"MABC" (space) message & send to 7575

دس سال ضائع گئے؟

توقع یہ تھی کہ نئے پاکستان میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہو گا اور حالات کا دھارا بہت جلد ترقی کی منزل کی جانب مڑ جائے گا‘ لیکن لاہور میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک ٹی وی چینل پر دس پندرہ افراد کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی۔ وہ تحریک انصاف کی میڈیا سٹریٹیجک کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ حیرانی اس کمیٹی میں بیٹھے ہوئے چہرے دیکھ کر ہوئی‘ اور خان صاحب کی معصومیت پر بے ساختہ میرا قہقہہ نکل گیا کہ وہ اب بھی اسی عطار کے لونڈوں سے دوا لینا چاہتے ہیں‘ جس نے انہیں پانچ ماہ میں ہی بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کم و بیش تیس برس قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ''امریکہ اپنے دشمن کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے‘ لیکن اپنے دوستوں کو رگڑا دینے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں لگاتا‘‘۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت‘ اور نیا پاکستان بنانے کے سلسلے میں اس کی کوششوں کا دفاع کرنے والے دیرینہ اور مخلص لکھاریوں کو مذکورہ میڈیا سٹریٹیجک کمیٹی کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ لکھاری وہ لوگ ہیں جو گزشتہ دس برسوں میں پی پی پی اور نون لیگ‘ دونوں حکومتوں کی ہر قسم کی پُرکشش پیشکشوں کو اس سوچ کے تحت ٹھکراتے رہے ہیں کہ انہیں نیا پاکستان بنانا ہے‘ اسے ترقی کی نئی منزلوں کی جانب لے کر جانا ہے۔ ہنری کسنجر کے قول کے مصداق ایسے دوستوں کو رگڑا دینے کا فریضہ آج کل اسی کمیٹی کے کچھ ارکان ادا کر رہے ہیں۔
اس کمیٹی کا ایک رکن کئی جگہوں سے ہوتا ہوا تحریک انصاف میں اس طریقے سے داخل ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کا اہم عہدے دار بن گیا۔ یہی صاحب اس سے پہلے جنرل مشرف کا کارِ خاص بن کر انہیں دھوکہ دیتے رہے ‘ اور بھاری فنڈز اپنے ایسے دوستوں میں بانٹتے رہے‘ جو جنرل مشرف کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ جنرل مشرف نے انہیں الگ کیا وہ پیپلز پارٹی کے دور میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔ پھر جب پی پی پی کی حکومت ختم ہو گئی تو نہ جانے کون کون سی اندرونی و بیرونی قوتوں نے انہیں عمران خان کے قریب لا کر بٹھا دیا۔ یہ صاحب جانتے ہیں کہ انہوں نے میڈیا کو اپنے ساتھ رکھنا ہے کیونکہ وزارت جانے کی صورت میں انہیں ایک بار پھر میڈیا پر اہم ترین شخصیت بنا کر پیش کرانے میں یہ دوست بھرپور مدد کر سکتے ہیں۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جو کل بھی عمران خان اور تحریکِ انصاف کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں۔ اسے تحریکِ انصاف کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان صاحب کے حق میں بولنے اور لکھنے والے دلبرداشتہ ہو کر آہستہ آہستہ ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ میڈیا کا وہ طبقہ جو عمران خان صاحب کا حامی تو نہیں‘ لیکن ان سے ہمدردی رکھتا ہے‘ دیکھ رہا ہے کہ آج کل ان صاحب نے میڈیا کے نام پر ایسے لوگ اپنے ارد گرد جمع کر رکھے ہیں‘ جو کل تک عمران خان کے خلاف کہانیاں تراشتے اور ان پر الزام تراشی کرتے تھے۔ اسلام آباد میں رات گئے لگنے والی محفلوں میں عمران خان صاحب کا مخالف یہ ٹولہ جس طرح کی باتیں کرتا ہے‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا وزیر اعظم تک ان محفلوں اور رابطوں کی معلومات نہیں پہنچتیں؟ 
دوسری جانب یہ میڈیا ایڈوائزر‘ جن پر وزیر اعظم تکیہ کئے بیٹھے ہیں‘ اتنے نااہل ہیں کہ ساہیوال واقعے کو سنجیدگی سے ہینڈل ہی نہیں کر سکے۔ بلا شبہ ساہیوال کا دلوں کو رلا دینے والا واقعہ مدتوں یاد رکھا جائے گا لیکن اس کی آڑ میں جعلی پولیس مقابلوں کی چیمپئن نون لیگ اور اپوزیشن میں بیٹھی پی پی پی کے حامی میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے جو سیاسی دکان داری سجائی جا رہی ہے‘ وہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وزارتِ اطلاعات فوری طور پر پی پی پی اور نون لیگ کے گزشتہ دس برسوں پر مبنی ادوار میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلوں کو اپنے لوگوں کے ذریعے میڈیا پر لے کر آتی‘ لیکن نہ جانے کن وجوہ کی بنا پر یا مصلحت کے تحت ایسا نہ کیا گیا اور یہ فریضہ راقم کو ہی ''کراچی، ماڈل ٹائون اور ساہیوال‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے کالم کے ذریعے سرانجام دینا پڑا‘ لیکن مجال ہے کہ سوائے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے کسی نے اس مضمون کو اہمیت دی ہو۔ ہمارے ایک دوست نے جب وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر کو یہ آرٹیکل پڑھنے کو دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے ایک جانب رکھ دیا کہ ہمیں اپنے حق میں لکھنے والوںکے نہیں بلکہ مخالفین کے آرٹیکل سے دلچسپی ہے۔ اپنے اس آرٹیکل میں‘ مَیں نون لیگ اور پی پی پی کے صرف چار برسوں میں ہونے والے مشہور جعلی پولیس مقابلے‘ دن تاریخ اور ناموں کے ساتھ ریکارڈ پر لایا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پی پی پی اور نون لیگ کے دور حکومت کے صرف چار سالوں میں کئے گئے چھ سو سے زائد پولیس مقابلوں پر مبنی یہ تمام معلومات اور ریکارڈ ٹی وی چینلز پر تحریک انصاف اپنی حکومت کی نمائندگی کرنے والوں کو فراہم کرتی‘ لیکن وزیر اعظم کے میڈیا سیل نے اسے ردی کی ٹوکریوں میں پھینکنا ہی مناسب سمجھا۔ ساہیوال سانحہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال ایسے ہی ہے جیسے ہاکی میچ کھیلتے ہوئے سینٹر فارورڈ پوزیشن پر کھیلنے والا اپنی ہی ڈی کے اندر جان بوجھ کر پائوں کو گیند لگا کر کیرڈ کر دے۔ جیسے ہی سانحہ ساہیوال ہوا حکومتی ترجمانوں کو چاہئے تھا وہ کمشنر ساہیوال، آر پی او، سپیشل برانچ اور آئی بی سے اس کی فرسٹ ہینڈ رپورٹ لینے کے بعد اس پر مشاورت کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے آنے کا لائحہ عمل اختیار کرتے لیکن ہوا یہ کہ ان ''دانا دشمنوں‘‘ نے سی ٹی ڈی اہل کاروں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی رائفلوں کے دستے تحریک انصاف کے ہاتھ میں پکڑا دیئے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ہی سے عمران خان کی جان کو آئے ہوئے میڈیا نے وہ ہاہاکار مچائی کہ خدا کی پناہ۔
طاہر خان داوڑ کے معاملے پر وزیر اعظم کے ترجمان افتخار درانی کا ٹی وی ٹاک شو میں دیا گیا بیان حیران کن تھا کہ طاہر خان داوڑ اغوا نہیں ہوا‘ بلکہ وہ پشاور میں اپنی فیملی کے ساتھ ہے جبکہ ایک گھنٹے بعد دنیا بھر کو معلوم ہو چکا تھا کہ انہیں افغانستان میں بد ترین تشدد کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا ہے۔ 
آج مجھ سمیت بہت سے دوسرے صحافی اور قلمکار تحریکِ انصاف کا ساتھ اس لئے چھوڑنے پر مجبور ہیں کہ اگر سب کچھ ان لوگوں کے لئے ہے تو ہم نے اپنی زندگیوں کے دس سال ان کے لئے تو ضائع نہیں کئے تھے۔ تحریکِ انصاف کے سامنے کھلا میدان ہے۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہے تو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے نہایت کم مارک اپ پر آٹھ دس ارب روپے اکٹھے کرنا حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا جو فیصلہ کیا‘ وہی درست تھا... لیکن ان ساری پیش رفتوں اور مثبت اقدامات کے بعد کچھ ٹھوس ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہئے تھا۔ حتیٰ کہ عوام میں حکومت کا امیج تک بہتر نہیں ہو پا رہا‘ جبکہ وزیر اعظم ایسے لوگوں کے گھیرے میں ہیں‘ جو ان کے ہم سے زیادہ خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔
تحریکِ انصاف کے سامنے کھلا میدان ہے۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہے تو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے نہایت کم مارک اپ پر آٹھ دس ارب روپے اکٹھے کرنا حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا جو فیصلہ کیا‘ وہی درست تھا... لیکن ان ساری پیش رفتوں اور مثبت اقدامات کے بعد کچھ ٹھوس ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہئے تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں