کشمیر اس وقت دنیا بھر کے امن سے لبریز سینے میں گھسا ہوا وہ کانٹا ہے‘ جسے اگر جلد نہ نکالا گیا ‘تو اس سے لگنے والے زخم صرف برصغیر اور ایشیا ہی نہیں‘ بلکہ دنیا بھر کیلئے ناسور بن جائیں گے؛ اگر امریکہ ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ برطانیہ یا یورپ یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسی دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشمیر کے بنیادی مسئلے پر ہونے والی کسی بھی جنگ کا دُور بیٹھ کر تماشا دیکھیں گے یا اس کے ثمرات سمیٹیںگے ‘ تو یہ ان سب کی سخت بھول ہو گی۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کی مثالیں سب کو سامنے رکھنی ہوں گی‘ جس میں تماشا دیکھنے والے بھی بعد میں روتے رہے۔2001ء میں عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگ کے حوالے سے کچھ قوموں نے اگر ثمرات سمیٹے‘ تو انہیں فرانس‘ میڈرڈ اور لندن سمیت دوسرے یورپی ممالک میں دہشت گردی کے طوفانوں کا جس قدر سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ وہ ان کی تاریخ کی کتابوں میں صاف پڑھے جا سکتے ہیں۔اسی طرح عراق جنگ کے بعد شام میں کروائی گئی خانہ جنگی کے بعد افریقا‘ انڈونیشیا سمیت خطہ ٔعرب‘ امریکہ نے ''داعش ‘‘کے ہاتھوں میں تھما دیا‘نیزسوڈان ‘ لیبیا‘ تیونس اور مصر سمیت یمن کے نقشے ہم سب کے سامنے ہیں۔
بھارت اور پاکستان اس وقت تک جنگ کے دہانے پرکھڑے رہے گے‘ جب تک کشمیر کا یہ کانٹا دنیا کے جسم سے نکل نہیں جاتا۔ ستمبر1965ء کی جنگ بھی اصل میں کشمیر کا معرکہ ہی تھا اورا س کے بعد کی تمام جنگیں اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر وقفے وقفے سے ہونے والی خونی جھڑپیں بھی اسی کشمیر کی وجہ سے ہو رہی ہیں ۔بھارت کے اندر؛ اگر کہیں سے کوئی پتھر یا گولہ آ گرے‘ تو وہ اسی وقت پاکستان پر حملے اور اسے سبق سکھانے کے للکارے مارنے شروع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ دسمبر2001ء میں جب یہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی واجپائی کی قیا دت میں حکومت تھی ‘تو نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر پانچ لوگوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تو اسے بھارتی جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے آئو دیکھا نہ تائو ‘بھارت اپنی دس لاکھ افواج ‘پاکستان کی سرحدوں پر اس طرح لے آیا کہ دس ماہ تک وہ پاکستان کی سرحدوں کے ایک ایک حصے پر چمٹی رہیں۔ ان دس ماہ میں ہر وقت ہر گھڑی یہی لگتا تھا کہ طبل جنگ بجنے ہی والا ہے۔ دہلی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام بھی کشمیر کے حریت پسندوں پر لگا یاگیا تھا اور کہا گیا کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان کی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے اور یہ دہشت گرد بھارتی پارلیمنٹ کو بارود اور آگ سے جلانا چاہتے تھے ۔مضحکہ خیزی دیکھئے کہ یہ دہشت گردوں کا عجب حملہ تھا‘ جس میں تمام حملہ آور تومار دیئے گئے ‘لیکن کسی ایک بھی رکن پارلیمنٹ کو خراش تک نہ آئی۔
دنیا کی کوئی ایک طاقت جب بھی چاہے ‘بھارت کو پاکستان کی سرحدوں پر اس طرح لے کر آ سکتی ہے کہ اس کے کسی بڑے ریلوے سٹیشن یا کسی ریل گاڑی کے اندر بم رکھ دے‘ تو اپنی طاقت کے نشے میں بد مست بھارت کی سیا سی اور فوجی قیا دت یہ جانے بغیر کہ یہ کسی اور کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے ‘پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے آسمان سر پر اٹھا لے گی یا اگر اس کی کسی بھی شاہراہ سے گزرنے والی فوجی گاڑی پردہشت گردوں کا حملہ ہو جائے‘ تو اگلے ہی دن بھارتی حکومت اس کا بدلہ لینے کیلئے اپنی ائیر فورس یا افواج کو بین الاقوامی سرحدوں کی پامالی کا حکم جاری کر دے گی اور ایک ایسے گھٹیا قسم کے نودولتئے بدمعاش کی طرح‘ جو ہر وقت یہ کہتے ہوئے گلیوں اور بازاروں میں ہر کسی سے الجھتا ہوا کہتا جاتا ہے '' پیسہ ہی بڑا اے‘‘۔
کیا بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں کے ریکارڈ میں نہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد 70 برس سے مسلسل بھارتی انتہا پسندوں کے بد ترین ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مسلم سٹودنٹس تنظیم(سیمی) نے بھارت کی پولیس‘ سکیورٹی اداروں کی نگرانی میں مسلم مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت کیلئے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔یہ کیسی بھارتی قیا دت ہے کہ بھارت میں مالیگائوں‘ اجمیر شریف‘ مکہ مسجد حیدر آباد‘ پونا بیکری اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے دہشت گردی کے واقعات ہونے کے اگلے ہی لمحے اس کا ملبہ پاکستان اور اس کی آئی ایس آئی پر ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں اور ان دھماکوں کی آڑ میں بھارت کے مسلم جوانوں کو عقوبت خانوں میں بند کر نا شروع کر دیتے ہیں۔
نریندر مودی کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنے اس اعلان پر قائم رہتے‘ جس میں انہوں نے پاکستان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' آئو ‘ہم ایک دوسرے کا مقابلہ غربت ختم کرنے میں کریں‘‘ لیکن اس کی بجائے ان کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں‘ جس سے دونوں ممالک ہی نہیں‘ بلکہ ان سے ملحق دوسرے ممالک بھی غربت اور وسائل کی کمی کا شکار ہو جائیں۔اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو پاکستان کی ائیر فورس نے بھارتی ائیر فورس کے دو طیاروں کو مار گرایا ہے اور اس کا پس منظر وہی کشمیر ہے ‘جہاں پلوامہ سری نگر شاہراہ پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے ایک کانوائے پر حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں بھارت کے دو جہازوں کو گراتے ہوئے آزاد کشمیر کی حدود میں گرنے والے جہاز کے ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کسی بھی لمحے ایک دوسرے پر جھپٹنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اوراس کے نتیجے میں دنیا بھر میں جو تباہی پھیل سکتی ہے ‘اس کا اندازہ اس دنیا کے آخری کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کو بھی ہو جا نا چاہئے اور جب کوئی بھی اس ممکنہ تباہی کا باعث پوچھے گا تو وجہ تباہی کشمیر کے نام سے سامنے آئے گی۔ بھارت کے دو طیاروں کی تباہی کے بعد ایک اطلاع کے مطابق؛ بھارت میں نریندر مودی‘ فوجی سربراہوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہے‘ تو دوسری جانب بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی سربراہی میں نئی دہلی کے شمالی بلاک میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ راء چیفس‘ سیکرٹری داخلہ اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے اہم اجلاس جاری ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے ہر ملک کو ہر میڈیا ہائوس اور تمام تھنک ٹینکس کو تمام یونیورسٹیوں اور ہر قسم کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر نریندر مودی سمیت بھارت کی ہر قسم کی قیا دت پر دبائو بڑھانا ہو گا کہ '' بہت ہو چکا ‘کشمیر کا کانٹا دنیا کے سینے سے نکال دیا جائے‘‘ ۔اگر بھارت ایسا نہیں کرتا تو پھر اس پر اسی طرح کی عالمی پابندیاں عائد کر دینی چاہئیں‘ جس طرح ایران اور شمالی کوریا پر عائد کی گئیں‘ کیونکہ شمالی کوریا اور ایران پر الزامات یہی ہیں کہ اس کے نیو کلیئر پروگرام سے دنیا کا امن تباہ ہو سکتاہے ‘تو کیا کشمیر کے مسئلے پر ہر چند سال بعد دو ایٹمی قوتیں ایک دوسرے کے مقابلے پر آمنے سمانے کھڑی نہیں ہو رہیں؟
اسلام آباد اور نئی دہلی میں موجود تمام سفارت کاروں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے '' مقامی ہیڈز‘‘ کو چاہئے کہ وہ کشمیر کے نام سے شروع ہونے والی صرف برصغیر کی تباہی ہی نہیں ‘بلکہ ایشیا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پھیلنے والی تباہی کو روک نے کیلئے تمام تکلفات اور مفادات کو ایک جانب رکھتے ہوئے بھارت کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلا کر کشمیریوں کو اپنے وعدے اور اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرار دادوں کی روشنی میں حق رائے دہی کے ذریعے موقع دیںکہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے ‘یہی امن کا راستہ‘ جس پر پاکستان اور بھارت کو چلنا ہو گا اور یہی کشمیریوں کی منزل ہے اور یہی کشمیر سے ابھرنے والی آوازوں کی پکار ہے۔دنیا کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر امن کے جسم میں گھسے ہوئے کشمیر کے کانٹے کو نکال ہونا ہو گا ‘ کیونکہ جنگ کے بادل سب کو دکھائی دے رہے ہیں‘ لہٰذا سب کو اپنی بند آنکھوںکو اب کھولنا ہو گا ۔