پاکستان نیوی کی سپیشل سروسز گروپ کے جانب سے گزشتہ دنوں گوادر اور اس کے اردگردسمندر میں تیرتے ہوئے بحری بیڑے اور پھر تربت‘ ارماڑہ میں بلوچستان کی عوام کیلئے پاک بحریہ کی ذاتی کاوشوں اور فنڈز سے قائم کئے گئے سکولز‘ کالجز‘ ہسپتالز اور دستکاری سینٹر زدیکھتے ہوئے حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ یہ تمام مفت سہولتیں‘ پاکستان کے مختلف نیول چیفس کے وہ تحفے ہیں‘ جو یہاں کی عوام کیلئے بطورِ خاص دئیے گئے ہیں‘ تاہم اس موقع پر ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ اگر ایسی سہولیات بلوچستان بھر میں قیام ِپاکستان کے فوری بعد سول حکومتوں کی جانب سے یہاں کے عوام کو میسر آ جاتیں‘ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے بلوچ سرداروں کے چنگل سے کب کے آزاد ہو چکے ہوتے۔اگر کبھی موقع ملے‘ تو آپ خود جا کر دیکھیں کہ پاک بحریہ کے یہ سکولز‘ کالجز اور دستکاری سینٹر زکس طرح آنکھوں کو بھاتے ہیں اور جس قسم کی سہولیات یہاں میسر ہیں‘ اس کے نصف کیلئے پنجاب اور سندھ سمیت پورے پاکستان میں لوگ ہاتھوں میں بھاری نوٹ لئے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ اس مطالعاتی دورے کے دوران گوادر میں سپیشل سروسز گروپ کے جوانوں اور افسروں کے ساتھ تصویریں بنواتے ہوئے‘ میں ایک جوان سے ایسے ہی پوچھ بیٹھا کہ کبھی آپ کا نشانہ خطا بھی ہوا ہے ؟تو اپنے مکمل کیمو فلاج ڈریس میں اس نشانہ باز‘ جس کے ساتھ میری تصویر آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے‘ نے اپنے چہرے پر ایک عزم سجاتے ہوئے کہا کہ میرا پاکستان کے دشمنوں کے خلاف نشانہ‘ کبھی بھی خطا نہیں ہوا ‘ لیکن یہی عباس خان گزشتہ دنوں وطن دشمنوں کے بھیجوں کو چھلنی کرتے ہوئے ‘ان کے پھینکے گئے دستی بموں کی وجہ سے شہادت کے بلند مرتبے پر اس طرح فائز ہوا کہ اپنی دو ماہ کی بیٹی کو بھی نہ دیکھ سکا‘ تاہم دنیااسے اب اس کی بیٹی ہونے کے وجہ سے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھے گی۔
گیارہ مئی کو پانچ بجنے سے دس منٹ پہلے جیسے ہی اطلاع ملی کہ گوادر پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے‘ تو یکدم سب کاگوادر پورٹ اور وہاں چینی انجینئرزکی جانب دھیان چلا گیا‘ کیونکہ ابھی کوئی چار ہفتے قبل 18 اپریل کو گوادر کراچی کوسٹل ہائے وے پر ہمسایہ ملک میں پناہ لئے ہوئے دہشت گردوں نے رخصت پر جانے والے پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں کو جس طرح رات گئے ‘بسوں سے شناخت کرتے ہوئے بے رحمی سے شہید کیا تھا‘ وہ واقعہ سب کے ذہنوں میں تھا۔ کچھ ہی دیر بعدبتایا جانے لگا کہ گوادر کے واحد پنج ستارہ پی سی ہوٹل کے اندر بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہو چکے اور ہوٹل کے دروازے کے باہر کھڑا ایک سیکورٹی گارڈ‘ ان سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو چکا۔ یہ سنتے ہی ایک لمحے کو ایسالگا کہ کسی نے دل مٹھی میں لے لیا ہو‘ خیال آنے لگا؛ ممکن ہے کہ دہشت گردوں کاکوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ ہوٹل کے اندر موجود ہو۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی پریشان کر گیا کہ اس دہشت گردانہ کارروائی سے دشمن نے گوادر او ر اس کے ارد گرد بیرونی سرمایہ کاری کیلئے آنے والوں کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے‘ کیونکہ چین میں حالیہ BRI کانفرنس کے ممکنہ نتائج اور سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے سربراہوں کی گوادر میں آئل ریفائنریز لگانے کے منصوبوں کو اس دہشت گردانہ کارروائی سے دھچکا لگ سکتا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اسے میری مبا لغہ آرائی سمجھیں یا پاکستان نیوی کی شان میں قصیدہ گوئی‘ لیکن میں نے پاکستان نیوی کے میرین اور آپریشنل افسران کے ساتھ جو چند دن گزارے ‘ ان کے ہمراہ سر کریک کی آخری لیاقت چیک پوسٹ تک ‘جس طرح سمندر کی تند وتیز لہروں کو چیرتے ہوئے ہمسفر رہا ‘ جسم کو جھلساتی ہوئی گرمی میں‘ جس طرح میں نے انہیں بلوچستان کے کھردرے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہرہ دیتے ہوئے‘ ان کی آنکھوں میں وطن کی محبت کو چمکتے ہوئے دیکھا‘ اس نے مجھے حوصلہ دیا کہ مبینہ دہشت گرد پی سی ہوٹل میں داخل تو ہو گئے ہیں ‘لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے مقابلے کیلئے پاکستان کے وہ بیٹے اور جانباز چلے آئے ہیں‘ جن کے قدموں کی دھمک سے سمندر کی لہریں راستے بدل دیتی ہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بجلی کی سی تیزی سے پاکستان نیوی کی سپیشل فورسز کے نوجوان پی سی گوادر پر قابض بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے انتہائی جدید ترین اسلحے سے لیس دہشت گردوں کو خاک چٹانے کیلئے وہاں پہنچ چکے تھے۔
46 ممالک پر مشتمل امن مشق19کے دوران منوڑہ میں پاک بحریہ کی سپیشل فورسز نے اپنی مہارت اور شیر دلی کے جو مظاہرے کئے‘ انہیں دیکھتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ترکی اور آسٹریلیا کے اعلیٰ نیول آفیسر ز‘اش اش کر اٹھے تھے‘ جس پر دل بے ساختہ پکار اٹھا '' شالا نظرنہ لگے‘‘ مائوں کے یہ لال ہی تو دشمن کے گولوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی وہ دیوار ہیں ‘جو ہمیں اپنی عزتوں سمیت محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ پی سی ہوٹل کے عقب میں کھلا سمندر ہے ‘جس کے دوسری جانب ایران ہے اور سمندر کے اس حصے میں شام ہوتے ہی سمندری ہوائیں چلنے سے مقامی لوگوں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے‘ لیکن گوادر میں قائم ہوٹلوں کے ارد گرد تنگ گلیاں بھی ہیں‘ اس لئے سمندر اور شہر کے اندر سے بھی ان دہشت گردوں کی آمد کا گمان ہو سکتا ہے‘ لیکن دونوں صورتوں میں مقامی سہولت کار شامل ہیں۔ گوادر کے اندر موجود ا نٹیلی جینس سسٹم کو پہلے سے بڑھانا ہو گا اور اسے میری ایک عام تحریر سمجھ کر نظر انداز مت کیجئے‘ کیونکہ دہشت گرد ‘جن کے پاس دستی بموں سے لے کر ہر قسم کا جدید ترین خود کار اسلحہ وافر تعداد میں موجود تھا اور ہوٹل کے اندر داخل ہو نے کے بعد وہ سیمنٹ اور پتھروں کی بنی ہوئی اس مضبوط عمارت کو اپنے مورچے بنا کر کسی بھی جانب سے آنے والی گولیوں اور بموں سے محفوظ ہوتے ہوئے ایسی پوزیشن میں آ گئے تھے کہ ایک ہلکی سی آہٹ کے گمان پر بے تحاشا گولیوں اور دستی بموں کی بارش کر نے لگے اوراس قسم کی صورت حال میں کسی گوشت پوست کے انسان کا ان کے قریب پہنچنا تو دُور کی بات ہے‘ کہیں دُور سے اپنی ہلکی سی جھلک دکھانا بھی ناممکن ہو چکا تھا ‘لیکن وطن کی محبت میں ڈوبے ہوئے انہی جانبازوں کیلئے ہی تو کہا گیا ہے ''بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق-عقل حیران ہے محو تماشائے لب بام ابھی ‘‘ ۔
گوادر پورٹ پر لنگر اندازپاکستان نیوی کے جہاز پر ہمارے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں ایک جوان سے ہنستے ہوئے پوچھا :کبھی عشق وشق بھی کیا ہے؟اس نے جو کہا‘ آپ کو کچھ عجیب سا لگے گا‘ اپنی یونیفارم پر لگے پاکستانی پرچم کو چومتے ہوئے اس نے کہا : سر‘ یہی میرا عشق ہے۔پی سی گوادر صرف ایک ہوٹل نہیں‘ بلکہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان کی شناخت اور عزت و آبرو بن چکا تھا‘ جہاں اس وقت بہت سے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں اور اس پر بھارت کے سدھائے ہوئے ناپاک ایجنٹوں کے رکھے ہوئے قدم دل میں ایک آتش فشاں بھڑکائے ہوئے تھے کہ نہ جانے کیا ہو۔ ایسے میںاچانک پاک بحریہ کے جہازکے عرشے پر SSGN کے الفاظ یاد آگئے‘ جن سے دل کو تسلی ہوئی اور منہ سے بے اختیار نکلا:Well-done۔