ممبئی کا سالانہ پراپرٹی ٹیکس400 ملین ڈالر اور بنگلور کا 201 ملین ڈالر جبکہ انڈیا کے ان دونوں بڑے شہروں کے مقابلے میں لاہور کا سالانہ پراپرٹی ٹیکس32 ملین ڈالر کے قریب ہے۔2017ء میں لندن کے میئر کے لیے صادق خان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد دس لاکھ اور 1994ء میں ترکی کے طیب اردگان کے بطور میئر استنبول حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی دس لاکھ کے قریب تھی۔ یہی طیب اردگان آج ترکی کے سب سے زیا دہ مقبول لیڈر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ۔ نواز لیگ کے کرنل مبشر یونین کونسل138 سے کونسلر منتخب ہونے کے بعد لاہور شہر کے میئر منتخب ہوئے تو ان کے حاصل کر دہ ووٹوں کی تعدادچند ہزار بھی نہیں تھی اور بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ملک میں مروجہ سیاسی کاروبار کے ذریعے کہیں ڈنڈے تو کہیں پھندے کے ذریعے حکومتِ وقت کی کٹھ پتلیوں کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے کہیں میئر تو کہیں ضلع اور کہیں تحصیل ناظم منتخب ہوتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک نے جی بھر کر اس ملک کے وسائل کو لوٹا۔ وہ وہی کچھ کرتے رہے جو ان کے سر پر ڈنڈا لئے ہوئے حکمران یا ان کے دو نمبر قسم کے لیڈر چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج استنبول کی حالت کا موازنہ اگر لاہور سے کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔گذشتہ ایک برس میں لاہور کے سابق میئر کی زیر قیا دت کام کرنے والے اداروں نے لاہور کے چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر ناجائز جرمانے صرف اس لئے عائد کئے تاکہ ان سب کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ابھارا جائے ۔چھوٹے چھوٹے چائے کے کھوکھے والوں کو کہا گیا کہ تمہارے کھوکھے کے نیچے یہ کاغذ کا ٹکڑا گندگی پیدا کر رہا ہے اس لئے تمہیں پانچ سو روپے جرمانہ۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ یہ ڈرامہ میری آنکھوں کے سامنے نقی مارکیٹ سے بہت پیچھے ایک گلی میں کیا گیا اور اس بے چارے کو قید سے بچنے کے لئے پانچ سو روپیہ جرمانہ ادا کرنا پڑا جبکہ انہی میئر صاحب کے دفتر اور گھر کے باہر ضائع کئے گئے کاغذات کے ڈھیر نظر آرہے تھے۔
پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2019ء کے مطا بق اس کے تحت تمام مقامی حکومتوں کے لئے بیرونی قرضوں سے نہیں بلکہ ملکی وسائل سے400 ارب روپے ان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کئے جا رہے ہیں اور ان میں سے110 ارب روپے بلدیاتی سہولیات کے لئے ہوں گے جو کل رقم کا تیس فیصد بنتا ہے جبکہ نواز لیگ کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے مختص کی گئی رقم صرف50 ارب روپے تھی اور وہ بھی جب تک وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ لاہور کسی منصوبے کے لئے اجا زت نہیں دیتا تھا تو ایک روپیہ بھی عوامی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی۔ آج جب ہم استنبول اور تہران کی خوبصورتی اور ترقی دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تہران کا سالانہ ٹیکس 70 ارب کے قریب ہے‘ جو اسی شہر سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔ اگر کراچی‘ لاہور ‘پشاور‘ فیصل آباد ‘ملتان اور بہاولپور کا ٹیکس بھی براہ راست انہی شہروں سے وصول کیا جائے اور انہی شہروں پر ہی دیا نتداری سے خرچ کیا جائے تو اندازہ کیجئے کہ چند سالوں میں ان علا قوں کے فلاحی منصوبے کس قدر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کل تک ان تمام بلدیاتی نمائندوں پر وزیر اعلیٰ اور ان کے خاندان کی حاکمیت کی تلوار ہوتی تھی تو چھوٹے شہروں اور ضلعوں میں مقامی طاقتور وزرا اور اراکین اسمبلی کی بادشاہت قائم تھی۔ ضلع قصور کے ایک چھوٹے سے قصبہ کھڈیاں کی ہی مثال سامنے رکھیں تو عام انتخابات کے دوران حمزہ شہباز شریف وہاں نواز لیگ کے انتخابی جلسے کے لئے تشریف لائے تو جلسہ مسلم لیگ نواز کا تھا‘ جو ایک سیا سی جماعت ہے اور حمزہ شہباز شریف جو آج خود کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرماتے رہتے ہیں کہ وہ تو کسی سرکاری پوزیشن میں نہیں تھے‘ نیب نہ جانے انہیں کیوں بلا رہا ہے‘ تو ان کی جلسہ گاہ کو ہموار کرنے‘ وہاں مٹی ڈالنے اور کرسیاں وغیرہ رکھنے کے لئے مقامی بلدیاتی ادارے سے چار لاکھ روپے سے زائد خرچ کرا لئے گئے۔ کھڈیاں کی عوام کے ٹیکسوں اور محنت کے یہ چار لاکھ روپے یا شاید اس سے بھی زائد جو مسلم لیگ نواز اور حمزہ شہباز کے انتخابی جلسۂ عام کے لئے مٹی کی نذرکر دئیے گئے‘ اس کے ذمہ دار یہی بلدیاتی اداروں کے فرسودہ قوا نین اور حاکموں کی خوشنودی ہے۔ اگر ان چار لاکھ روپوں سے اسی جلسہ گاہ میں شیلٹر دکانیں بنا دی جاتیں تو اس سے بے تحاشا بڑھتے ہوئے کھٖڈیاں کے قصبے کی ٹریفک اور جگہ جگہ ریڑھیوں اورٹھیلوں کی بھیڑ سے نجات ملنے کے علا وہ خواتین کو با عزت طریقے سے ان شیلٹرز والی دکانوں میں گرمی سردی دونوں موسموں میں خریداری کرتے ہوئے کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہوتی۔ اگر کھڈیاں کاسابق بلدیاتی ادارہ سمجھتا ہے کہ ان شیلٹر دکانوں کے لئے زیا دہ رقم کی ضرورت تھی تو ان چار لاکھ روپے میں دو چار لاکھ اور جمع کر لئے جاتے تو یہ نواز لیگ کے لئے تیار کی گئی جلسہ گاہ کی مٹی بن کر گرد کی طرح تو نہ اڑتے۔اب سوچئے لاہور شہر میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے ان سے بے شک عوام کو کچھ سہولتیں ملیں لیکن ان ترقیاتی کاموں کی منظوری لارڈ میئر نے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم نے دی ہے۔ ستم دیکھئے کہ ان میٹرو اور پلوں کے سلسلے میں اربوںڈالر کے جو قرضے پنجاب کی عوام پر لادے گئے وہ صرف لاہور شہر نے نہیں بلکہ پورے پنجاب کے عوام نے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔
آج ملک میں جو مہنگائی مختلف شکلوں میں برس رہی ہے اس کی ایک وجہ یہی بھاری بیرونی قرضے ہیں۔ سابق بلدیاتی نظام کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ میئر‘ ناظم اور چیئر مین کو ایک ایک کونسلر کے ناز نخرے اٹھانے پڑتے تھے بالکل اسی طرح جس طرح پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو ہر رکن قومی اور صوبائی اسمبلی کی نت نئی فرمائشیں سننی اور ماننی پڑتی ہیں بلکہ آج تو یہ نوبت ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم کسی منسٹر یا رکن اسمبلی کی کرپشن یا غیر ذمہ دار رویے کو دیکھنے کے بعد اس کی جواب طلبی کرتے ہیں تو باہر نکلتے ہی وہ پارٹی چھوڑنے کی دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔
گزشتہ بلدیاتی نظام میں یونین کونسل کی اوسط آبادی بائیس ہزار کے قریب تھی جبکہ پنجاب بلدیاتی ایکٹ2019ء میں ویلج کونسل کی کل آبادی3500 سے زیا دہ نہیں ہو گی۔ اب سوچئے کہ آپ کے پاس پانچ لاکھ روپے تھے تو آپ کو بائیس ہزار لوگوں پر اس روپے کو خرچ کرنا ہوتا تھا لیکن جب یہ آبادی3500 افراد کی رہ جائے گی تو یہ پانچ لاکھ روپے چھوٹی سی آبادی کو سہولتیں دینے کے لئے خرچ کئے جائیں گے تو اس آبادی کو کس قدر بہتر سہولتیں میسر ہوں گی۔تحریک انصاف کی حکومت جو بلدیاتی نظام لے کر آ رہی ہے اس کے اعداد و شمار دیکھنے میں تو بے شک بہت ہی خوش کن بتائے جا رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ان پر عملدر آمد کیسے ہو گا ؟کہیں یہ بھی دوسرے فرسودہ اور مسترد نظاموں کی طرح الٹا گلے ہی تو نہیں پڑ جائے گا؟افسوس کہ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی سے یہ ایکٹ منظور ہونے سے پہلے ایک بھی ترمیم پیش کرنے کی ضرورت نہ جانے کیوں محسوس نہیں کی۔لیکن میری ایک تجویز ہے کہ میئر اور ضلع و تحصیل ناظمین یا سربراہوں کے لئے یہ شرط رکھ دی جائے کہ جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں سمیت کسی قبضہ گروپ یا سابقہ بد دیانت اہلکار کو اس میں حصہ لینے کی اجا زت نہ دی جائے۔ اگر اس ترمیم کو اس نظام کاحصہ بنا لیا جائے تو اس سے نئے بلدیاتی نظام میں صاف ستھرے لوگ آ ئیں گے۔