہوئے گھٹیا قسم کی نعرے بازی بھی کرائی اور طالبان نے بڑی مشکل سے اپنے اندر موجود ایسے لوگوںکو ختم کیا‘ جس پر راء نے ان کو تحریک طالبان پاکستان اور داعش میں شامل کرا دیا‘ جنہوں نے پاکستان کے اندر جگہ جگہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی انتہا کر دی۔ ابھی پانچ روز قبل '' ایک اور ہیمنت کر کرے‘‘ کی طرح کے پولیس افسر کی غلطی سے مدھیہ پردیش بھارت میں ایسا ہی ایک 16رکنی شرپسند عناصر کا گروپ سامنے آیا ہے ‘جو داعش کیلئے سرگرم تھا ۔بھارت کا میڈیا اسے چھپانے کی بھر پور کوششیں کر رہا ہے‘ لیکن کچھ ذرائع ان سب کے نام اپنے پاس محفوظ کر چکے ہیں ۔ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے طالبان نے کھل کر بتادیا ہے کہ وہ آج بھی اور کل بھی کسی بھی صورت میں اشرف غنی ٹولے کی این یو جی سے بات کرنے کو تیار نہیںاور اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی تمام کوششوں اور درخواستوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
امریکہ اور بھارت نے بڑی چالاکی سے پاکستان کے خلاف ایک مکارانہ جال بچھانے کی جو کوششیں کیں ‘وہ ناکام ہو گئیں۔ ایک وقت میں تو ایسالگ رہا تھا کہ شاید امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط کے پیچھے بھیجے گئے زلمے خلیل زاد کے دورہ اسلام آباد کے نتیجے میں پاکستان مکڑی کے بنے ہوئے جالے میں پھنس جائے گا‘ لیکن وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ ان کی خفیہ معلومات کے ذرائع شاید افغان صدارتی محل اور این ڈی ایس کے بند کمروں تک پہنچ گئے کہ انہوں نے چانکیہ کے چیلوں کے مکر و فریب کومات دے دی۔ کل تک واشنگٹن‘ کابل اور نئی دہلی‘ افغان طالبان اور پاکستان کو لازم ملزوم قرار دینے کیلئے جن الزامات اور داستانوں کو اپنے دنیا بھر میں موجود سپانسرڈ میڈیا اور غیر سرکاری سفارتی مشنری جن میں حسین حقانی اور باہر بیٹھی ہوئی نام نہاد پاکستانیوں کی ایک پندرہ رکنی لبرلز اور ترقی پسندوں کی ایک ٹیم کے ذریعے اچھال رہے تھے ‘ان کے جھوٹ اور پراپیگنڈہ کو کو تقویت مل جانا تھی ۔اب وطن عزیز کی وزارت خارجہ ہی نہیں‘ بلکہ دنیا بھر کے با خبر ذرائع ابلاغ جان چکے ہیں کہ افغان طالبان ‘ پاکستان پر پہلے کی طرح اعتماد نہیں کرسکتے۔
اگر افغان طالبان نے اکتوبر2001 ء میں جنرل مشرف اور جنرل محمود کی درخواست مان لی ہوتی تو شاید اس خطے میں وہ تباہی نہ آتی‘ جس کا پاکستان اور افغانستان کو آج تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نہ ہی عراق‘ لیبیا ‘ شام ‘ مصر‘ یمن ‘ تیونس اور سوڈان سمیت انڈونیشیا سے مغرب اور امریکہ کی سازشوں سے مشرقی تیمور وجود میں آتا ۔ اشرف غنی کی جانب سے امریکہ اقوام متحدہ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین کے ذریعے پاکستان پر یہ دبائو بڑھایا جارہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے ان سے تعاون کرے اور اس سلسلے میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کی قیا دت میں ایک اعلیٰ سطحی 11رکنی وفد پاکستان اور افغانستان کے دور ے پر اسلام آباد اور کابل پہنچا۔ اس ملاقات میں امریکی وفد نے بغیر کسی توقف کے اصرار کیا کہ افغانستان میںامن کیلئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے پاکستان کو بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ طالبان کے امریکیوں سے مذاکرات بہتر طور پر چل رہے تھے کہ ایک دن اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ امریکی طالبان کو نرم دیکھ کر دبائو بڑھانے لگے کہ بھارت بھی ان مذاکرات میں شامل ہو گا‘ جس پر طالبان چونک گئے کہ امریکی کس ایجنڈے پر چل نکلے ہیں؟اور مذاکرات کا یہ سلسلہ وہیں ٹھپ ہو گیا‘ کیونکہ بھارت کی شرط سامنے رکھتے ہی طالبان کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ دو ماہ کیلئے '' جنگ بندی‘‘ کا اعلان بھی کریں‘ جب امریکہ اور افغانستان بھارتی طوطے کو اپنے دائیں ہاتھ پر بٹھا کر ٹائیں ٹائیں کرائیں گے ‘تو پھر نتیجہ وہی ہو گا '' ٹائیں ٹائیں فش‘‘۔
چار بر س قبل افغان صدر اشرف غنی نے صدارتی حلف اٹھانے سے اب تک اس قدر قلابازیاں کھائی ہیں کہ کوئی بھی ان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔ صاف کہا جائے تو اشرف غنی کی حیثیت امریکہ اور بھارت کے سامنے ان راجائوں اور نوابوں کی طرح ہے‘ جو انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے بظاہر تو شاہی دربار میں کرسیوں پر بٹھائے جاتے تھے‘ لیکن ان کے پائے ان کچی اینٹوں پر رکھے ہوتے تھے ‘جو ان کی ایک ہلکی سی ٹھوکر سے زمین بوس ہوجاتے۔ اشرف غنی جیسے لوگ تو بھارت کے تیار کئے گئے‘ وہ چابی والے کھلونے ہیں ‘جو ان کی مرضی سے ناچتے اور اچھلتے ہیں ‘اس لئے پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ وہ کوئی ایسی تجویز یا رائے دینے سے پرہیز کرے‘ جس سے طالبان کی عزت نفس پر حرف آئے‘کیونکہ بے شک افغانستان کا امن پاکستان کی ترقی کا زینہ ہے‘ لیکن افغان قیا دت اوراس کی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔یہ کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے کہ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی بھی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے اور یہ خبریں تو اب باہر آنا بھی شروع ہو چکیں کہ حامد کرزئی کی طرح اشرف غنی کے بھی بھارت سپانسرڈ اکائونٹس کے ہندسے بڑھتے بڑھتے جواب دینا شروع ہو گئے ہیں۔