نئی دہلی سے واہگہ اٹاری کے لیے روانہ ہونے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں GS 03431 اورGS14857کو 18 فروری2007ء کی رات ہریانہ پانی پت کے قریب دیونا کے مقام پر بارود اور بموں سے تباہ کرتے ہوئے70 مسافروں کو ہلاک اور چالیس سے زائد لوگوں کو زخمی کرنے والے سب سے اہم کردار بھارتی فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی عدالت کے جج نے ایک سال ہوا بری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے تھے جبکہ انتہا پسند ہندو عسکری تنظیم ''ابھینا و بھارت‘‘ کے بقیہ چار دہشت گردوں کو بھی گزشتہ روز اپنا ملتوی کیا ہوا فیصلہ سناتے ہوئے با عزت بری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ۔ اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح بھارت''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ‘‘کے نام سے خود کو منواتا ہے اسی طرح اس کا عدالتی نظام بھی'' دنیا بھر سے منفرد ہے‘‘ جس سے سسلین مافیا اور گاڈ فادر زبھی شرما گئے ہوں گے۔یہ بھی ثابت ہوا کہ آنجہانی ہیمنت کر کرے کے بعد بھارت میں کسی بھی تفتیشی ادارے اور عدلیہ کے ججوں کے ضمیرانتہا پسند ہندوئوں کی آگ میں جل کر کندن بن چکے ہیں‘ جبھی تو70 افراد کی ہلاکت کے ذمہ داروں کا بھارت میں کسی کو نشان ہی نہ مل سکا ۔ایسا لگا کہ یہ کسی مافوق الفطرت شے کا کارنامہ تھا جو نہ تو کسی کو نظر آتی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے خون سے اس کی پیاس بجھنے کا نام لیتی ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں کی تباہی میں ابتدائی تفتیش کے نتیجے میں8 افراد ملوث پائے گئے‘ جن میں حیدر آباد کی مکہ مسجد میں بن دھماکے کرنے والا سوامی سیم نند اور سنیل جوشی شامل تھے جبکہ تین افراد اشتہاری قرار دیئے گئے۔ ان میں سے سنیل جوشی کو2007ء میں ہی اس کی تنظیم'' ابھیناو بھارت‘‘ کے ساتھیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
سمجھوتہ ایکسپریس مقدمے کا فیصلہ14 مارچ کو سنایا جانا تھا لیکن ہلاک ہونے والے کچھ پاکستانیوں کے لواحقین نے اپنے وکیل کے ذریعے اعتراض اٹھایا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے انہیں بھی سنا جائے‘ جس پر مقدمے کی سماعت پانچ دن کے لیے ملتوی کرتے ہوئے انہیں مقررہ تاریخ کو ان کے وکیل کے ذریعے حاضر ہونے کا کہا گیا‘لیکن ستم دیکھئے کہ ان پاکستانی خاندانوں کو مقدمے کی سماعت میں فریق بننے کے لیے بھارتی حکومت نے ویزے جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا ‘جس پر ان کے بھارت نہ پہنچنے پر جج صاحب نے فیصلہ جاری کر تے ہوئے اپنے تمام ہم وطن دہشت گردوں کو70 افراد کو زندہ جلانے اور پچاس کو زخمی کرنے کے جرم پر بری کر دیا۔
جیسا کہ بھارت کی عادت ہے ‘جیسے ہی سمجھوتہ ایکسپریس کا یہ قتل عام ہوا بھارت سمیت امریکہ اور مغربی لے پالکوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی کے کارندوں کا کام ہے‘ لیکن جب تحقیق شروع ہوئی تو ابھینا و بھارت کا نام سب کے سامنے آ گیا جس سے بھارت کی تمام ایجنسیوں اور حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ انتہا ئی شرم کا مقام ہے کہ امریکہ کے ایک تحقیقاتی ادارے نے اس کی ذمہ داری عارف عثمانی نام کے ایک مسلمان کے سر ڈالتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔ اس سے بھی آگے چلیں کہ امریکی حکومت نے بھارت کی خوشامد کرتے ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی پر اقوام متحدہ سے رجوع کرتے ہوئے عارف عثمانی کو انٹرنیشنل دہشت گرد قرار دلوا دیا۔ اس سے بھی آگے بھارت نے ایک ایسے پاکستانی کو گرفتار کر لیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس شخص کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھیں لیکن سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی کے چودہ دن بعد اسے بے گناہ قرار دے کر یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا گیا کہ اس کے سفری کاغذات بوگی کے مسافروں اور ان کے سفری سامان سمیت دوسرے لوگوں کے ساتھ جل چکے ہیں۔
بھارت کی راء نے سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی کی آڑ میں ہر بھارتی مسلمان کو دہشت گردقرار دیتے ہوئے صفدر ناگوری‘ قمر الدین ناگوری اور عامل پرویز کو گرفتار کر لیا ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا لیکن ان سے کچھ بھی اگلوا نہ سکے ۔ ان سب کاNarco Analysis Test بھی کیا گیا‘ لیکن کچھ حاصل نہ سکا۔ انہیں یہ ترغیب اور لالچ بھی دیا گیا کہ وہ حاجی عبد الرزاق کا نام لے دیں تو ان کا ہمیشہ کے لیے خیال رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنی ہڈیاں تڑوا لیں لیکن جھوٹ بولنے ور ان کے جھانسے میں آنے سے انکار کر دیا۔لیکن پھر سچ سامنے آ گیا اور ہیمنت کر کرے کی شکل میں بھارت کی ایک ایسی ماں کا سپوت‘ جس پر پاکستانی ہی نہیں دنیا کا ہر انصاف پسند شخص فخر سکتا ہے‘سامنے آیا جس نے نہ تو بھارت کی فوج کا دبائو اور دھمکی قبول کی اور نہ ہی اسے دنیا کا کوئی لالچ اپنے فرض سے بہکا سکا ۔اس نے جیسے ہی مکہ مسجد بم دھماکے میں سوامی دیانند کو گرفتار کیا تو اس نے تفتیش میں سب کچھ اگلتے ہوئے بتا دیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی میں اس کے ساتھ ابھیناو بھارت کے سنیل جوشی اور ان کا پورا گروہ شامل ہے۔
سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں کی تباہی کے اگلے روز بھارتی پولیس نے دو سوٹ کیسوں کے بم دھماکوں کے لیے استعمال پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشت گردی میں چار سے پانچ افراد کے ملوث ہونے کے واضح امکانات ہیں اور پولیس نے دو مشتبہ اشخاص کے تصویری خاکے بھی جاری کر دیئے جن میں ایک شخص کی عمر35 سال کے قریب اور دوسرے کی 26/27 برس ہو سکتی تھی‘ جس نے اپنے سر کے اوپر سکارف یا کوئی بڑا رومال پہن رکھا تھا۔ یہ اس لیے کہا گیا کہ سب کا دھیان مسلمانوں کی جانب چلا جائے۔ ہریانہ پولیس نے مارچ2008ء میں اندور سے دو افراد کو گرفتار کرنے کے بعد بتایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی میں بم رکھنے کے لیے جو سوٹ کیس استعمال ہوئے وہ ان دوکانداروں سے خریدے گئے تھے۔
جب سمجھوتہ ایکسپریس دیونا ریلوے سٹیشن کو کراس کر رہی تھی تو اس کی رفتار بیس کلومیٹر تھی اس لئے یہ تحقیق ثابت ہو گئی کہ اس میں کچھ ریلوے ملازمین بھی شمال تھے کیونکہ ان سوٹ کیسز کے اندر بم نصب کرتے ہوئے ان کی ٹائمنگ مقرر کرنے والے بیس کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ٹرین سے دیونا کے سٹیشن سے چند فرلانگ پہلے ہی چھلانگیں مارتے ہوئے اتر چکے تھے۔ اس لئے31 مارچ کو امرتسر سے ایک شخص کو اس شک میں حراست میں لے لیا گیا لیکن سب بے سود...پھر70 جانوں کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کے لیے انسداد دہشت گردی سکواڈ کے انسپکٹر جنرل ہیمنت کرکرے کو تفتیش سونپ دی گئی جس نے ایک ایک دہشت گرد کو چن چن کر میڈیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اب ایک طرف ہیمنت کر کرے اور اس کے تین چار ساتھی پولیس افسر تھے تودوسری جانب بھارت کی طاقتور ایجنسی اور متعصب میڈیا اور انتہا پسند ہندو دہشت گرد تنظیمیں ان کی جان کے دشمن بن گئے‘ لیکن انہوںنے اپنی جان پر کھیل کر سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی میں ملوث تمام ملزمان کو ثبوتوں سمیت کٹہرے میں لا کھڑا کیا ‘مگر جیسے 26/11 ممبئی حملوں کے ڈرامے میں ہمنت کرکرکے کی ہلاکت کے بعد یہ تفتیش ان سےNIA کو منتقل کر دی گئی ‘جس کی تفتیش اس طرح کی گئی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ تفتیشی ایجنسی ثبوت سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔