"MABC" (space) message & send to 7575

’’مون سون ایشیاء ‘‘اور ا من مشقیں !

کئی شہرۂ آفاق کتابوں کے مصنف رابرٹ ڈی کپلان نے امریکہ کو توجہ دلاتے ہوئے اوربھارت‘ پاکستان‘ چین‘ انڈونیشیا‘ برما‘ عمان‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش و تنزانیہ کو ''مون سون ایشیائ‘‘ کانام دیتے ہوئے ‘ان ممالک کوکل کی جمہوریت اور مذہبی بالا دستی کی جنگ کا میدان قرار دیا ہے ۔ ایک جانب امریکہ امن کی کوششوںکیلئے برطانیہ‘ اٹلی ‘ روس‘ چین‘ فرانس اور پاکستان سمیت دنیا کے 45ممالک کے ساتھ شامل ہو کر بحر ہند میں امن کی تلاش کیلئے کراچی میں ایک پلیٹ فارم پر سر گرم ہے‘ لیکن جہاں مفادات کا ٹکرائو آ جائے‘ تو کیا یہ سب ممالک پاکستان کی اس مخلصانہ کوشش کا دُور تک ساتھ دینے کیلئے مستقل مزاجی دکھائیں گے ؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ لیکن تاریخ میں بحر ہند میںپاکستان کی امن کیلئے کی جانے والی مخلصانہ کوششوں کا ذکر انمٹ حروف میں آنے والی نسلوں کیلئے اس کو روشن رکھے گا ۔
بدقسمتی سے امریکہ سمیت چند قوتوں کی طرف سے بھارت کے ذہن میں یقین سے یہ تاثر بیٹھایا جا رہا ہے کہ کل کو تم نے ہی چین اور پاکستان کا مقابلہ کرتے ہوئے بحر ہند کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے ۔ بحر ہند کے بعد بحر ۂ احمر کی بات کریں تو ایران ‘ ترکی اور چین اپنی اپنی جگہ پر یہ تینوں بحیرہ ٔاحمرکی جانب اپنے مضبوط قدم بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ بحیرۂ احمر میں تو سوڈان کا اپنے شمالی حصے میں واقع جزیرہ ''سواکن‘‘ جو کل تک برطانیہ کی ایک مشہور بندر گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا‘ اس کا کنٹرول ترکی کو سونپ دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ 
واضح رہے کہ امن مشقوں کے نا م سے پاکستان کا بحیرۂ ہند کو امن کی گزرگاہ بنانا‘ 2007ء سے پاکستان کی ایک اچھی کوشش چلی آ رہی ہے‘ لیکن بین الاقوامی مفادات کی گہرائی بتا رہی ہے کہ ہر سمندری گزرگاہ کسی نہ کسی گرداب کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے‘ جس کی واضح مثالیںبحیرۂ احمر ‘ خلیج ِعدن اور آبنائے باب المندب کی گزر گاہیں ہیں۔ باب المندب تو اس وقت سعودی اور ایرانی پشت پناہی سے حوثی باغیوں کی وجہ سے تین برس سے ایک میدان کار زار بنا ہواہے اور ابھی حال ہی میں حوثی باغیوں نے آبنائے باب المندب سے گزرنے والے دو آئل ٹینکروں کو جس طرح نشانہ بنایا‘ اس کے جواب میں سعودیہ نے یورپ کو تیل کی سپلائی کیلئے اس راستے کا استعمال ترک کر دیا ہے۔
2009ء میں رابرٹ ڈی کپلان نے بحر ہند میں عالمی قوتوں کی مداخلت اور دلچسپیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مغرب اور امریکہ کو خبردارکرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ دنیا کے ایک ایسے سمندر کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ جو اکیسویں صدی میں توانائی‘ عسکری اور تجارتی مقاصد کے استعمال کیلئے انتہائی اہمیت اختیار کر جائے گا۔ رابرٹ ڈی کپلان نے لکھا تھا: بحر ہند جیسے اہم جغرافیائی سمندر کو عرصہ دراز سے سینٹرل ایشیا اور افریقا میں وجودمیں آنے والے نت نئے ممالک اور وہاں چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ جانے امریکہ ابھی تک کیوں نظر انداز کئے ہوئے ہے؟ رابرٹ ڈی کپلان نے 9برس پہلے امریکہ کو جس خطرے سے خبردار کیا تھا‘ وہ آج حقیقت بن کر سامنے آ تا جا رہا ہے اور قبل از وقت یہی اندازہ کرتے ہوئے اس نے مغربی دنیا کو بتایا تھا کہ طاقت کے کھیل کا آئندہ مرکز اور آپس میں رسہ کشی کا معرکہ بحر ہند میں برپا ہونے جا رہا ہے ‘کیونکہ امریکہ نے کسی بھی ممکنہ جنگ کو یورپ سے نکال کر ایشیا اور خلیج میں پھینک دیا ہے اور کل کو پاکستان کی امن کی کوششوں کو نقصان امریکہ ا ور بھارت کے اسی گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہو گا ‘ جس کیلئے بین الاقوامی برادری کو ابھی سے ان کو آگے بڑھ کر روکنا ہو گا۔ 
تجزیہ کاروں نے شاید ایسی ہی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بحر ہند کے نام سے تیسرے بڑے سمندر کو جو ایشیا‘ افریقا اور آسٹریلیا سے ملحق ہے‘ The Bed Of Future Conflictsکا نام دے دیا ہے ۔بحر ہند کی اہمیت کا اندازہ کرنے کیلئے کیا یہ کم ہے کہ اس وقت تیل کی 80 فیصد تجارت یہاں سے کی جا رہی ہے ۔ بحر ہند میں ڈیگو گارشیا جیسا مشہور ومعروف جزیرہ بھی شامل ہے ‘جہاں عرصہ دراز سے امریکہ ڈیگو گارشیا اور بحرین میں اپنے مضبوط بحری اڈوں کے ساتھ شاید اسی ضرورت کے تحت موجود ہے۔ جنوبی ایشیا سے متعلق حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ جلد ہی بھارت کو اس بحری رستے میں چین کا متحارب فریق بنا نے کی کوششوں میں ہے‘ کیونکہ ان دونوں ممالک کی مستقبل کی توانائی کی تمام ضروریات کا یہی راستہ ہے‘ جو دنیا کے تمام سمندروں کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے ۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ 2012ء میں توانائی کی صورت میں چین کی 84 فیصد تجارت بحر ہند کی سٹریٹ آف ملاکہ کے ذریعے کی گئی ۔امریکہ اس سے کبھی بھی نظریں ہٹانے کی غلطی نہیں کرے گا‘ لیکن یہ عالمی امن کیلئے ایک خطرناک بم سے کم نہیں ہو گا‘ کیونکہ چین کی یہ تجارت امن کیلئے ہے ‘نا کہ جنگ کیلئے ‘کیونکہ بحر ہند 45 ملین مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے‘ جس کا مطلب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہو گا ۔ 
رابرٹ ڈی کپلان نے اپنے اس مضمون میں بحر ہند کی سٹریٹیجک صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکہ سمیت اس کی حلیف مغربی طاقتوں کو ''بحر ہند میں مسابقانہ کشمکش‘‘ کے عنوان سے خبردار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل کا جنگی میدان جرمنی یا آسٹریا نہیں اور نہ ہی روس اور امریکہ کی فضائوں اور سمندروں میں ہو گا‘ بلکہ Centre Stage For The 21st Centuary بحر ہند ہو گا ۔ اس جانب بھارت اور اس کے اتحادیوں کی ممکن ہے کہ جلد توجہ نہ ہوتی‘ لیکن گوادر کے جھٹکے نے انہیں نیند سے ایسا جگایا کہ امریکہ اور بھارت نے گوادر کو اپنا درد سر بنا تے ہوئے‘ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان اور چین کے گھیرائو کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ 
گزشتہ نومبر میں نریندر مودی نے انڈو پیسیفک ریجن کی سکیورٹی صورتحال کے نام سے آسٹریلیا اور تائیوان کے وزرائِ اعظم کو فلپائن میں ایشین سمٹ کے دوران اور پھر بھارت‘ امریکہ‘ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ چین کی بحر ہند میں دن بدن Aggressive فوجی طاقت اور صلاحیتوں کے تنا ظر میں اس کا بھر پور مقابلہ اور اس کی بڑھتی ہوئی سمندری فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے سائوتھ کی سمندری حدود میں سمندری جنگی مشقیں اور اڈے بنانے شروع کر دیئے ہیںاور یہ بحر ہند کی امن کوششوں کو ٹائم بم سے اڑانے کے مترادف ہے۔ 
امریکہ گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے ابتدائی مراحل کی تکمیل کے عمل کو روکنے کیلئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بحر ہند میں اڈے بنا رہا ہے تو کہیں بھارت اور تائیوان کی سمندری لہروں کو آپس میں جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے ‘جس سے رابرٹ کپلان کا 9 برس قبل بحر ہند میں بڑھنے والی کشمکش کا اشارہ چین کے خلاف امریکی سازشوں کی صورت میں سچ ثابت ہو تا جا رہا ہے ۔ کپلان کے اس مضمون کو لکھے9 برس گزر چکے ہیں۔ یقینا یہ مضمون پاکستانی اداروں کی نظروں سے بھی گزرا ہو گا۔
واضح رہے کہ بحر ہند نے یکدم اہمیت اختیار کی ہے۔اس کی وجوہات میں سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت‘ منشیات کی سمگلنگ اور Piracy شامل ہے۔ اس لئے امریکہ کو ''مون سون ایشیا‘‘ کی بجائے بحر ہند کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہئے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں