"MABC" (space) message & send to 7575

تعزیت سے انکار

میاں محمد نواز شریف کے بہت ہی پیارے اور درویش منش چھوٹے بھائی میاں عباس شریف کے اچانک انتقال کی اطلاع پا کر آصف علی زرداری‘ لاہور بلاول ہائوس پہنچے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو جاتی امرا‘ رائے ونڈ پیغام بھیجا کہ وہ ان کے بھائی میاں عباس شریف کی پرُ ملال وفات پر ان سے اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کیلئے آنا چاہتے ہیں۔ یہ پیغام بھیجنے کے بعد آصف علی زرداری‘ اس انتظار میں رہے کہ جلد میاں نواز شریف کی طرف سے انہیں رائے ونڈ پہنچنے کا پیغام ملے گا۔ زرداری صاحب کے سکیورٹی سٹاف نے گاڑیوں کے قافلے کو تیار رہنے کا کہہ دیا‘ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا‘ بلاول ہائوس لاہور میں بیٹھے ہوئے آصف علی زرداری بے چین ہوئے جا رہے تھے کہ آخر میاں صاحب کو کیا مصروفیت ہے کہ ان کا آدمی انہیں اپنے ساتھ لے جانے کیلئے ہی نہیں آ رہا؟ جیسے ہی میڈیا تک یہ خبر پہنچی کہ زرداری صاحب رائے ونڈ جانے والے ہیں‘ میڈیا کی گاڑیاں بھی فراٹے بھرتے ہوئے جاتی امراء کی جانب دوڑ پڑیں اور ساتھ ہی ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر آصف زرداری کے عباس شریف مرحوم کی تعزیت کیلئے رائے ونڈ جاتی امراء جانے کی بریکنگ نیوز نظر آنے لگی‘ لیکن انتظار تھا کہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا اور جب میاں نواز شریف کی جانب سے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ کچھ عرصے بعد ملک بھر میں شروع ہونے والی انتخابی مہم میں زرداری صاحب کی جاتی امراء آمد اثر انداز ہو سکتی ہے‘ تو ان کا تعزیت اور فاتحہ خوانی کیلئے آنا قبول نہ کیا گیا ‘ یعنی بھائی کی وفات کو بھی سیا ست کا کھیل بنا دیا گیا کہ اگر کوئی ان سے تعزیت کیلئے آئے تو ممکن ہے کہ اس سے ووٹ کم پڑ جائیں‘ لیکن مریم صفدر نے اپنے چچا کی موت پر اپنی سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے بلاول کا کوٹ لکھپت جیل آنا خوشی سے قبول کرلیا ۔
تین دن تک سابق صدر آصف زرداری رائے ونڈ جانے کیلئے بلاول ہائوس میں اپنے پائوں رکاب میں ڈالے انتظار کرتے رہے کہ ابھی انہیں تعزیت کیلئے آنے کی اجازت ملی کہ ملی‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور وہ واپس اسلام آباد چلے گئے‘ لیکن آج کیا کایا پلٹی ہے کہ وہ جنہیں تعزیت کیلئے آنے کی اجا زت نہیں تھی‘ وہ مزاج پرسی کیلئے خصوصی طور پر درخواست کرتے ہوئے بلائے گئے ۔ میڈیا نے اس بات پر میاں نواز شریف کی خوب خبر لی کہ ایک انسان ‘جس کے ساتھ آپ کے قریبی تعلقات رہے ہوں‘ وہ آپ کے پیارے مرحوم بھائی کی وفات پر تعزیت کیلئے آپ کے گھر آرہا تھا‘ لیکن اسے آنے سے منع کر دیا گیا‘ جیسے اس نے آپ کا کوئی قتل کر دیا ہو۔ پنجاب میں تو ویسے ہی ریت ہے کہ دشمن بھی ایک دوسرے کے جنازوں میں شرکت کرنے سے نہیں رہتے اور یہ تو آپ کے میثاق جمہوریت کے ساتھی تھے ۔
بلاول بھٹو زرداری کی لاہور کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے خصوصی ملاقات کیلئے آمد کوئی اچانک نہیں ‘بلکہ ذرائع کے مطابق‘ اس کیلئے کافی عرصے سے باہمی رابطوں کے ذریعے کوششیں کی جا رہی تھیں اور اس ملاقات کی درخواست میاں نواز شریف نے خواجہ آصف کے ذریعے آصف زرداری سے کی ۔ یہاں پر ایک مرتبہ پھر آصف علی زرداری مار کھا گئے‘ کیونکہ وہ خود میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات کیلئے جا نا چاہتے تھے‘ لیکن ان کے نام پر بھی نواز لیگ یہ کہتے ہوئے ہاتھ کر گئی کہ آصف زرداری کا نواز شریف سے ملنے کیلئے جیل آنا‘ مسلم لیگ نواز کی سیا ست کو کمزور اور وزیر اعظم عمران خان کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کا باعث ہو گا‘ اس لئے ان کی بجائے؛ اگر بلاول کو بھیج دیا جائے‘ تو یہ دونوں کیلئے بہتر ہو گا‘ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی زرداری صاحب کو نواز شریف کی یہ تجویز ماننی پڑی؛ حالانکہ اس مرتبہ بھی وہ خصوصی طور پر اسلام آباد سے بلاول ہائوس لاہور پہنچے ہوئے تھے۔ اس ملاقات کے نہ ہونے کا دکھ فاروق ایچ نائیک اور خواجہ آصف کی باہمی رشتے داری نے کم کیا‘ جن کی کوششوں سے بلاول کی یہ ملاقات کروائی گئی۔ فاروق ایچ نائیک ‘زرداری صاحب کے کس قدر از داں ہیں کہ اگر کبھی آئس لینڈ کے ہیگ کاپ سٹور کی کہانی سامنے آئی تو اس باہمی اعتماد کا پتا چل سکے گا۔ یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ خواجہ آصف کا نائیک صاحب سے کس قدر قریبی رشتہ ہے۔ بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کی ملاقات دو ایسے ہارے ہوئے راجائوں کی ہے‘ جن میں سے ایک پابند سلاسل ہو چکا ہے اور دوسرا جلد یا بدیر قانون کی گرفت میں آنے والا ہے۔ 
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت پی پی پی اور نواز لیگ کے اہم ترین لیڈر سمجھ چکے ہیں کہ ان کی مختلف زاویوں اور چینل سے کی گئی معافی اور ساتھ چلنے کی تمام کوششیں‘ راولپنڈی کی جانب سے منظور نہیں کی جا رہیں‘ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا سخت موقف بھی ان کواس معاملے میں ایک حد سے آگے جانے کی اجا زت نہیں دے گا اور ان سے وزیر اعظم عمران خان نے صاف اور کھل کر کہہ دیا ہے کہ ان کی جماعت کے کسی بھی شخص پر‘ اگر کرپشن کا کوئی الزام ہے‘ تو وہ قانون کے راستے کی دیوار نہیں بنیں گے اور وہ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور تباہ کرنے والے کسی بھی شخص کے ساتھ نرمی ا ور رعایت برتی جائے ۔اس سے پہلے میاں شہباز شریف کے معاملے پر بھی وزیر اعظم عمران خان‘ جس اصولی موقف کی اذیت میں ہیں ‘اس کا شاید کوئی اندازہ ہی نہیں کر پا رہا‘ کیونکہ وہ کسی بھی کرپٹ اور ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے والے کو معافی دینے کے روادار نہیں ۔
مفاہمت اور مصالحت کی تمام کوششوں اور پیشکشوں کے قبول نہ ہونے پرکیا آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف مایوس ہو کر گھر جلانے کو تیار ہو چکے ہیں؟مئی کے پہلے ہفتے میں رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے‘ کیا مارچ یا اپریل میں وہ دما دم مست قلندر کرنا چاہیں گے؟ کیا انہوں نے مولانا فضل الرحمن کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے ‘کیونکہ مولانا کے پاس دھرنوں کیلئے ملک بھر میںقائم ان کے مدرسوں کے کم از کم پچیس ہزار کے لگ بھگ طالبعلم اور استاد کے پابہ رکاب ہونے کیلئے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی ‘اس سلسلے میں ان کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیں گے یا پھرآدھے راستے سے ہی تھک ہارکر واپس آجائیں گے؟خبر یہ ہے کہ مشہور ِزمانہ ماڈل ایان علی بھی جلد ہی پاکستان واپس آنے والی ہیں اور اگر تو اس مرتبہ ان کے وکلاء میں سردار لطیف کھوسہ کانام نہ ہوا‘ تو سمجھ لیجئے گا کہ وہ وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے تیار ہو چکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق‘23 مارچ کے بعد بہت ہی اہم اور بڑے بڑے ہاتھ قانون کی حراست میں آنے والے ہیں‘ ان میں سے کچھ نام تو ایسے ہیں‘ جو ابھی سے دوسری جانب چھلانگ لگانے کو تیار ہو چکے‘ لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چند فیصلوں کا انتظار ہو رہا ہے؛ اگر تو ان کی مرضی کے فیصلے نہ ہو ئے‘ تو پھر ان کی جانب سے دو طریقوں سے طبل ِجنگ بجے گا ؛ پہلے تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا اور اس کے شور میں پنجاب اور مرکز میں تحریک عدم اعتماد ‘جبکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ جاتی امراء کا مہمان‘ دوست کی مدد کو آتے ہوئے اپریل میںرحیم یار خان کی جانب سے ہلہ نہ بول دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں