"MABC" (space) message & send to 7575

کارگل‘ کل اور آج

مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریکِ آزادی نے اب ایک نیا رخ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس خطے کے عوام انتظامی سطح پر اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کناں ہیں اور اس حوالے سے کوئی بڑے سے بڑا قدم اٹھانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ ان کے احتجاج میں دن بدن شدت پیدا ہو رہی ہے۔ درج ذیل واقعہ اس کا گواہ ہے۔ 
کارگل سے کوئی بارہ کلومیٹر دور پشقوم کے مقام پر واقع لارس مسجد کے باہر تین ہزار سے زائد مظاہرین نے NH ID نامی ہائی وے کو بلاک کرتے ہوئے حال ہی میں وہاں تعینات کئے جانے والے نئے ڈویژنل کمشنر کو واکھا سے واپس لیہہ جانے پر مجبور کر دیا۔ پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس کی بھاری نفری کے پہرے میں اپنے کانوائے کے ساتھ گزرنے والے اس نئے ڈویژنل کمشنر کے لئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا کیونکہ یہ کوئی دن کا وقت نہیں تھا‘ چمکیلی دھوپ بھی نہیں تھی بلکہ اس وقت شام کے سات بجے تھے۔ اس یخ بستہ موسم میں‘ جب کارگل کا درجہ حرارت منفی آٹھ تک پہنچ چکا تھا‘ کسی بھی پہاڑی علاقے میں شام کے وقت تین ہزار سے زائد لوگوں کا اکٹھا ہو جانا اور پھر جگہ جگہ بارڈر سکیورٹی کے لئے تعینات لاکھوں کی تعداد میں فورسز کی موجودگی میں ڈویژنل کمشنر جیسے بڑے انتظامی افسر کے کانوائے کے آگے ڈٹ جانا حیران کن ہے۔ کارگل کے عوام لداخ میں تعینات کئے گئے اس نئے ڈویژنل کمشنر کا راستہ بلاک کرتے ہوئے بھاری مشین گنوں سے مسلح‘ بھارت کی سکیورٹی فورسز کے سامنے دو گھنٹے سے زائد وقت تک سینہ تانے کھڑے رہے اور یہ احتجاج کے اس سلسلے کی ایک کڑی تھا جو کارگل اور لداخ میں گزشتہ چار دنوں سے مسلسل جاری تھا‘ جس کے تحت The Ladakh Autonomous Hill Development Council, Leh (LAHDC) سیکرٹریٹ، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر اور تمام چھوٹی بڑی عدالتیں مظاہرین کی جانب سے جبراً بند کر دی گئی تھیں۔
مظاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ بھارتی سرکار فوری طور پر SRO 110 کو واپس لیتے ہوئے کارگل اور لیہہ‘ دونوں جگہوں کی بحیثیت Rotational Headquarter منظوری دے۔ مظاہرین میں کارگل کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی رہنما بھی شامل تھے‘ جن میں مذکورہ ایس آر او کے خلاف متحرک CEC LAHDC Kargil of Joint Resistance Movement کے کارکن بھی شامل تھے۔ یہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی وہ تاریخی ہڑتال ہے جس میں سرکاری ملازمین، ٹرانسپورٹرز، تاجر اور خواتین کی کثیر تعداد حصہ لے رہی ہے‘ اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ بغیر کسی تفریق کے مظاہرین نے بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے کانوائے کو بھی کچھ دیر کے لئے زبردستی روکے رکھا‘ جو اسی علا قے کا General Officer Commanding (GOC) تھا۔ جب بھارتی فوج کا کرنل مشین گنوں سے لیس ان مظاہرین کی جانب بڑھا تو سب نے اس کے سامنے اپنے قدم سختی سے جماتے ہوئے کہا: جب تک ایس آر او میں ہماری خواہش کے مطابق تبدیلی نہیں کی جائے گی کوئی بھی یہاں سے نہیں جائے گا۔
ایس آر او 110 میں ترمیم کے خلاف جدوجہد کرنے والی مشترکہ تحریک کے شرکا نے ہاتھوں میں سیاہ جھنڈے تھامے‘ اسلامک سکول چوک سے ڈپٹی کمشنر آفس کی جانب مارچ کرتے ہوئے بھارت سرکار کو خبردار کیا کہ اگر آج رات تک ہمارے مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا‘ تو پھر ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا کہ غیر معینہ مدت کیلئے سرکاری، غیر سرکاری اور تمام ٹرانسپورٹ کے علاوہ کاروباری سرگرمیوں کو بند کرنے کا بھی اعلان کر دیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا بھارت سرکار کو آج سے کوئی بیس برس قبل 1999 میں کرنا پڑا تھا جب جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز خان نے کارگل کی اندرونی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دراس اورکارگل کی برف پوش چوٹیوں پر قبضہ کرنے کی ٹھانی تھی۔ عالمی میڈیا اور تجزیہ کار دیکھ رہے تھے کہ 1998-99 میں کارگل میں پیدا ہونے والی داخلی صورت حال ہو بہو ایسی ہی تھی‘ جیسی ان دنوں ہے۔ 
کارگل ہمیشہ سے ایک پر امن علاقہ تھا لیکن 1998 کے اواخر میں اچانک وہاں کی مسلم اور بدھسٹ آبادیوں کے درمیان اسی طرح کے انتظامی اختیارات کے لئے آپس کی جنگ شدت اختیار کرنے لگی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی دوسری مقامی آبادیوں میں بھارت اور سری نگر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا نے سر اٹھا لیا کیونکہ بھارت سرکار نے لداخ کی اکثریتی آبادی کے عرصہ سے جاری شدید مظاہروں اور احتجاج کے باوجود پورے لداخ کو خود مختاری دینے کی بجائے صرف لیہہ ضلع کو‘ جہاں بدھ اکثریت تھی‘ علاقائی سطح پر خود مختار ہونے کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا‘ جس پر وہاں کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل کارگل‘ لداخ سے کٹ کر رہ گیا تھا اور جب جنرل مشرف نے کارگل کی چوٹیوں کی جانب قدم بڑھایا تو اس وقت کی تاریخ گواہ ہے کہ لداخ کی مسلم اور بدھ آبادیوں میں اختلافات اور باہمی چپقلش اس انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ یہ خطہ دو متحارب گروپوں کی صورت میں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑا تھا۔
اُس وقت کارگل بٹالک اور ترتوک کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی‘ جس میں مسلم 80 فیصد تھے۔ دراس‘ جو سکردو سے ملتا ہے‘ کی کل آبادی اُس وقت دس ہزار سے کچھ زائد تھی جس میں نوے فیصد سنی اور باقی دس فیصد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے‘ جبکہ لداخ میں بدھ مت والے اکثریت میں تھے۔ بھارت نے جب کارگل‘ دراس اور لداخ کی اس صورت حال کو دیکھا تو بھارتی قیادت کے ذہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے‘ پاکستان‘ چین اور بھارت کی 1962 والی جنگ جیسی خاموشی اختیار نہ کرے۔ اس کیلئے واجپائی نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے نیاز اے نائیک اور جندل فیملی کو استعمال کرتے ہوئے بیک چینل رابطوں کے ذریعے چالاکی کرتے ہوئے دوستی بس کے نام پر دورہ لاہور رکھ لیا‘ لیکن جنرل مشرف اور جنرل عزیز نے شاید 1962 والی غلطی نہ دہرانے کا عہد کرتے ہوئے سیاچن کی طرح بھارت سے بدلہ لینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ کارگل جنگ کے بعد بھارت میں انڈین آرمی کے میجر جنرل اشوک کرشنا اور بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز کے ڈائریکٹر پی آر چری نےKARGIL.....TURN THE TABLE کے عنوان سے ایک مشترکہ کتاب لکھی۔ وہ اس کتاب کے صفحہ 17 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں ''لداخ میں مسلمانوں اور بدھسٹوں میں بڑھنے والی تلخی اور خلیج کو شاید پاکستانی جی ایچ کیو نے بھارت سے بھی بہت پہلے سے مانیٹر کر رکھا تھا‘ جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا‘‘۔ 
اس وقت مقبوضہ جموں کے اس حصے میں بھارت کی دونوں آبادیوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے‘ اور 8 فروری بروز جمعۃ المبارک سے انجمن جمعیت علمائے اثنا عشریہ کارگل کی اپیل پر لداخ ریجن کے ہزاروں مظاہرین نے کارگل سکردو روڈ‘ جو بھارتی فوج نے بند کر رکھی ہے‘ کو فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کارگل ٹائون کے خمینی چوک سے لال چوک تک دھرنا دے رکھا ہے‘ جس کی قیادت شیخ ناظر مہدی محمدی کر رہے ہیں۔ بھارت سرکار گھبرا رہی ہے کہ ابھی تو یہ سب علاقے برف سے ڈھکے ہوئے ہیں‘ لیکن کل کو جب سورج کی کرنوں میں حدت بڑھی اور سردی کم ہو گئی تو احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ نہ جانے کہاں تک دراز ہو جائے؟
مظاہرین کا بھارتی فوج اور حکومت سے مطالبہ ہے کہ کارگل سکردو روڈ اور ترتوک کھپلو روڈ فوج کی جانب سے بند رکھنے سے لداخ کی بارہ سے پندرہ ہزار کی آبادی ایک دوسرے سے کٹ چکی ہے‘ جن میں سے اکثر آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ کارگل میں اس وقت یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت سرکار انہیں تیسرے درجے کے شہری حقوق بھی دینے کو تیار نہیں۔ اور یہ کہ افغانستان میں تو بھارت کئی کروڑ ڈالر خرچ کرتے ہوئے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے لیکن کارگل‘ ترتوک‘ لداخ اور سانکو پشقوم جیسے انتہائی پسماندہ علا قوں میں ایک پائی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ یہ تاثر جوں جوں گہرا ہوتا جارہا ہے‘ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو ایک نیا رنگ ملنا شروع ہو گیا ہے‘ اور یہ جلد کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچ جائے گی۔ اس طرح بھارتی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھ کر اپنے لئے ایک اور گڑھا کھود لیا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں