پاکستان ایک بار پھر فروری کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں'' امن19‘‘ کے نام سے دو روزہ سمندری مشقوں کی میزبانی کر رہا ہے ۔2007ء سے پاکستان کی میزبانی میں جب ان مشقوں کا آغاز ہوا تو بنگلہ دیش‘ چین‘ فرانس‘اٹلی‘ ملائیشیا ‘ برطانیہ‘ اور امریکی نیول فورسز کے14 جہاز وں نے حصہ لیا‘ جبکہ21 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ 2009ء میں ہونے والی امن مشقوں میں23 جہاز اور13 ائر کرافٹ تھے ۔ رفتہ رفتہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک نے بھی ان مشقوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس جب یہ مشقیں کی گئیں تو پاکستان کی پالیسیوں سے اتفاق کرنے والے35 ممالک کی نیول فورسز اس امن مشق میں شرکت کیلئے کراچی پہنچیں ۔ اتنی بڑی تعداد کا شمولیت اختیار کرنا کسی بھی ملک کیلئے ایک اعزاز ہے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو تا ہے جب کسی بھی مہمان ملک کو اس ملک کی سکیورٹی اور پالیسیوں سے مکمل اتفاق ہوتا ہے۔ ان امن مشقوں کے ذریعے پاکستان دنیا کو واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ کسی سے جنگ نہیں چاہتا‘ وہ اپنی حدود‘ اپنے خطے اور دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے۔ اس کے کوئی جنگی منصوبے نہیں ‘وہ کسی بھی ملک پر قبضہ یا اسے نقصان پہچانے کا خواشمند نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ اپنی سرحدوں اور حدود کی حفاظت کیلئے وہ اپنی فوج کو ہمہ وقت تیار رکھنے پر مجبور ہے‘ کیونکہ اس کا واسطہ ایک ایسے دشمن ملک سے ہے جو بد قسمتی سے اس کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے‘بلکہ جس کی جارحیت کا بار بار نشانہ بھی بنتا چلا آ رہا ہے۔
عالمی رائے عامہ بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کا بھارت جیسے بڑے اور طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو ہر طرح سے تیار رکھنا انتہائی ضروری ہے اور یقینایہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی عالمی امن کیلئے کی جانے والی کوششوں سے اتفاق کرتے ہوئے ان سمندری مشقوں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔یہ نیوی کی مہارت اور کارکردگی کا ثبوت ہے کہ وہ ان امن مشقوں کے بہترین اور کامیاب انعقاد کیلئے دنیا کی نظروں میں پاکستان اور اس کی چھوٹی سی نیوی کا ایک بہترین فورس کی حیثیت سے پہچان کا باعث بن رہی ہے۔ان امن مشقوں میں شرکت کیلئے جاپانی بحریہ کے دو P3C ائر کرافٹ کراچی پہنچ چکے ہیںاور امید کی جا رہی ہے کہ چالیس ممالک ان امن مشقوں میں شرکت کیلئے اگلے چند روز میں کراچی پہنچ جائیں گے۔
ان امن مشقوں میں شرکت کیلئے مغربی اور مشرقی ممالک کی اکثریت Together For Peaceکے بینر تلے اکٹھے ہو کر اپنے شہریوں اور دنیا بھر کو پیغام دیتی ہے کہ جو مسرت امن میں ہے وہ جنگی جنون اور جنگ میں نہیں۔ اگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں سات کروڑ سے زائد انسانوں کی ہلاکت اور پانچ کروڑ لوگوں کے زخمی اور زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو نے کی تفصیلات دیکھیں تو ان جنگوں میں ہونے والی تباہی اور بربادی کا انجام ایک فریق کی شکست کی صورت میں ہوا اور فاتح قوم کی مرضی سے طے کئے گئے امن معاہدے کی صورت میں ہی یہ ختم ہو ئیں۔ جب انجام لڑنے جھگڑنے کے بعد امن معاہدہ ہی ہوتا ہے تو کیوں نہ تنازعات کو جنگ کی بجائے باہمی بات چیت کے ذریعے طے کر لیا جائے؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر اب تک تین جنگیں اور لاتعداد جھڑپیں ہو چکی ہیں ‘جن کے نتیجے میں دونوں اطراف سے بھاری جانی اور مالی نقصانات ہو ئے ہیں‘ جسے دونوں ممالک تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان جنگوں اور جھڑپوں کے بعد پاکستان اور بھارت نے طاقتور عالمی رہنمائوں کے دبائو کے بعد اپنی اپنی فوجیں واپس اپنی حدود میں لے جانے کیلئے امن معاہدے ہی طے کئے ہیں‘ تو پھر کیوں نہــ امن کو فتح تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے ایک میز پر بیٹھ جائیں؟ امریکہ اکتوبر 2001ء میں القاعدہ اور طالبان پر قابو پانے کیلئے افغانستان میں داخل ہو اور 17 برس تک افغانستان کے ہر گائوں‘ ہر گلی اور ہر بازار میں خون اور بارود کے بعد نتیجہ ' قطر میں امن مذاکرات ‘‘کی صورت میں طالبان سے بھیک مانگنے کی صورت میں نکلا۔ اس معاہدے میں امریکہ نے قبول کیا کہ وہ اٹھارہ ماہ کے اندر افغانستان سے اپنے فوجی واپس لے جائے گا۔
آج کی دنیا میں جینے کیلئے سمندر انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ آئندہ کوئی بھی جنگ سمندروں میں ہی لڑی جائے گی اور شائد یہی وجہ ہے کہ'' میری ٹائم سکیورٹی‘‘ کسی بھی ملک اور اس کی نیول فورسز کیلئے سب سے اہم ہو چکی ہے۔پاکستان کی Geo-Strategic Locationاس کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں‘ ورنہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی جس طرح بھارت اور اس کی شہ پر افغانستان نے پاکستان کو روندنے کی کوششیں کیں‘ ان کو روکنا انتہائی مشکل تھا۔ یہ جغرافیائی محل وقوع ہی ہے جس نے پاکستان سے کسی بھی طریقے سے منسلک ممالک کو محسوس کرا دیا کہ اگر پاکستان ان کے درمیان میں یا سرحدوں کے ذریعے ان کے ساتھ منسلک نہ رہاتو ان کیلئے بہت سی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی بحریہ کے چیف ایڈمرل ظفرمحمود عبا سی کا کہنا درست ہے کہ اﷲ کی عطا کی گئی اس سمندری ساخت پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ یہ Crossroads Of World Energy Routes بے شک اس وقت بحیرہ عرب بین الاقوامی تجارتی گزرگاہوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستانی بحریہ بھر پور کوششوں اور مہارت کی وجہ سے '' میری ٹائم سکیورٹی ‘‘ کی وجہ سے خطے میں انتہائی اہمیت اختیار چکی ہے۔
پاکستان تواپنی امن پالیسی پر قائم چلا آ رہا ہے جبکہ بھارت کے حال ہی میں منظور کئے گئے فوجی منصوبے خطرات کی نشاندہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رافیل طیاروں کے علا وہ بھارت فرانس سے 10 ارب بھارتی روپے کے جدید ترین اور تباہ کن 300 MILAN 2T ٹینک شکن میزائل خریدنے جا رہا ہے ۔ ایک جانب پاکستان اور چین نیول فورسز کے ساتھ امن مشن کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری جانب بھارت چین کی بحریہ کے جہازوں کو نشانہ بنانے کیلئے امریکہ سے ایک ہزار میل تک مار کرنے والےSUPER GUNS حاصل کر رہا ہے ۔ جنوبی چین کی سمندری حدود میں چینی بحریہ کو نشانہ بنانے کیلئے بھارت کے پاس بلا شبہ یہ ایک انتہائی مہلک ترین ہتھیار ہو گا۔ خطے میں کل کو ہونے والی کسی بھی جنگ میں وہی کامیاب ہو گا جو سمندروں پر اپنا کنٹرول بر قرار رکھ سکے گا‘ اگر چین سے تائیوان‘ سوڈان‘ انڈو نیشیا‘ فلپائن اور بھارت کی نیول فورسز کی تیاریاں سامنے رکھیں تو جنگ کیلئے آپریشن روم کا نقشہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔
کیا پاکستانی بحریہ اور ہمارے وزیر اعظم‘ وزیر خزانہ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ بھارت نے امریکہ اور مغرنی ممالک سے جو اسلحہ چین کے خطرے کی دہائیاں دیتے ہوئے اکٹھا کیا تھا وہ پاکستان کے ساتھ بھارت کی ہر جنگ میں بھر پور طریقے سے استعمال ہوا اور ہماری حکومتیں دنیا کو یہ بتا ہی نہ سکیں کہ روس کی صورت میں اس وقت کی سب سے بڑی کمیونسٹ طاقت جو امریکہ اور مغرب سمیت چین کیلئے بھی سب سے بڑا خطرہ تھی‘ کشمیر کے مسئلے پر ہر لمحے سکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ میں پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف بھارت کی مدد کیلئے ویٹو کے اختیارات اور اسلحے کے ڈھیر لگا رہی تھی!