"MABC" (space) message & send to 7575

گھروں کی فراہمی کا آغاز!

مائوزے تنگ جب عظیم انقلاب کے لیے نکلے تو ایک کامریڈ کہنے لگا :منزل ایک ہزار میل سے بھی زائد فاصلے پر ہے۔ جس پر مائو نے بلند آواز سے کہا : ایک ہزار میل تک پہنچنے کے لیے پہلا قدم ہم نے اٹھا لیا ہے اور وہ دیکھو منزل ہمارے سامنے ہے۔شاید یہی وہ پہلا قدم ہے جو وزیر اعظم عمران خان نے بھی بلوچستان کے بعد پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے رینالہ خورد میںگھروں کی فراہمی کے وعدے کا آغاز کرتے ہوئے بڑھا دیا ہے۔اس وعدے اور احساس کی تکمیل کے لیے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وزارتِ ہاؤسنگ پنجاب اوراس کے متعلقہ وزیر میاں محمود الرشید کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہو گی۔
یہ ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں لگتی‘ لیکن جب ہم دنیا بھر میں صدیوں پہلے بسائے گئے شہر وں کی جانب دیکھتے ہیں تو پھر خیال آتا ہے کہ آج کے جدید ترین دور میں نئے شہر کیوں نہیں بس سکتے؟ اگر فرہاد ایک تیشے سے پہاڑوں سے دودھ کی نہر نکالنا شروع کر سکتا ہے تو پھر عمران خان ‘ میاں محمود الرشید اور Punjab Housing and Town Planning Agency (PHATA )کے لیے مکانوں کا یہ منصوبہ کس طرح ناممکن ہو سکتا ہے؟ 
گئے وقتوں میں جب آج کے دور جیسی سہولتوں کا عشر عشیر بھی نہیں تھا تو بادشاہوں کے تعمیر کرائے گئے بڑے بڑے محلات اور ایکڑوں پر محیط قلعے دیکھنے کے بعد عقل دنگ رہ جاتی ہے تو آج کی دستیاب جدید ترین سہولتوں اور ہر قسم کی افرادی اور مشینی قوت کی موجود گی کے بعد حکمرانوں اور عوام کی یہ سوچ اور مطالبہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ نیت نیک ہو تو کوئی مشکل نہیں‘ ناممکن بھی ممکن ہو سکتاہے۔ کوئی بھی حکومت اگر صحیح معنوں میں غریبوں کا درد رکھتی ہو تو اس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اس ملک کے عوام کو دیئے جانے والے ماہانہ مشاہروں کے مطا بق منجمد کر دیا جائے‘ چاہے اس کے لیے کسی بھی قسم کی سبسڈی فراہم کرنی پڑے ‘لیکن یہ کام یوٹیلٹی سٹور کے ڈراموں کی نظر نہ کیا جائے۔
رینالہ خورد میں تین اور پانچ مرلے کے گھروں کی قیمتیں بالترتیب16 اور21 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہیں اور اس وقت تین ہزار سے زائد درخواستیں متعلقہ حکام کو موصول ہو چکی ہیں جبکہ یہاں پر نقشہ جات کے مطا بق گھروں کی تعداد شاید12 سو کے قریب ہے جو بہت ہی کم ہے۔ممکن ہے وزیر اعظم عمران خان اورPHATA حکام تک یہ تجویز پہنچ سکے اس لیے کہنا چاہوں گا کہ وزیر اعظم نے اپنی ہر تقریر میں کہا تھا کہ وہ ایک ایک گھر نہیں بلکہ فلیٹس تعمیر کریں گے تاکہ زرعی رقبے کی کم از کم جگہ استعمال کی جا سکے‘ جبکہ رینالہ خورد کی سکیم جس کا وزیر اعظم عمران خان نے چار مئی کو افتتاح کیا ہے‘ اگر یہاں پر تین منزلہ فلیٹس تعمیر کئے جائیں تو یہاں بنائے گئے گھروں کی تعداد چار ہزار کے قریب ہو سکتی ہے اور گرائونڈ کے بعد پہلی‘ دوسری اور تیسری منزل کے گھروں کی قیمتیں بھی مزید کم ہو تی جائیں گی ۔ عید الفطر کے بعد پنجاب کے بارہ سے زائد اضلاع میں جن ہاؤسنگ منصوبوں کا افتتاح ہو نے جا رہا ہے‘ ان کی ا بھی سے ہی اس تجویز کے مطابق پلاننگ کر لی جانی چاہیے ۔
پنجاب کے وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشید کے مطا بق؛ رینالہ خورد کی اس سکیم کے لیے 80 فیصد در خواست دہندگان نے کسی بھی بینک سے قرضہ لینے کی بجائے نقد اور فوری ادائیگی کا اظہار کیا ہے ۔تاہم وزیر اعظم کے علم میں ہو گا کہ اس ملک میں دسیوں لاکھ ایسے خاندان بھی ہیں جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہے ؛چنانچہ ملک بھر کے شہروں‘ تحصیلوں‘ قصبوں اور دیہات میں تعمیر کئے جانے والے فلیٹس میں سے کچھ گھر احساس پروگرام‘ بیت المال‘ بے نظیر انکم سپورٹ اور ملک بھر کے مخیر حضرات کے سپرد کر تے ہوئے ان مقامات پر صاف اور شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے ایسے خاندانوں میں مفت تقسیم کر دینے چاہئیں ۔ جانتا ہوں کہ وزیر اعظم تک یہ تجاویز شاید نہ پہنچ سکیں مگر پھر بھی اپنے حصے کا فرض نبھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ ملک بھر کے سرکاری ملازمین سمیت تمام ایسے بے گھر لوگ جو آج کی خوفناک مہنگائی کے سمندر میں غوطے کھا تے ہوئے زندگی کے دن پورے کررہے ہیں ان سے کسی قسم کا ایڈوانس لئے بغیر صرف ان کی ماہانہ تنخواہوں سے بطور کرایہ قسط وار مطلوبہ رقم کاٹ کر گھر الاٹ کر دیئے جائیں تو نسل در نسل کرائے ادا کرنے والے ان خاندانوں کے لیے یہ اپنی چھت ایک بڑی نعمت ہو گی۔
تین سو سال قبل حضرت بابا بلھے شاہؒ نے کہا تھا'' منگ او بندیا رب کولوں جُلی‘ گُلی تے کُلی‘‘۔ شہروں اور دیہات کی غریب آبادیوں‘ سڑکوں اور میدانوں میں بنی جھونپڑیوں اور تنگ و تاریک مکانوں میں رہنے والوں کو دیکھ کر کون ہے جسے دکھ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ نسل در نسل اسی طرح کیوں زندگیاں گزارتے چلے آ رہے ہیں؟ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں خوراک اور لباس کے ساتھ سب سے اہم رہائش ہے‘ جو ہمارے ملک کے کسی بھی صوبے میں تمام لوگوں کو میسر نہیں۔ اسلام آباد جسے بنایا ہی ملک کے صدر مقام کے لیے گیا تھا‘ وہاں بھی نچلے اور درمیانے ملازمین تو کجا سارے افسران کے لیے بھی مکانات دستیاب نہیں اور اس قلت کی وجہ فنڈز کا نہ ہونا نہیں تھا بلکہ اعلیٰ 
حکام کی خود غرضی اور ان کا مفاد پرستوں سے گٹھ جوڑ ہے ۔اس کمی کو دور کرنے کے لیے صرف اتنا کرنا ہو گا کہ ہنگامی طور پر اور نیک نیتی کے ساتھCDAکواسلام آباد میں نئے سیکٹر کھولتے رہنا چاہیے‘ جس سے نجی شعبے میں مکانات بنتے رہیں‘ لیکن افسوس یہ دونوں کام نہیں کئے گئے‘ بلکہ جوسرکاری گھر موجود ہیں ان کی الاٹمنٹ میں بھی رشوت اور سفارش کا عمل دخل بڑھتا گیا ہے ۔ساتھ ہی نجی گھروں کے کرائے بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلا آباد میں کرایہ کنٹرول کا قانون نافذ نہ کیا جاسکا ۔سرکاری افسران کے لیے جب سی ڈی اے نجی رہائش گاہوں کو کرایہ پر حاصل کرتی تو مالکان کے وارے نیارے ہو جاتے کیونکہ ان مالکان میں اکثریت اعلیٰ سرکاری افسران ‘ ان کے رشتہ داروں ‘ قبضہ گروپوں اور منشیات فروشوں جیسے دوسرے مافیا کی ہوتی ۔
اسلام آباد پر نظر ڈالیں تو اس کی تعمیر سیکرٹریٹ سے مغرب کی طرف شروع کی گئی اور آج بھی اس کا بہائو مغرب کی طرف ہی ہے‘ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ جنوب کی طرف بھی سیکٹر بنائے جاتے‘ جس سے توازن برقرار رہنے کے علاوہ فاصلے بھی کم ہوتے ۔ایک ہی طرف پھیلائو سے ملازمین کو دفاتر آنے جانے میں بڑا وقت لگنے کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا خرچ بھی بڑھ چکا ہے‘ لیکن اب دیکھئے کہ جنوب کی جانب خوشحال اور امرا کے لیے شاندار رہائشی سکیمیں سر اٹھا رہی ہیں جبکہ ا ن علا قوں کے ہزاروں غریب مزدور اور سرکاری ملازمین کرایہ داری کے چکر میں در بدر دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
ملک بھر میں تعمیر کئے جانے والے فلیٹس کے ہر سیکٹر کا نقشہ اس طرح ہونا چاہئے کہ دونوں طرف فلیٹس اور درمیان میں مارکیٹ ‘ سکول‘ہسپتال اور دوسری سہولیات میسر ہوں اور ان فلیٹس کا رقبہ150سے250 مربع میٹر ہونا چاہئے ۔ تسلیم کر لینا چاہئے کہ وزیر اعظم عمران خان کی بقیہ چار سالہ حکومت میں کسی طور بھی پچاس لاکھ گھر تعمیر نہیں کئے جا سکتے ۔ حقیقت تسلیم کر لینے میں ہی عظمت ہے‘ لیکن حکومت اپنی مدت اقتدار میں پانچ لاکھ گھر بھی مکمل کر لیتی ہے تو یہ بھی ملکی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔یاد رکھئے آخری چار گیندوں پر 24 سکور تو کئے جا سکتے ہیں لیکن؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں