"MABC" (space) message & send to 7575

گودھرا‘ گجرات اور کشمیر کے ذبیحے

ایک ماہ قبل 29 جنوری کو اپنے آرٹیکل‘‘ ہاتھی کے دانت‘‘ میں‘ میں نے لکھا تھا کہ بھارت کشمیر کی قانونی حدود کے متعلق35/A اور370 کی حیثیت بدلنے کیلئے تیاریاں مکمل کر چکا ہے‘ جس کے متعلق مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ابھی کل ہی اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اشارہ کرتے ہوئے نریندر مودی کو وارننگ دی ہے کہ اگر کشمیر کی علاقائی حدود میں کسی قسم کی تبدیلی کی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے اور اس کے بعد فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کشمیر میں کون سا پرچم لہرانا ہے۔ میں نے اپنے اس آرٹیکل میں لکھا تھا '' بھارت کی خفیہ ایجنسیوں سے ریٹائر ہونے والے پولیس اور دوسرے عسکری اداروں کے افراد پر مشتمل تھنک ٹینک نے نئی دہلی میں 14 جنوری کو منعقدہ اپنے سیمینار میں جس ایجنڈے کو فروغ دینے کا پلان منظور کیا ‘وہ حیران کن ہی نہیں ‘بلکہ اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے ہے ۔ان کا ایجنڈہ تھا '' کشمیر سے باہر بھارت میں جہاں بھی کشمیری مسلمان‘ تعلیمی اداروں‘ دکاندار‘ تاجر‘ سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت میں کسی بھی حیثیت میں موجود ہیں‘ ان میں اس قدر خوف وہراس پیدا کر دیا جائے‘ کہ وہ جموں کشمیر میں اپنے لواحقین‘ گھر والوں اور دوستوں کے ذہنوں میں سمو دیں کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی ہوئی تو اس کا نتیجہ کشمیر سے باہر رہنے والوں کے حق میں اچھا نہیں ہو گا‘‘ اس مضمون کی قرار داد انتہا ہندو پشپندر کلشرستھ نے پیش کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کیلئے بھارت بھر میں اپنی تنظیموں کو تیار رہنے کا کہہ دیا‘ جس پر خوب تالیاں بجائی گئیں اور پھر سب نے دیکھا کہ اس کے ٹھیک بیس دنوں بعد جیسے ہی پلوامہ کا واقعہ ہوا تو بھارت بھر میں کشمیری مسلمانوں پر زندگیاں اس قدر عذاب بنا ئی جا رہی ہیں کہ نہ تو وہ جی سکتے ہیں اور نہ مر سکتے ہیں۔ ان کی اس دہشت گردی کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ سب پلوامی رد عمل کا نتیجہ ہے تو کیا جب ہندو فوج اور سکیورٹی ایجنسیاں کشمیریوں کو قتل کریں ‘ان کے بچوں کو پیلٹ گنوں سے اندھا کریں‘ ان کی جوان بہنوں اور بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائیں ‘تو جواب میں کشمیریوں کے رد عمل میں ان کی فورسز پر حملے بھی جائز سمجھے جانے چاہئیں۔ بھارت بھر میں نفرت اور انتہا پسندی کی حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ ہندو دکانداروں نے ان کشمیریوں کو اسی طرح سودا سلف دینے سے انکار شروع کر دیا ہے‘ جیسے بھارت نے ٹماٹر پاکستان بھیجے بند کرا دیئے ہیں‘ نتیجے میں یہ ٹماٹر اب ان کے مویشیوں کی خوراک بن رہے ہیں۔
1984 ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پانچ ہزار کے قریب سکھ مرد عورتیں اور بچے ہند انتہا پسندوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کر دیئے گئے تو راجیو گاندھی نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہاتھا: Earth Shakes When Big Tree Falls۔ آج بھارت کا سیکولر طبقہ پلوامہ خود کش دھماکے کے بعد بھارت بھر میں کشمیری مسلمانوں کی جان و مال کو تباہ کرنے کے بعد یہی توجیح دے رہا ہے کہ یہ سب بھارت ماتا کے سپوت مارے جانے کا رد عمل ہے۔ایسے ہی الفاظ آج سے کوئی سترہ برس قبل نریندر مودی نے27 فروری2002ء کو لکھنو سے آنے والی سبھر متی ٹرین کی کی دو بوگیوں کی گودھرا اسٹیشن پر آگ سے تباہی کے نتیجے میں59 ہندو یاتریوں کے جل کر ہلاک ہونے کے بعد گجرات میں پولیس اور غنڈوں کے ہاتھوں مسلمان مردو خواتین کے قتل عام پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہے تھے ۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں گجرات میں جتنے بھی ہندو مسلم فسادات ہوئے‘ ریکارڈ زیہ بتاتے ہیں کہ ان میں مسلم آبادی کا نقصان بہت کم ہوتا رہا‘ کیونکہ مسلم گودھرا اور اس کے ارد گرد کی میونسپلٹی کے انتخابات کے مطا بق؛ مسلم اکثریت میں تھے۔1987ء اور پھر1990ء میں ہوئے فسادات میں زیا دہ تر ہندو ہی مارے گئے‘ لیکن 27-28 فروری 2002ء کو کروائے گئے یہ فسادات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی کی گئی تھی‘ کیونکہ اس قتل عام اور مسلم املاک کی لوٹ مار کرتے ہوئے جو فوٹیجزسامنے آئیں‘ ان میں ایسے چہرے نمایاں تھے ‘جن کا تعلق گودھرا سے نہیں تھا۔ 
بابری مسجد کو مسمار کرتے ہوئے بھارت کا سیکولر ازم ننگا ہو کر دنیا بھر کے سامنے آ چکا۔ اس لئے با خبر ذرائع کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بابری مسجد کو گرانے کے بعد دنیا بھر میںاٹل بہاری واجپائی کے سیکولر چہرے اور بھارت کے سیکولر ازم پر اٹھنے والی انگلیوں کا رخ بدلنے کیلئے مودی کے ذریعے گودھرا ٹرین کی دو بوگیوںS6 -S7کو اسی طرح پٹرول اور بارودی مواد پھیلا کر شعلوں کی نظر کر دیا‘ جس طرح اس نے بعد میں سمجھوتہ ایکسپریس کی بوگیوں کو بارود اور پٹرول کے شعلوں کے حوالے کرتے ہوئے 62 مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ ابھی پلوامہ کی طرح یہ واقعہ ہوا ہی تھاکہ بھارت نے دنیا بھر میں یہ چرچا شروع کر دیا کہ یہ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کی کارروائی ہے ‘لیکن مجرم اس وقت سامنے آ گیا‘ جب ہیمنت کر کرے نے کرنل پروہت کی شکل میں تمام دہشت گرد گروہ کو دنیا بھر کے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔
ڈائریکٹر جنرل سی بی آئی ‘آر کے رگھوان جو اپنی تمام پولیس سروس میں انتہائی متعصب سمجھے جاتے رہے ہیں‘ انہیں جب گودھرا ٹرین واقعہ کی تفتیش کیلئے سپیشل تحقیقی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا ‘تو اس نے حسب ِعادت روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی سست روی سے کام شروع کیا‘ جس پر دیوندر بھائی پاٹھک اور بھارت کی کچھ این جی اوزاور غیر ہندو تنظیموں نے بھارتی سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہوئے اس کی رپورٹ تیار کرنے میں جان بوجھ کر دیر کرنے اور حقائق چھپانے کی شکایت کی‘ جس پر10فروری2010ء کو سپریم کورٹ نے رگھوان کو حکم دیا کہ پندرہ مارچ تک رپورٹ پیش کی جائے‘لیکن اس سپیشل تحقیقاتی ٹیم نے ان تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دی گئی درخواستوں میں اٹھائے گئے درج ذیل نکات پر کوئی توجہ نہیں دی: (a):۔ گجرات پولیس کے افسران راہول شرما اور آر بی سری کمار کی تہلکہ ڈاٹ کام میں محفوظ ریکارڈنگ کو مقدمہ کا حصہ بنا یاجائے(b):۔گودھرا‘ گجرات کے مقدمہ میں گواہوں پر تشدد کر کے انہیں بیانات دینے پر مجبور کرنے والے پولیس انسپکٹر کے کے میسور والا کو معطل کر کے شامل تفتیش کیا جائے‘ کیونکہ پٹرول پمپ پر کام کرنے والے پرتاپ سنگھ اور رنجیت سنگھ کے علا وہ گودھرا اسٹیشن پر کام کرنے والے خوانچہ فروشوں کو مسلمانوں کے خلاف گواہیاں دینے پر اسی نے مجبور کیا تھا( اس انسپکٹر کو اب ترقی پر ترقی دیتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ پولیس گجرات مقرر کر دیا گیا ہے)(c):۔با بو بجرنگی جس نے انسپکٹر میسور والا کے ساتھ مل کر گواہی نہ دینے والوں کے گھر وں میں گھس کر انہیں اور ان کے گھر والوں کو مارا اور اسی طرح پیسے اور جیل بھیجنے کی دھمکیاں دے کر گواہی دینے پر مجبور کرنے اور گودھرا واقعہ کے بعد اس کی قیا دت میں95مسلمانوں کو ذبح کیا گیا‘ اس کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے‘ لیکن آر کے رگھوان کی تفتیشی ٹیم نے اسے ہندوستان سے باہر کس طرح نکل جانے دیا(d):۔ گجرات پولیس کی گیتا جوہری‘ جسے سپیشل تفتیشی ٹیم کا رکن بنایا گیا ہے ‘اس کا سروس ریکارڈ انتہائی خراب ہے اور کیا یہ بھارتی انصاف کے منہ پر طمانچہ نہیں کہ اس حقیقت کے با وجود اسے بھارت کے سب سے بڑے مقدمہ کی تفتیشی ٹیم کا رکن بنایا دیا گیا‘ جسے سہراب الدین پولیس مقابلہ کیس میں بھارتی سپریم کورٹ پہلے ہی ناپسندیدہ قرارر دے چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں