بھارتی جسٹس مشرا نے بہار حکومت سے کہا ''کیوں نہ آپ کے منظور کئے گئے‘اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے‘ جس کے مطابق‘ ہر وزیر اعلیٰ کو عمر بھر کیلئے اس کی پسند کا تمام تزئین و آرائش سے آراستہ بنگلہ مہیا کیا جائے گا‘‘ بھارت کی پٹنہ ہائیکورٹ نے جیسے ہی یہ خبر سنی تو بہار حکومت کے تمام سابقہ وزراء اعلیٰ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ پٹنہ ہائیکورٹ کے جج نے جب اس عجیب و غریب مراعات پر سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے سماعت کیلئے ایک بڑا بنچ بنانے کی بھی درخواست کی ‘جس پر پٹنہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امریش ور پرتاپ ساہی اور جسٹس انجنا مشرا پر مشتمل ڈویژن بنچ تشکیل دے دیا گیا‘ جس نے اس قانون پر وفاقی حکومت کو بھی اس اہم صوبائی معاملے پر اپنی رائے پیش کرنے کیلئے نوٹس جاری کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے بھی بہار حکومت کا منظور کیا گیا‘ یہ قانون کسی سے سن لیا‘ جس پر انہوں نے ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اس بل کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہلا شیری دیتے ہوئے ‘یہ راہ دکھا دی۔ تاحیات بنگلہ ملنے کی بہار حکومت کی منظوری تو انہوں نے سن لی‘ لیکن انہوں نے اس کے آگے کا وہ منظر نہیں دیکھا‘ جس میں عدالت کے سامنے کھڑی بہار حکومت کی درگت بن رہی تھی۔ پٹنہ ہائیکورٹ کے اس سو موٹو نوٹس کی خبر سامنے آئی‘ تو عوام اپنے نمائندوں کے اس لالچ پر مبنی اور حیرت انگیز قانون پر سیخ پا ہو گئے۔
'' حکم جاری ہوا کہ اندھے کنوئوں میں بطور سزا پھینکی گئی تمام قومیںفوری وہاں سے نکل آئیں ‘جہاں سب کو علیحدہ علیحدہ بطورِ سزا عرصہ ہوا پھینکا گیا تھا اور ساتھ ہی حکم جاری ہوا کہ ہر قوم کے دوزخیوں کے کنویں میں چار چار سیڑھیاں لگا دی جائیں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد دوزخ کے اندھے کنوئوں میں پھینکی گئیں تمام قومیں باہر نکل کر قطاریں بنائے کھڑی ہو گئیں‘ لیکن پاکستانی قوم میں سے ایک بھی نظر نہیں آ رہا تھا‘ جب اس کا سبب پوچھاگیا تو بتایا گیا کہ '' وہ سب ابھی تک اس کنویں میں ہیں‘ کیونکہ جیسے ہی کوئی باہر نکلنے کیلئے سیڑھی چڑھنے لگتا ہے ‘تو پیچھے سے دوسرا سب سے پہلے چڑھنے کیلئے اس کی ٹانگ کھینچ لیتا ہے‘ آپس کی لڑائی کی وجہ سے اس وقت تک کئی زخمی بھی ہو چکے ہیں‘‘ ۔ یہ ایک خیالی کہانی ہے لیکن میرے خیال میں کچھ یہی صورت حال اس وقت وزیر اعظم عمران خان کو درپیش ہے‘ جیسے ہی وہ کوئی قابل تعریف کام کرتے ہیں‘ جیسے ہی ان کے عمل سے پاکستانی فخر محسوس کرنے لگتے ہیں‘ جیسے ہی عوام کی کسی تکلیف کا ازالہ ہونے لگتا ہے ‘تو ان کا کوئی مرکزی یا پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی وزیر با تدبیر ہا پھر مشیر خاص کوئی ایسا گل کھلادیتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا کیا دھرا سب غارت ہو جاتا ہے۔
لگتا ہے کسی نے میرے فریق کے ذہن میں ڈال دیاہے کہ اگر آپ مستقبل میں اپنے سیا سی عزائم کیلئے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا کوئی بینک اکائونٹ کھولنا چاہتے ہیں‘تو اراکین پنجاب اسمبلی کی ہمدردیاں اور ان کے دلوں میں اپنے لئے محبت کا پودا لگانا ہو گا‘ تو اس کیلئے بہار حکومت کی طرح تنخواہیں ایسی بڑھانی ہوں گی کہ نہ کسی نے سنی اوردیکھی ہوں ۔ کل کو کسی بھی سیا سی گروپ سے تعلق رکھنے والا رکن اسمبلی آپ کی جانب دیکھتے ہوئے خوف یا جھجک محسوس نہ کرے‘ بلکہ شہد کی مکھی کی طرح آپ کے گرد منڈلاتا رہے ۔ اب یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خیر سے ہمارے چوہدری پرویز الٰہی 2002ء کے بعد خود بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں‘ اس لئے چھ ماہ سے زائد وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے کیلئے ہر قسم کی دیکھ بھال سمیت وسیع و عریض بنگلہ پنجاب حکومت کے ماہانہ بیش بہا اخراجات سمیت ‘ اب ان کی جیب سے نہیں ‘بلکہ عوام کے ٹیکسوں سے ادا کئے جائیں گے ۔
کل تک ایک ہی منظر دیکھنے کو مل رہا تھا کہ جیسے ہی چوہدری پرویز الٰہی اور پاکستان تحریک انصاف کاوزیر کوئی بل ایوان کے سامنے پیش کرتا‘ تو جیسے ہی اس کی ہلکی سی بھنک بھی نواز لیگ کے وزراء کے کانوں میں پڑتی ‘تو ماڈل ٹائون سے حکم شاہی جاری ہوجاتا کہ '' پے جائو‘‘ جس پر یک جان ہو کر ایک طوفان اٹھا دیا جاتا اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ڈائس کے سامنے آ کر ہلہ گلہ اور شور شرابہ کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دی جاتیں‘ بلکہ کسی اخبار میں بل کی شائع ہونے والی خبروں کی کاپیاں تک پھاڑنے والے نواز لیگ کے اراکین اسمبلی مذکورہ بل کی منظوری کیلئے سب سے آگے آگے تھے۔ شاید ان کو ملنے والے حکم کے مطابق‘ ان سب کیلئے لازمی ہو چکا تھا ‘کیونکہ ان کے محبوب قائد میاں شہباز شریف بھی 2008ء اور2013ء میں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہنے کے صلے میں اس منظور کئے گئے قانون کی ر و سے زندگی بھر کیلئے اپنی پسند کے بنگلے یا محل کی بجلی‘ گیس‘ پانی اور ٹیلیفون سمیت اپنی تمام خواتین خانہ کی مرضی سے تزئین و آرائش کے تمام اخراجات مع ملازمین کی تنخواہ کی رقم حاصل کر رہے ہوتے ، جو ہمیشہ کی طرح غریب عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے حاصل کیے جائیں گے۔ عوامی عہدہ رکھنے والا کوئی بھی شخص جیسے ہی اپنی مدت پوری کرلیتا ہے یا اس کا وہ عہدہ کسی بھی طریقے سے ختم ہوتا ہے تو ساتھ ہی اس کا رتبہ بھی ایک عام شہری کی حیثیت اختیار کر لینے سے اس کی وہ تمام مراعات بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے ایسے عوامی نمائندے کیلئے عمر بھر کیلئے سرکاری مراعات کسی بھی ریاست کے وسائل کو بے دردی سے استعمال کرنے کے زمرے میں آجاتا ہے۔ بات صرف وزرائے اعلیٰ پنجاب کو عمر بھر کیلئے دیئے جانے والے بنگلے تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ اس گھر کی تزئین و آرائش اور اس کی دیکھ بھال پر درجنوں ملازمین کی صورت میں اس پر ہر ماہ اٹھنے والے اخرجات بھی غریب عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیا جا نا انتہائی نا مناسب تجویز ہے‘ جسے وزیر اعظم عمران خان نے فوری واپس لینے کا حکم تو دے دیا ہے‘ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ وہ کون ہے‘ جو انہیں پنجاب میں ہونے والے اہم ترین معاملات سے لا علم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے؟ عمران خان جیسے عوامی سوچ کے دعوے کرنے والے وزیر اعظم کو جیسے ہی بھارت کی بہار حکومت کی پیروی کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی سے منظور کروائے گئے ‘اس عجیب غریب قانون کی خبر ملی ‘تو وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ سب آخر ہوکیا رہا ہے؟یہ تو میرا خوب نہیں تھا؟یہ تو میرے وعدے اور نعرے نہیں تھے؟
جیسے ہی یہ خبریں سامنے آئیں کہ پنجاب اسمبلی سے ایک ایسا قانون منظور کرایاجا رہا ہے ‘جس میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں تین گنا اضافہ کیا جا رہا ہے تو اراکین پنجاب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اسی بل میں ایک ایسی شق بھی رکھ دی گئی جس کی منظوری کے بعد پنجاب میں 2002ء کے بعد چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے تک وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے والے شخص کو تا حیات عالیشان بنگلہ بھی دیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے صرف یہ دیکھا کہ اس بل کی سب سے پہلی شق میں ان کی تنخواہیں اور مراعات پہلے سے تین گنا کر دی گئیں ہیں اور اس میں شامل وزیر اعلیٰ کیلئے عمر بھرکیلئے ایک عالیشان اور پر تعیش سہولیات سے مزین بنگلے کی جانب ان کا دھیان ہی نہیں گیا۔