بھارت کی وزارت داخلہ کے انڈر سیکرٹریRVS MANI نے عشرت جہاں ‘ ذیشان جوہر‘ امجد علی رانا اور جاوید شیخ کو احمد آباد گجرات کے نواح میں‘ لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی کے ایجنٹ مشہور کرتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا ‘تو اس کی گونج چند ہی دنوں میں بھارت سمیت دنیا بھر میں سنائی دی ۔میڈیا اور مسلم تنظیموں کے شور پر عدالتی تحقیقات شروع ہو گئیں۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران گجرات ہائی کورٹ میں اپنے دو الگ الگ حلفیہ بیانات میں انڈر سیکرٹری مانی نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ جس طرح احمد آباد کا یہ پولیس مقابلہ جعلی ہے ‘اسی طرح 13 دسمبر2001ء کو نئی دہلی پارلیمنٹ حملہ اور 26/11 کے ممبئی حملے بھی آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ نے نہیں‘ بلکہ خود اس وقت بھارت کی بر سر اقتدار جماعتوں نے کروائے تھے۔
گجرات ہائیکورٹ میں دیئے گئے‘ اپنے حلفیہ بیانات میں آر وی ایس مانی بحیثیت انڈر سیکرٹری داخلہ نے ( جو آج ڈپٹی لینڈ اینڈ ڈویلپمنٹ آفیسر وزارت اربن ڈویلپمنٹ میں تعینات ہیں ) نے بتایا کہ یونین اربن ڈویلپمنٹ سیکرٹری سدھیر کرشنا کو عشرت جہاں اور تین افراد کے قتل کی تفتیش کرنے والی سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کا رکن مقرر کیا گیا تھا‘تو گاندھی نگر گجرات میں سوالات کے دوران انسپکٹر جنرل سپیشل ٹیم ستیش چندر ورما‘ جن کا تعلق گجرات پولیس سے ہے‘ نے بتایا تھا کہ '' عشرت جہاں اور ان تین افراد کو جس طرح یہ کہہ کر جعلی مقابلہ میں مارا گیا کہ یہ وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی کو بم دھماکے میں قتل کرنے کیلئے پاکستانی آئی ایس آئی نے بھیجے تھے‘ بالکل اسی طرح 13 دسمبر2001ء اور اور26/11 کے ممبئی حملے بھی بھارت کے خود ساختہ تھے‘ تا کہ بھارت بھر کی عوام میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے خلاف غصے کو ابھارتے ہوئے پارلیمنٹ حملے کے ذریعے جنتا پارٹی نے '' پوٹا‘‘ تو 26/11 کے ممبئی حملوں کے ذریعے کانگریس نےUAPA جیسے بدنام زمانہ قوانین میں رااور آئی بی کے کہنے پر اپنی مرضی کی ترامیم کرائیں‘ جس کی رو سے ؛اگر کسی کی جیب میں خود سے پاکستانی کرنسی کے دس روپے ڈال کر گرفتار کیا جائے تو اسے جاسوس ثابت کرتے ہوئے بغیر ضمانت طویل مدت کیلئے جیلوں میںرکھا جا سکتا ہے ۔ ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ انڈر سیکرٹری جیسے عہدے پر فائز افسر کے حلفیہ بیانات گجرات ہائیکورٹ کے سامنے آئے تو گجرات کیڈر کے پولیس افسر آئی جی پولیس سدھیر ورما‘ جو اس وقت جونا گڑھ پولیس ٹریننگ کالج میں بطور پرنسپل کام کر رہے ہیں‘ سے ان الزامات کی وضاحت مانگنے کیلئے بار بار درخواست کرنے کے با وجودٹائمز آف انڈیا کو اپنا کسی بھی قسم کا رد عمل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ان سے کچھ پوچھنے کی بجائے سی بی آئی سے رابطہ کیا جائے۔
گجرات ہائیکورٹ کے سامنے بھارت کے انڈر سیکرٹری داخلہ جیسے ذمہ دار افسر نے اگست2009ء کو اپنے پہلے حلفیہ بیان میں بتایا کہ وزارت داخلہ نے اعتراض کیا تھا کہ لشکر طیبہ کے مبینہ سلیپر سیل سے تعلق رکھنے والے عشرت جہاں اور تین افراد کے آئی بی سے مقابلے میں مارے جانے کی تفتیش سی بی آئی کو دینے کی مخالفت کی تھی۔ انڈر سیکرٹری داخلہ کا جب پہلا حلفیہ بیان سامنے آیا تو کہا گیا کہ یہ آئی بی اور سی آئی بی کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے ہے ‘تاکہ ایک دوسرے کو بدنام کیا جا سکے۔ ستمبر2009ء کو گجرات ہائیکورٹ کے رو برو اپنے دوسرے حلفیہ بیان میں بھارتی وزارت ِداخلہ نے لشکر طیبہ سے تعلق کی بنا پر گجرات حکومت کے پولیس مقابلے کی کہانی تسلیم کرنے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ۔ آر وی ایس مانی نے بتایا کہ ستیش ورما کو شک تھا کہ وزارت داخلہ کا پہلا بیان آئی بی کے ایک سینئر افسر راجندرکمار کا تیار کیا ہوا لگتا ہے‘ جو اس وقت گجرات میں آئی بی آپریشنز کا انچار ج تھا‘ جب عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا۔ نریندر مودی کے گودھرا کے مسلم کش فسادات کے بعد انتہا پسند ہندوئوں کے ہیرو کے طور پر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر جون 2004ء میں گجرات پولیس کے ہاتھوں عشرت جہاں اورتین افراد کے مارے جانے پر مشہور کیا گیا کہ انہوں نے نریندر مودی وزیر اعلیٰ گجرات کو گودھرا فسادات کا انتقام لینے کیلئے آئی ایس آئی کی ایماء پر بم دھماکے میں اڑانے کا منصوبہ بنایا‘ تاکہ راجیو گاندھی کی طرح اسے بھی خود کش بم دھماکے سے ہلاک کر دیں ۔
سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن جیسے اہم ترین ادارے سے منسلک سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے ایک رکن کا تسلیم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ دہلی پارلیمنٹ ہائوس اور26/11 ممبئی حملوںکے ماسٹر مائنڈ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ نہیں‘ بلکہ کبھی کانگریس تو کبھی جنتا پارٹی کی صورت میں بھارت کی اپنی ہی حکومت اور کچھ ادارے ہیں ۔ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے راقم اپنے پروردگار کا لاکھ لاکھ شکرادا کرتا ہے کہ 26/11 ممبئی حملوں کے اگلے دن جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہبازشریف اور ان کے بھائی نواز شریف ‘رائٹرز اور بی بی سی کے نمائندوں کو سامنے بٹھا کر دنیا بھرکو پاکستان کی افواج بارے گمراہ کرتے ہوئے اجمل قصاب کے ثبوت دے رہے تھے‘ جب وہ کہہ رہے تھے کہ '' ممبئی حملے کیلئے دہشت گرد پاکستان سے بھیجے گے تھے‘ تو اس وقت اور اس کے بعد بار بار میں نے اپنے مضامین میں ثبوت دیتے ہوئے لکھا تھا کہ دہشت گردی کی یہ سب کارروائیاں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے نہیں ‘بلکہ بھارت کے ہی '' سٹیٹ ایکٹرز‘‘کے ہاتھوں کرائی جا رہی ہیں اور اس کی گواہی کبھی ہیمنت کر کرے کی شکل میں تو کبھی مانی کی شکل میں سچ کا خدا سامنے لا رہا ہے۔ بد قسمتی کہیے کہ پاکستانی میڈیا کے لبرل اور ترقی پسند اپنی محفلوں میں میرا مذاق اڑاتے ‘لیکن میری اور ان کی لفظی جنگ جاری رہی وہ اپنے ہی ملک کی خفیہ ایجنسی کو بدنام کرنے کیلئے جگہ جگہ تقریریں کرتے رہے‘ جبکہ میں ہا بار بار کہتا رہا کہ دہلی پارلیمنٹ حملہ‘ سمجھوتہ ایکسپریس‘ پونا جرمن بیکری بم دھماکہ‘ مالیگائوں‘ اجمیر شریف اور مکہ مسجد حیدر آباد بم دھماکے اور پھر نئی دہلی بھارتی پارلیمنٹ اور 26/11 کے ممبئی حملے بھارت کے ہی ''سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی کاروائیاں ہیں اور اس میں پاکستان کی ایجنسیوں کاکوئی ہاتھ نہیں۔
چودہ فروری کو جب پلوامہ کا خود کش حملہ ہوا تو اس وقت بھی افواج پاکستان کی دلی طور پرمخالف سیا سی قیا دتوں اور صحافتی شخصیات سمیت لبرل اور ترقی پسندی کے نام پر قائم نت نئی تنظیموں نے تمام ملبہ ملکی ایجنسیوں پر ڈالنا شروع کر دیا‘ لیکن اس وقت بھی میں نے اسے بھارت کا ہی ڈرامہ قرار دیا تو یہ لوگ پھر میرا تمسخر اڑانے لگے ۔ جب26/11 ممبئی حملے ہوئے تو اس وقت بھی میںایک موقر روزنامے سے منسلک تھا ۔ممبئی حملوں کے تیسرے دن اور پھر بعد میں اس وقت تک دستیاب ثبوتوں کے ذریعے متعدد مرتبہ ثابت کیا کہ ممبئی حملے پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی نہیں‘ بلکہ بھارت'' کے سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی کاروائیاں ہیں۔ اس سلسلے میں جلدشائع ہونے والی میری کتاب'' 26/11 اجمل قصاب اور پلوامہ‘‘ میں 23 فروری کو راء کے سیکرٹری سپیشل آپریشن وکرم بھٹہ چاریہ کے دستخطوں سے مقبوضہ کشمیر کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے سربراہوں کے نام لکھاخط ‘جس میں بارہ مولا بازار میں مجاہدین کے لباس پہنے ہوئے اپنے آدمیوں کے ذریعے دہشت گردی کرانے کی تمام تفصیلات سامنے لا رہاہوں اور راء کے اس ٹاپ سیکرٹ خط کاعکس ‘بطور ِثبوت اپنی کتاب کی عقبی جلد پر شائع کر رہا ہوں۔