نوے کی دہائی میں بھارتی مفادات کیلئے سول وار کے وہ مائوسٹ گوریلے‘ جنہوں نے نیپال میں خون کی ندیاں بہائیں ‘آج 35 برس بعد ان کے متعلق بھارت بھر میں تحقیقی کاغذات بول بول کر سب کو بتا رہے ہیں کہ ان مائوسٹ کے سیف ہائوسز نئی دہلی میں راء کی زیر نگرانی جگہ جگہ قائم تھے اور ان کوکیرالہ اور دہرہ دون میں گوریلا تربیت دی جاتی رہی۔مائوسٹ لڑاکا فورس کے کمانڈرز Prachanda اور ڈاکٹر بی آر بھتہ رائے کو نیپال میں اس وقت کے بھارتی سفیر شیام سرن جو بعد میں سیکرٹری خارجہ بھی رہے‘ ان کی ہدایات پر بھارتی حدود میں داخل ہوتے ہی سٹیٹ سکیورٹی مہیا کی جاتی تھی اور ان نیپالی مائوسٹ کے واجپائی کی وزارت ِعظمیٰ میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے انتہائی گہرے تعلقات قائم رہے ۔
مذکورہ بالا حقائق اور تجزیہ کاروں کے لکھے ہوئے مضامین ثابت کرتے ہیں کہ نیپال جیسی قدیم قوم کے اندر خانہ جنگی اور ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار بھارت سرکار تھی اور نیپالی مائوسٹ ڈاکٹر بی آر بھتہ رائے نے اپنی تنظیم کو اب نیپال کے ہندو مہاسبائیUpendra Yadev کی پارٹی میں ضم کر دیا ہے۔
سائوتھ ایشیا میں جگہ جگہ بم دھماکوں اور دہشت گردی کے تمام واقعات چیخ چیخ کر بھارت کا نام لے رہے ہیں‘ جس طرح نیپال میں شیام سرن کے نیپالی مائوسٹ کا بھانڈا نامور تجزیہ کار بھرت داہل نے اپنی تحریر میں پھوڑ دیا اور جیسے انسدادِ دہشت گردی سکواڈ مہاراشٹر کے انسپکٹر جنرل پولیس ہیمنت کر کرے نے مالیگائوں بم دھماکوں اور سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی کے مجرم کرنل پروہت‘ میجر رمیش اور سادھوی پرگیا ٹھاکر‘ کودنیا کے سامنے بے نقاب کیا ۔ امریکہ برطانیہ‘ جاپان اور فرانس جیسی عالمی طاقتوں کا منظور نظر ہونے کی وجہ سے بھارت ایک ایسے بائولے کتے کا روپ دھار چکا‘ جو بنگلہ دیش‘ مالدیپ‘ بھوٹان‘ میانمار‘ سری لنکا اور پاکستان کو ہمہ وقت خوف زدہ رکھنے کیلئے اپنے جبڑے کھولے بھونکتا رہتا ہے۔ بھارت کو اس بائولے پن کی وجہ سے تمام عالمی اداروںنے بھی شایدسرٹیفکیٹ دے رکھاہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے منسلک سارک ممالک کو جس طرح چاہے اور جب چاہے کاٹ سکتا ہے۔
نریندر مودی کی زیر نگرانی بھارت ایک ایسی سکہ بند دہشت گرد ریاست بن چکی‘ جو پورے جنوبی ایشیا میں اپنی سرحدوں سے منسلک کمزور ہمسایوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا باعث فخر سمجھتی ہے۔ تیس برس تک LTTE کے ذریعے بھارت نے علیحدہ ریا ست کیلئے سری لنکا میں دہشت گردی کا جو بازار گرم رکھا‘ وہ آج بھی لنکن عوام کیلئے ایک وحشت ناک خواب کی مانند ہے ۔ تیس برس کی اس گوریلا جنگ ختم ہونے کے بعد لنکن عوام ابھی سکھ کا سانس ہی لے رہے تھے کہ اتوار 21 اپریل کو ایسٹر کی عبادت کیلئے جمع ہونے والوں پر سری لنکا کے مشہور اور بڑے چرچوں اور ہوٹلوں میںکروائے گئے بم دھماکوں میں360 سے زائد افراد کی ہلاکتوں اور سینکڑوں زخمیوں کے بہائے گئے خون کے چھینٹوں نے بھارت کی کریہہ جمہوریت کو اور بھی بدنما بنا دیا اور وہ عالمی ضمیر‘ جو بھارت کے اندر گرائی گئی چند لاشوں پر تڑپ اٹھتا ہے‘ کولمبو میں ایسٹر کی تقریبات میں بھارت کی سپانسرڈ دہشت گردی پر زندہ لاشوں کی طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
26/11ممبئی حملوں کے پانچویں روزامریکی وزیر دفاع اور برطانیہ کے وزیر اعظم اظہار ِافسوس کیلئے بھارت جا پہنچے اور نئی دہلی ائیر پورٹ پر اترتے ہی پاکستان کو وارننگ دیتے ہوئے دھمکیاں دینے لگے کہ ''اگر دوبارہ تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو ہم بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے حملہ کر دیں گے‘‘ لیکن آج سری لنکا میں پڑی ہوئی تین سو سے زائد لاشوں پر ان کی زبانیں سخت چمڑے کی طرح سوکھ کر رہ گئی ہیں۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کولمبو میں 300 سے زائد عیسائی ‘ چرچ کی تباہی پر ایک لفظ نہ کہہ سکے‘ جبکہ ان کے مقابلے میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کردار اور انسانیت سے محبت میں سب سے افضل رہا‘ کہ وہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں پچاس مسلمانوں کے قتل ِعام پر چالیس روز تک مسلسل سوگ میں نظر آئیں ۔
بھوٹان ‘ مالدیپ ‘ میانمار اور نیپال جیسے سارک کے رکن ممالک کو ایک آزاد اور خود مختار ریا ست کی شکل میں ابھرتا دیکھنا بھارت کو اسی طرح گوارہ نہیں‘ جس طرح امریکہ کو وینزویلا اور عرب ممالک کا کھل کر سانس لینا ۔ چھوٹا سے ملک نیپال جس کی سرحدیںبھارتیوں کی آمد ورفت کیلئے اس طرح کھلی ہیں کہ اس کی فوج‘ خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے جب چاہتے ہیں‘ دندناتے ہوئے نیپال میں گھس کر جس کو چاہیں اٹھا کر بھارت لے آتے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ کس کو اٹھایا اور کہاں غائب کیا؟لہٰذا نیپال اس وقت دہشت گردوں کی نر سری بن چکا‘ جہاں سے تیار کئے گئے دہشت گردبھارتی کمان میں بھرے گئے تیروں کی شکل میں مختلف نشانوں پر برسائے جا رہے ہیں۔ نیپال کی بد قسمتی کہہ لیجئے کہ 1947ء میں جیسے ہی بھارت کو آزادی ملی تو نہرو سمیت ہر ہندو نیپال کو ایک علیحدہ سیا ست کی حیثیت سے دیکھنا ہضم نہیں کر سکا اور اسے حیدر آباد‘ جونا گڑھ ‘گوا اور کشمیر کی طرح اسے بھی اپنا حصہ سمجھتے ہوئے احکامات چلاناشروع کر دیئے‘لیکن نریندر مودی نے تو تمام سیا سی‘ سفارتی اور اخلاقی حدود کو تہس نہس کرتے ہوئے نیپال کو گردن سے دبوچ رکھا ہے‘ جس پر سوائے دولت اور سونے کی جھنکار پر ناچنے والے چند ہزار لوگوں کے‘ باقی نیپال‘ اقوامِ عالم میں اپنی خود مختاری اور وقار کیلئے تن کرکھڑا ہے۔
امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان اور فرانس جیسے ممالک کے علا وہ یورپی یونین ‘شاید تجارتی مصلحتوں‘ خوف اورمسلم دشمنی کی شکار قومیں اور میڈیا تو چپ سادھے ہوئے ہیں‘ لیکن آزاد میڈیا اوردنیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دہشت گرد مشین کے نام سے لکھنا اور پکار نا شروع ہو چکے ۔ انتخابات میں نریندر مودی کی ایک بار پھر کامیابی سائوتھ ایشیاء اور بین الاقوامی امن اور انسانیت کی بد قسمتی ہو گی‘ کیونکہ نریندر مودی ہندتوا کی وہ دہشت گرد مشین ہے‘ جس میں اس کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کیلئے سوائے آگ اور خون کے اور کچھ نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ بھارت ابھی انتخابات کے مراحل سے گزر رہا ہے‘ لیکن پھر بھی جزیروں کے دیس سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں 21 اپریل کو ایسٹر کی صبح بھارتی دہشت گردی کے عفریت نے چرچ اور ہوٹلوں کو طاقتور بم دھماکوں سے نشانہ بناتے ہوئے سینکڑوں معصوم لوگوں کی جانیں لینے سے گریز نہیں کیا ‘ اسی طرح لاہور داتا دربار میں خود کش دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بھارت کے علا وہ اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔
سری لنکن آرمی چیف نے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بھارت سے بھیجے گئے دہشت گردوں کی تفصیلات دنیا کے سامنے رکھ دی ہیں اور کہاہے کہ ان دھماکوں سے پہلے بھارت‘ ان سے چین سے فاصلے رکھنے کیلئے مسلسل دبائو ڈالتا رہا ‘ لیکن سری لنکا‘ ساوتھ ایشیاء کے دہشت گرد(بھارت)کے کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔