"MABC" (space) message & send to 7575

ہمالیہ سے بلند

امریکی سنٹرل کمانڈ کی رپورٹ کے مطا بق سی پیک دو ملکوں کے درمیان اقتصادی پیکیج ہی نہیں بلکہ امریکی مفادات اور سیا ست کی موت کی جانب پہلا قدم ہے‘ جسے اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ کو ہر طریقے سے ختم کرنا ہو گا۔ امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی بھارتی نیول چیف نے نریندر مودی پر واضح کر دیا ہے کہ گوادر بندرگاہ کے بعد پاکستان بھارت کے نشانے سے نکل جائے گا ۔ سینٹ کام اور بھارت کی اس رپورٹ کے بعد بلوچستان میں یکدم ابھرنے والی دہشت گردی سی پیک پر امریکی اور بھارتی تحفظات کو واضح کر رہی ہے۔ امریکی جنرل جوزف واٹل کے مطا بق اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ سی پیک کی آڑ میں چین صرف ایشیا سے افریقہ تک خشکی اور سمندر میں اپنی مستقل موجود گی قائم کرنے کا خواہش مند ہے اور صرف جبوتی‘ جہاں چین نے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں وہیں تک ہی محدود رہے گا‘ توایسے بیوقوف لوگوں کو چاہئے کہ وہ چین کے سی پیک سے وابستہ پلوں‘ سڑکوں‘ بندگاہوں اور ان ممالک میں معدنیات کی تلاش جیسے اربوں ڈالرز کے پراجیکٹس کو بھی سامنے رکھ کر دیکھیں ۔
امریکی سٹیٹ حکام کا بغداد میں یونیفارم کے بغیر قونصلیٹ سمیت تمام امریکیوں کو فوری طور پر عراق چھوڑنے کا حکم بتا رہا ہے کہ امریکہ خطے کے ارد گرد کچھ کرنے والا ہے۔ عراق سے امریکیوں کے انخلا کے حکم سے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز ابراہام لنکن کی صورت میں خلیج کی جانب پیش قدمی اور ساتھ ہی قطر میں اپنی ہر قسم کی فوجی قوتوں کا ملاپ‘ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ کہہ رہا ہے ۔
سی پیک کے خلاف امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بھارت افغانستان کے اند ر نئے سرے سے بھر پور انٹیلی جنس قوت سے لیس ہوکر بلوچستان کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہے۔ اس کے لیے افغان حکومت اور فوج اس کی ہر طرح سے معاونت کر رہی ہے اور یہ معاونت امریکی منظوری کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ بلوچستان میں بھارت کو سر گرم کرتے ہوئے دوسری جانب امریکہ ایران کا نام لے کر سعودی عرب‘ امارات‘ قطر‘ کویت اور عمان میں خوف کی فضا قائم کئے ہوئے ہے۔ایسے میں بھارتی انتخابات کے آخری مرحلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا نئی دہلی میں سشما سوراج سے ملاقات عجیب سا لگ رہا ہے کیونکہ مودی کے حق میں را کی بھر پور مداخلت کے با وجود پانچ دنوں بعد بھارتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر نئی حکومت اور نئے حکمران آنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اور پاکستان اپنے اپنے طور پر اس دوستی کی گہرائی کا وقتاً فوقتاً ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کے اعتماد پر پورا اترتے رہے ہیں ۔ دونوں ملکوں کی اس دوستی کا چین اور بھارت کی 1962ء کی جنگ سے پہلے کہیں دور دور تک بھی وجود نظر نہ آتا تھا ۔ اس جنگ سے پہلے چین اور ہندوستان کی باہمی دوستی کا پیمانہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں کی گونج میں سنائی دیا کرتا تھا ۔ پھر پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ارد گرد کے تمام ممالک کو اپنے ماتحت ایک کالونی کے طور پر دبائو میں رکھنے کا سوچتے ہوئے پہلا نشانہ چین کو بنانے کا فیصلہ کیا ۔مقصد یہ تھا کہ خطے کے سب سے بڑے ملک کی ایسی مرمت کرا دی جائے کہ باقی سب اپنی اپنی جگہ سہم کر رہ جائیں اور دنیا بھر کو احساس ہو جائے کہ کوئی بھی معاملہ طے کرنے سے پہلے بھارت سے رابطہ کیا جائے ۔ ساتھ ہی پنڈت جواہر لال نہرو چین پر چڑھائی کرتے ہوئے افریقہ اور عرب ممالک پر اپنی فوجی قوت اور مہارت کی دھاک بھی بٹھانا چاہتے تھے۔ اسی قسم کے خواب دیکھتے ہوئے چین کو انتہائی توہین آمیز طریقے سے سبق سکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے چین کی ایک سرحدی پوسٹ پر قبضہ جماتے ہوئے اسے میدان جنگ میں آنے پر مجبور کیا‘ لیکن اگلے ہی لمحے چینیوں نے بھارت کی وہ درگت بنائی کہ نہرو کے پسینے چھوٹ گئے‘جس سے ایشیا ہی نہیں بلکہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک بڑی فوجی قوت سمجھنے والے بھارت کی بری طرح جگ ہنسائی ہو ئی۔ لیکن اس جنگ کے تنا ظر میں'' کُبھے کو ماری گئی یہ ٹانگ اس طرح راس آ ئی‘‘ کہ چین سے بری طرح شکست کھاکربے عزتی تو ہوئی سو ہوئی لیکن اس سے بھارت کو یہ فائدہ ہوا کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت پورا یورپی بلاک کمیونسٹ خطرے کے مقابلے میں بھارت کا اس کے با وجود سر پرست بن گیا کہ روس بھارت کے اندر تک گھسا ہوا تھا۔ امریکہ نے چینی کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لیے بھاری اسلحہ اور مالی امداد کی فراہمی تیز تر کر دی‘ جس سے بھارت نے شہ پا کر اپنے پڑوسی ممالک کو گھورتے ہوئے ایک بار پھر سے ڈرانا شروع کر دیا۔شروع میںچین اور پاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات نے سر اٹھایا لیکن اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان اور چو این لائی نے کمال مہارت اور وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں احسن طریقے سے نپٹا دیا۔ پاکستان نے اپنے کچھ علاقے چین کے حوالے کر دیئے جس سے دونوں ممالک میں بہترین تعلقات کی راہ ہموار ہو گئی۔ کاش کہ یہی رویہ بھارت نے کشمیر پر اختیار کیا ہوتا تو آج برصغیر کے ان دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کی مشکلات کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔
عوامی جمہوریہ چین سی پیک کی تکمیل اور اسے کامیابی اور مکمل سکیو رٹی سے بروئے کار لانے کے لیے46 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے جو یقینا چین اور پاکستان کی معیشت پر دور رس اثرات مرتکب کرنے جا رہے ہیں‘ لیکن سی پیک کے اس منصوبے نے امریکہ‘ بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کے ماتحت اتحادیوں کو جنون میں مبتلا کر کے رکھ دیا ہے اور سب نے مل کر پاکستان کو اس گستاخی پر سبق سکھانے کے لیے دہشت گردی سمیت ہر قسم کے گھٹیا حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں‘ لیکن ان سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان گوادر سمیت سی پیک پر اپنے اٹل فیصلے کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔پاکستان آج اپنی تاریخ کے مشکل ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے‘ جس کی تیاری ایک دن یا ایک سال میں نہیں بلکہ پاکستان کو اپنے سامنے جھکانے کے لیے کئی برسوں سے امریکہ نے اپنے منتخب کردہ حکمرانوں کے ذریعے کی۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان بیرونی قرضوں کی دلدل سے باہر آنے کے لیے جس قدر ہاتھ پائوں مار رہا ہے اس کے پائوں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔ایسے میں کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہی قرضہ جو آئی ایم ایف سے لیا جا رہا ہے‘ چین اسی شرح سود پر اتنے ہی عرصہ کے لیے بغیر کسی معاشی جکڑ بندی کے پاکستان کے لیے مختص کر دیتا‘ تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کے ذریعے درپردہ امریکی بلیک میلنگ سے محفوظ رہتے ہوئے معاشی بحران سے نکل آتا؟ عوامی جمہوریہ چین کو اپنے ڈپٹی چیئر مین سینٹرل ملٹری کمیشنZhang Youxiaکے جنرل باجوہ کے تین روزہ دورہ چین کے دوران کہے گئے وہ الفاظ سامنے رکھنا ہوں گے ''فوجی تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تعلقات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتے ہیں ‘لیکن جناب روس کیا کم فوجی قوت تھی جو اپنی معیشت کی زبوں حالی کا شکار ہو کر بکھر کر رہ گیا ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں