دنیا ٹی وی کا انتہائی مقبول تفریحی پروگرام'' مذاق رات‘‘ اس وقت ملک کے اندر اور باہر سب سے زیادہ دیکھا جارہا ہے اور اس پروگرام میں گزشتہ آٹھ ماہ سے کراچی سے مدعو کئے جانے والی خواتین و حضرات نے پروگرام کے اینکر واسع چوہدری کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں یہی کہا ہے کہ انہوں نے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور بلائے گئے‘ ان مہمانوں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے علا وہ شو بز کی تمام شخصیات یہ بتا کر سب کو حیران کر دیتی ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا‘ لیکن صرف حالیہ انتخابات میں نا صرف وہ خود‘ بلکہ اپنی پوری فیملی کو ساتھ لے کر کراچی کی دھوپ اور گرمی میں پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے‘ تاکہ عمران خان کے حق میں ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ یہ ان تمام الزامات اور جھوٹے پراپیگنڈے کا جواب ہے ‘جس کی تکرار نون لیگ اور پیپلز پارٹی‘ آج کل قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور ٹی وی پروگراموں میں شدت سے کر رہے ہیں۔
الغرض مذکورہ رائے دہندگان کے بقول‘ انہوں نے اپنی جمہوری رائے کا کبھی اظہار ہی نہ کیا تھا‘لیکن وہ حالیہ عام انتخابات میںا س لیے اہل و عیال کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں کے باہر طویل قطاروں میں کھڑے ہوئے‘ تاکہ سائیں سرکار جان لے کہ عمران خان سلیکٹڈ نہیں ‘ بلکہ عوامی رائے عامہ کے الیکٹڈ وزیر اعظم ہیں۔
بلاول زرداری سلیکٹڈ وزیر اعظم کا لفظ استعمال کرنے سے پہلے؛ اگر امریکہ کی سابقہ سیکرٹری آف سٹیٹ کونڈا لیزا رائس کی کتاب No Higher Honor کا صرف ایک صفحہ پڑھ لیں، جس میں وہ لکھتی ہیں '' 2007ء میںجنرل مشرف کو بے نظیر بھٹو کے قریب لانے کیلئے اس نے جس قدر بھاگ دوڑ کی‘ وہ میں ہی جانتی ہوں ‘کیونکہ ان کے درمیان این آر او کروانے کیلئے وہ کئی کئی رات سفر میں رہنے کی وجہ سے سو ہی نہ سکی تھی‘‘۔ اسی کتاب میں ایک جگہ کونڈا لیزا رائس لکھتی ہیں '' 8 اگست2007ء کو جنرل مشرف مارشل لاء نافذ کرنے والے تھے‘ لیکن میری سخت مداخلت پر انہیں ارادہ بدلنا پڑا‘ جس پر صدر بش نے انہیں You pulled it off کہتے ہوئے سراہا۔ کاش بلاول کبھی کونڈا لیزا رائس کی کتاب پڑھ لیتے‘ تو وہ جان جاتے کہ سلیکٹڈ صدر اور وزیر اعظم کون تھے؟بلاول بھٹو ؛اگر رچرڈ بائوچرکا انٹرویو دیکھ لیتے‘ جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جولائی میں ان کی کوششوں سے بے نظیر بھٹو کی جنرل مشرف سے دبئی میں ملاقات کرا ئی گئی۔ پی پی پی نے جنرل مشرف اور امریکہ کے پائوں پکڑتے ہوئے‘ 2008ء میں امریکہ سے اپنی سلیکشن کروائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول کو آئینہ دیکھتے ہوئے ہمیشہ اپنی شکل ہی نظر آتی ہے۔2008ء میں کس نے سلیکٹ کیا اور پھر2013 ء میں کس طرح سندھ میں بٹھایا گیا ؟اس کی خبر بلاول بھٹو زرداری کے والد محترم آصف علی زرداری سے زیا دہ کون جا ن سکتا ہے۔
بلاول بھٹو کو کبھی وقت ملے تو وہ اپنے والد زرداری صاحب کے ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الہٰی سے پوچھ لیں کہ 2007 ء میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کانگریس اور سینیٹ کے اراکین سے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر کیا کہا تھا؟ اگر نہیں معلوم تو سن لیجئے :جو بائیڈن نے کہا '' ق لیگ ؛اگر پنجاب یا مرکز میں جیت بھی گئی تو امریکہ ان انتخابات کو منظور نہیں کرے گا‘‘ کیونکہ امریکی سی آئی اے اپنے ایجنڈے کیلئے پی پی پی کی سلیکشن کا فیصلہ کر چکی تھی۔ بلاول زرداری؛ اگر سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے‘ تو چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت سے پوچھ لیں؛ اگر ایک لفظ بھی غلط ہوا تو میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ ا س لیے بلاول صاحب کو سلیکشن یا سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے ۔
بلاول بھٹو کو ''مذاق رات‘‘ کے گزشتہ ایک برس کے پروگرام دیکھ کر اندازہ کر لینا چاہیے کہ کراچی کا وہ طبقہ جو انتخابات کے روز کبھی بھی گھروں سے نہیں نکلا تھا ‘وہ اگر کروڑوں سامعین کی موجودگی میں بتا رہا ہے کہ زندگی میںانہوں نے پہلی مرتبہ اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو ووٹ دیا۔ کیا یہ اقرار اس بات کی تصدیق نہیں کہ کراچی سے عمران خان کو ملنے والا مینڈیٹ پی پی پی کو سندھ سے ملنے والے سلیکٹڈ مینڈیٹ کی بجائے بالکل اصلی ہے اور اسی کراچی میں بیٹھے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو لیاری کے حلقہ انتخاب سے پی ٹی آئی نے جس طرح شکست سے ہمکنار کیا‘ وہ زخم گو کہ بہت گہرے ہیں ‘کیونکہ وہ لیاری جو کل تک پی پی پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا‘ اس نے کسی اور کو نہیں‘ بلکہ آصف علی زرداری کے بیٹے کو شکست سے دوچار کر دیا اور اگر آصف علی زرداری اپنے بیٹے بلاول زرداری کی اس شکست کی وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ‘لیاری میں عام انتخابات سے پہلے ملک کے تمام ٹی وی چینلز کے کروائے گئے سرویز کو دیکھنے کی زحمت کر لیں ‘جن میں ہر کیمرے کے سامنے لیاری کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں یہ اعلان کرتی دکھائی دے رہی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے عمران خان کو ووٹ دیں گی۔ اس لئے بلاول بھٹو کو لیاری کے غریبوں کی آواز پر یقین کرتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ عمران خان سلیکٹڈ نہیں برائے الیکٹڈ وزیر اعظم ہیں ۔
26 اپریل کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے میرے کالم ''نیرو کا راگ‘‘ کو حوالہ بناتے ہوئے تعلیمی صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ‘ لیکن بد قسمتی یہ ہوئی کہ سندھ حکومت نے نہ جاگنا تھا ‘نہ جاگ سکی اور اپنی آنکھیں بند کئے اسی طرح بیٹھی ہوئی ہے ‘جیسے تعلیم کے شعبے میں 18 ویں ترمیم کے نشے نے اسے بد مست کر دیا ہو۔ آج جب یہ کالم لکھ رہا ہوںتو یہ خبریں آ رہی ہیں کہ سندھ میںفزکس کے امتحانی سوالات اور اس کے جوابات کی حل شدہ کاپیاں مارکیٹ میں کھلے عام بک رہی ہیں‘ اسی طرح کیمسٹری اور بیالوجی سمیت انگریزی اور ریاضی کے امتحانی سوالات کی مارکیٹ میں دستیابی کی دھوم تو کب سے ٹی وی چینلز پر پڑی ہوئی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم نے نہیں‘ وزیر اعلیٰ نے نہیں‘ بلکہ کراچی تعلیمی بورڈ کے چیئر مین نے ایف آئی اے کو خط لکھتے ہوئے تعلیم پر بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی کی جانب سے کئے جانے والے ان خود کش حملوں کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
کسی بھی ملک اور معاشرے کی نئی نسل کیلئے بنیادی عنصرتعلیم پر سندھ بھر میں کی جانے والی راہزنی سے لگتا ہے کہ نہ تو بلاول بھٹو زرداری کو اس پر کوئی پریشانی ہے اور نہ ہی ٹویٹر پر بیٹھی ہوئی بختاور اور آصفہ کو۔ شاید ان کا ٹویٹر صرف عمران خان کی فریکوئنسی پر فٹ ہو چکا اور انہیں اپنے گھر کی فکر ہی نہیں اور شاید وہ چاہتی ہیں کہ اگر یہ لوگ واقعی ہی پڑھنا شروع ہو گئے‘ تو ان کی تعلیم اور تعلیمی اداروں میں دلچسپیاں بڑھنا شروع ہو گئیں‘ ان کے ہاتھ سخت محنت اور توجہ سے کی گئی سال ہا سال کی پڑھائی کی بدولت ہی ڈگریاں وصول کر سکیں گے‘ تو انہیں شعور بھی آ جائے گا‘ انہیں احساس ہونے لگے گا کہ جس ہسپتال میں وہ ڈاکٹر تعینات ہیں ‘وہاں آنے والے مریضوں کیلئے مسیحا بن کر رہنا ہے۔
سٹریٹ کرائمز کی طرح امتحانی سوالات کی جس طرح سندھ بھر میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے‘ بدقسمتی کہہ لیجئے کہ یہ خطرناک اور کینسر سے بھی موذی مرض پنجاب کے سیکنڈری تعلیمی بورڈز میں بھی سرایت کر چکا۔ یہ بورڈز جن حضرات کے حوالے کئے گئے‘ انہوں نے تو گھروں میں ہی سینٹر بنا تے ہوئے کم ازکم دس ہزار سے زائد لڑکے‘ لڑکیوں کو میٹرک ایف ایس سی میں فرسٹ ڈویژن اور سکالرز دلوا دیئے ہیں ۔