"MABC" (space) message & send to 7575

مٹی کے بندے

جمعرات18 اپریل رات گئے‘ گوادر کراچی کوسٹل ہائی وے پر ارمارہ سے60 کلومیٹر ہنگول نیشنل پارک کے قریب ‘دو درجن سے زائد دہشت گرد ناکے لگا ئے گوادر سے کراچی جانے والی بسوں کو روک کر ان میں سوار مسافروں کی شناخت اور سروس کارڈ دیکھنے کے بعد غیر بلوچ مسافروں کو بسوں سے اتارتے ہوئے‘ ان کی گردنیں اڑاتے رہے‘ جن میں گیارہ پاک بحریہ کے افسر اور سیلر ‘ ایئر فورس کے دو اور ایک کوسٹ گارڈ شامل تھا۔ سکیورٹی فورسز کے شہید ہونے والے اہلکاروں میں اپنے خاندانوں کے ایسٹر کی تقریبات منانے کیلئے گھروں کو جانے والے تین مسیحی اہل کار بھی شامل ہیں ۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ہماری فورسز کے جوانوں کی شہا دت کا غم مناتے ہوئے ''یہ مٹی کے بندے ‘‘ کا گیت یا نظم سناکر گویا ان کی آخری رسومات ادا کر دی گئی ہیں۔ اس نظم یا گیت کو گزشتہ دو برس سے سنتے ہوئے یقین سا ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے گوشت پوست کے انسان‘ جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں آئے روز شہید ہونے والے پاکستانی سپاہی ''مٹی کے بندے‘‘ ہوتے ہیں اور مٹی کے بندے کا کیسا بدلہ ؟ مٹی کے بندوں کیلئے کیسی سرجیکل سٹرائیک؟
کے پی کے‘ کراچی اور بلوچستان میں آئے روز دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے درجنوں مٹی کے بندوں کے مقابلے میں جیسے ہی پلوامہ ‘نئی دہلی پارلیمنٹ‘ چٹی سنگھ پورہ‘ سمجھوتہ ایکسپریس ‘ پٹھان کوٹ اور 26/11 ممبئی میں ہلاکتیں ہوئیں تو صرف چند منٹ بعد امریکہ اور برطانیہ ہم آواز ہو کرپاکستان کے سرپر دہشت گرد ی کے سرٹیفکیٹ تھونپتے ہوئے اسے سبق سکھانے کے راگ الاپنا شروع ہو گئے اور یہ نظر نہ آ سکا کہ 2018ء میں بھارت کے سدھائے ہوئے دہشت گردوں نے بلوچستان میں119 پاکستانی شہید کئے‘ لیکن دنیا کے کسی ایک ملک کے ماتھے پر بل بھی نہ پڑا۔ اس لئے کہ جاں بحق ہونے والے یہ119 بھارتی نہیں تھے‘ بلکہ پاکستان کے ''مٹی کے بندے ‘‘تھے اور مٹی کے بندوں کا گھڑی‘ پل دو پل کیلئے افسوس کیا جاتا ہے ‘ان کا ماتم نہیں ہوتا‘ان کا بدلہ نہیں لیا جاتا ۔
ارمارہ میں چودہ جوانوں کی شہادت کے پس منظر میںوزیر اعظم عمران خان کا بر وقت دورہ ٔایران بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دو روزہ دورۂ ایران میں وزیر اعظم نے وہ بات کہہ دی‘ جس پر عمل کئے بغیر دونوں ملکوں میں نہ تو تعلقات کی گرم جوشی اور نہ ہی دہشت گردی کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ان دو جملوں سے؛ اگر بھارت اور بلوچستان میں دہشت گردی رک جاتی ہے یا ان کیلئے ایران کی حکومت سیف ہائوسز یا سرحدی کیمپوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ایسے دہشت گردوں کو ایران سے پکڑ کر پاکستان کے حوالے کر تی ہے‘ تو یہ وہ کامیابی ہو گی‘ جس کی ہم کئی برسوں سے امید کر رہے ہیں۔ جس دن ایران اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہو گئے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کو کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔
مجھے گوادر جانے کا اتفاق ہو چکا اور یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ وہاں کی آبادی کے کچھ لوگوں کی ہمدردیاں بلوچستان کے مختلف دہشت گرد گروپوں سے ہیں۔ دنیائے سیاست میں گوادر آج انتہائی حساس حیثیت اختیار کرچکا۔ کل تک صرف گوادربندر گاہ ہی بہت سی طاقتوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ چین اور پاکستان کے سی پیک منصوبے پر امریکہ‘ بھارت‘ برطانیہ اور ان کے اتحادی ممالک پاکستان کو اس کی بڑی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔کل کو جبFATF کا اجلاس ہو گا تو ان ممالک سے پوچھا جائے کہ آپ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی پر قابو پانے سے پہلے اپنے ممالک کے اندر بھی نظر دوڑائیں ‘جہاں بلوچستان کے دہشت گردوں کو آپ نے گود لے رکھا ہے۔
پلوامہ خود کش دھماکے کے تیسرے روز بھارت کے ایک ٹی وی چینل پر سابق انڈین آرمی چیف بکرم سنگھ نے اینکر کے سوال پر کہا ''ہمیں بدلہ لینا آتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اب تک ہم نے ان کے60 آدمی پاربھی کردیئے ہوں ‘کیونکہ آرمی چیف کی حیثیت سے کچھ رابطے جانتا ہوں‘‘۔سابق بھارتی جنرل بکرم سنگھ نے یہ بات کسی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے نہیں‘ بلکہ اپنے ہی ملک کے میڈیا پر بڑے فخر اور بلند آوازسے کہی‘ لیکن ابھی تک ہمارے کسی ادارے نے انڈیا کے اس سابق آرمی چیف کے بیان کا نوٹس ہی نہ لینا گوارہ نہیں کیا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور وزارت خارجہ میں سے کسی ایک نے بھی نہیں سوچا کہ انڈیا کے سابق آرمی چیف بکرم سنگھ کی اس ویڈیو کیسٹ کو دنیا بھر کے سفارتی حلقوں تک پہنچا د یا جائے۔کسی نے بکرم سنگھ کے اس انٹرویو کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی تکلیف گوارہ نہیںکی اور نہ ہی خیر سے ہماری وزارت خارجہ نے دنیا بھر میں اپنے سفارت کاروں اور نہ ہی وزارت ِاطلاعات نے ان سفارت خانوں میں اپنے پریس اتاشیوں کو بکرم سنگھ کی اس دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کیلئے توجہ دلائی ہے۔
پاکستان کی وزارت ِخارجہ و داخلہ اور وزیر اعظم ہائوس کو بغیر وقت ضائع کئے FATF کو جنرل بکرم سنگھ کی یہ ویڈیو کیسٹ پہنچانی ہو گی‘ جس میں وہ دنیا بھر کے سامنے بڑھکیںمارتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اب تک ہم نے ان کے پچاس سے زائد آدمی بھی پار کردیئے ہوں گے۔ گویا دہشت گردی اور دورے ملک میں مداخلت کا اقرار کیا جا رہا ہے۔ بکرم سنگھ کی فوجی ٹیم نے بظاہر داعش کے نام سے کوئٹہ ہزار گنجی سبزی منڈی میں کرائے گئے بم دھماکے میںمٹی کے 20 بندوں کو شہید اور تیس سے زائد کو زخمی کروادیا‘ جس پر کسی جاننے والے نے مجھ سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ یا تو پولیس یا سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والوں کو بنایا جاتا ہے یا پھر ہزارہ برادری کو؟اس دوست کو جب اس کی وجہ بتائی تو وہ سن کر حیران رہ گیا کہ ہزارہ والوں کو صرف پاکستان سے ان کی بے لوث محبت کی سزا دی جاتی ہے۔ ہزارہ برادری کے اہلکار پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں میں بغیر خوف کے پوری جانفشانی سے ملک کی حفاظت کیلئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں‘جو ان دہشت گرد گروپوں کو پسند نہیں ‘اس لئے انہیں ہر وقت نشانے پر لئے رکھتے ہیں۔
2006ء سے2008ء کے عرصے میں بلوچستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان کا قومی ترانہ اور قومی پرچم لہرانے والوں کو دہشت گرد‘ ان کے گھروں میں گھس کر پاکستان سے محبت کی سزا دینا شروع ہو گئے تھے‘ جن میں پنجابی اور ہزارہ سر فہرست تھے۔ ہزارہ؛ چونکہ کبھی بھی دہشت گردوں کے آلہ کار نہیں بنے‘ اس لئے پاکستان سے محبت ان کا جرم بن چکا۔ بد قسمتی کہہ لیں یا پھر کوئی ایسا خفیہ ہاتھ جو آہستہ آہستہ ہزارہ کمیونٹی کے اندر سے کچھ ایسے لوگوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے‘ جو دکھ‘ تکلیف اورماتم کی گھڑی میں ان کے ترجمان یا لیڈر وں کے روپ میں یا کسی ایک مخصوص میڈیا ذرائع کے ذریعے سکیورٹی اداروں کے متعلق بد گمانیاں پیدا کرنا شروع ہو گئے ہیں اور دشمن کا یہ وار انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے ہزار گنجی کی بیس شہادتوں پر احتجاجی دھرنا دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا اورچند ایک ٹی وی چینلز پر ان کے ایک لیڈر کی تقریر سنی ہے‘ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے وہ الفاظ اور رویہ درست نہیں تھا‘ اس لئے ہزارہ کے بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ اپنے جذبات سے کھیلنے کی ہر گز اجازت نہ دیں‘ کیونکہ آپ کا اور آپ کی سکیورٹی فورسز کا دشمن ایک ہی ہے‘ جو کبھی آپ کو نشانہ بناتا ہے‘ تو کبھی سیکورٹی فورسز کو ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں