ایک طرف بچی کھچی کمزور سی مسلم ریاستیں ہیں‘ تو دوسری جانب جمہوریہ چین‘ جن کی جانب بڑھنے والے عالمی استعمار اور اس کے گماشتوں کی سازشوں کے سامنے پاکستانی سکیورٹی فورسز ہیں‘ جو چٹان بنی ان کی راہ میں حائل ہیں‘ ورنہ استعمار نے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کا جینا بھی حرام کر دینا تھا ۔ بھارت کے سامنے ڈٹی ہوئی یہ چٹان نہ ہوتی‘ تو یقین کیجیے کہ خلیج سمیت دوسرے عرب ممالک امریکہ کے ساتھ بھارت کی فوجوں کو بھی اپنے اندر بٹھائے اس کا خراج ادا کر رہے ہوتے ۔
پلوامہ میں جو کچھ ہوا سو ہوا ‘لیکن رد عمل کے نام سے دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھانے کیلئے27 اور 28 فروری کو بالا کوٹ اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی ائر فورس کا‘ جس طرح پاکستان کی ائر فورس نے بھرکس نکالتے ہوئے ‘اسے خاک چٹائی ‘اس نے بھارتی فوج اور عوام پر جو دہشت طاری کی ‘وہ تو اپنی جگہ‘ لیکن اس سے امریکہ ‘ بھارت ‘ برطانیہ اور اسرائیل نے سر جوڑ لیا کہ '' ابھی ہم اس کی نیو کلیئر صلاحیتوں پر دل پکڑے بیٹھے تھے کہ اوپر سے اس کے لڑاکا طیاروں کی یہ مہارت کہ دیکھتے ہی دیکھتے دو بہترین فائٹرز اپنے جدید طیاروں سمیت زمین بوس کر دیئے گئے‘‘ ۔
دو طیاروں اور ایک ہیلی کاپٹر کی تباہی سے ہونے والی جگ ہنسائی نے بھارت اور اس کے اتحادیوں کے ایسے ہوش اڑا ئے کہ اب بھی رات کو سوتے ہوئے اچانک ہڑ بڑا کر نریندر مودی چلانا شروع کر دیتا ہے کہ کاش ! اگر ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو پھر پاکستان کومزہ چکھاتا۔آخری چٹان کی ائر فورس نے بھارت کے دو جدید ترین طیاروں اور مقبوضہ کشمیر میں ون سٹار سے فور سٹار بھارتی فوجی افسروں کے آپریشن روم کو جس دیدہ دلیری سے ان کے سر پر جا کر وارننگ لیٹر پھینکا ‘اس سے عوام اور افواج پاکستان کا مورال بے شک بلند ہوگیا‘ لیکن اس کے نیو کلیئر اثا ثوں ‘ میزائل سسٹم کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے افواج ِپاکستان کے خلاف اس کے اندر سے ایک ایسی مہم کا آغاز کر دیا‘ جس کا اندازہ اسلام آباد میں دس سالہ معصوم بچی فرشتہ کی بہیمانہ شہادت کو منظور پشتین کے حق میں استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پنجاب کا حوالے دیتے ہوئے لسانیت کی لگائی جانے والی آگ سے بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔
دشمن ٹولہ جان چکا تھا کہ فوجی طاقت سے آخری چٹان کو تباہ نہیں کیا جا سکتا‘ جس پر پاکستان کے اندر اور باہر سے اس پر دہشت گردی کی خوفناک یلغار کرتے ہوئے پولیس‘ رینجرز‘ ایف سی اور بری‘ بحری اور ٖفضائی افواج پر آگ اوربارود برسانے کا منصوبہ سازی کر رکھی ہے۔ دہشت گردی کے عفریت سے مسجدوں‘ مزاروں‘ سکولوں‘ بازاروں‘ مارکیٹوں اور ہوٹلوں پر خود کش حملے کرواتے ہوئے ‘ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ‘لیکن دشمن ٹولہ پھر بھی شکست کھا گیا اور آخری چٹان سینہ تانے کھڑی ‘ان کا مقابلہ کرتی رہی!۔
آخری چٹان کو زمین بوس کرنے کیلئے دشمن ٹولے نے مذہب کا سہارا لیتے ہوئے سب کو فرقوں میں تقسیم کر نے کے بعد ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ۔ان کے مذہبی لیڈران کی جیبوں میں اس قدر ڈالر بھر دیئے کہ ان کی نظروں میں نہ مذہب مقدس رہا اور نہ ہی انسانیت‘ ایک کونے سے دوسرے کونے تک فرقوں میں تقسیم کرائی گئی مسجدوں میں بم دھماکے‘ ٹارگٹ کلنگ‘ خود کش حملوں نے جگہ جگہ کٹے پھٹے انسانی جسموں کے انبار لگا نے والوں کے سامنے ملک کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے خون کے دریا کھڑے کر دیئے ۔
کراچی میں لسانیت کے زہر کو اس قدر ہوا دی کہ اپنے سے علیحدہ کوئی دوسری زبان بولنے والے کو موقع ملتے ہی ذبح کیا جانے لگا ۔ہر گلی محلے میں عقوبت خانے کھل گئے ۔ہر بازار آگ اور خون سے سرخ ہونا شروع ہو گیا۔ انسانی لاشیں اس طرح گرنے لگیں‘ جیسے آسمان سے اولے گرتے ہیں۔ ہر گلی محلہ اپنی اپنی زبان کا فوجی قلعہ بن گیا‘ جہاں سے جتھوں کی صورت میں دہشت گرد ایک دوسرے پر حملے کیلئے نکلتے۔ کاروباری حب میں سناٹا چھا گیا۔ سرکاری اور کاروباری مرا کز بند ہو نے لگے۔ بندر گاہیں ویرانی کا منظر پیش کرنے لگیں ۔گھر سے نکلنے والا ہر شخص کسی جانب سے آنے والی گولی ‘ دستی بم‘ یا تیز خنجر اور چھری کے وار کا تصور کرتے ہوئے اپنی زندگی سے نا امید ہونے لگا‘ لیکن دشمن ٹولے کا یہ حربہ بھی آخری چٹان نے امن قائم کرتے ہوئے نا کام بنا کر کراچی کو اس کا امن لوٹا دیا۔
دشمن ٹولے نے افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان اور فاٹا میں سکیورٹی فورسز ‘ ایف سی‘ پولیس‘ خاصہ دار فورس کے خلاف دہشت گردی کا بازار گرم کردیا‘ تاکہ اس سیلاب میں آخری چٹان کو بہا لے جائیں‘ لیکن یہ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے خود کو ذبح کروا لیا‘ لیکن یہ آخری چٹان اپنی جگہ قائم رہی اور دشمن ٹولہ غصے سے کھولنے لگا۔ دشمن اپنی شکست مان کر تھک گیا کہ وہ اسے میزائلوں سے تباہ نہیں کر سکتے۔ فرانس ‘ جرمنی‘ امریکہ‘ روس اور اسرائیل سمیت دنیا بھر کے اسلحے کے انبار کے با وجود دمشمن ٹولہ نا مراد رہا۔
اور پھر دشمن ٹولے نے اپنی راہ میں حائل آخری چٹان کو تباہ کرنے کیلئے آخری حربہ آزماتے ہوئے فوج ا ور عوام میں تفریق پیدا کرنی شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی توقع سے بھی زیا دہ انہیں کامیابیاں ملنا شروع ہو گئیں ‘جس پر دشمن ٹولے نے اپنی تمام قوت اور دولت اس تفریقی آپریشن کے سپرد کر دی اور یہ اس قدر خطر ناک ہو گیاکہ آخری چٹان میں دراڑیں پڑناشروع ہو گئیں۔ چالاک اور عیار دشمن ٹولے نے سیا ست کے ذریعے اس طرح تفریق شروع کی کہ اگر ایک شخص نواز لیگ کا حامی ہے تو اسے فوج کا مخالف بنا دیا اور اگر وزیر اعظم عمران خان کا ساتھی ہے تو اسے فوج کے ساتھی کے طور پر مشہور کر دیااور سب نے دیکھا کہ2018 ء کے انتخابات کی انتخابی مہم میں پنجاب بھر میں جہاں پارٹی کارکن اور مقامی لیڈرا ن سمیت عام شہری بھی آخری چٹان ‘ کے خلاف بات کرنا گناہ سمجھتے تھے‘ اپنے سیاسی لیڈران کی تقریرں اور بیانات سننے کے بعد ان کی طرح ہی زبان استعمال کرتے ہوئے گلی محلوں میں فوج کے خلاف تقریریں کرنی شروع ہو گئے۔ اس طرح غیر محسوس طریقے سے دشمن نے فوج کو عمران خان اور نواز شریف کے درمیان تقسیم کرا دیا اور یہ اس کی اس قدر شاندار اور بڑی کامیابی تھی کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اس پر جھونکتے ہوئے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنے سیل قائم کر دیئے‘ جہاں سے رات دن یہ بتایا جاتا رہا کہ نواز شریف نے کوئی جرم نہیں کیا‘ اس نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی‘ پانامہ ونامہ سب جھوٹ ہے اور یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی شرارت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
کسے یاد نہیں کہ آصف زرداری نے مئی2013ء کے انتخابات‘ جس میں نواز شریف کو کامیابی ملی تھی‘ لاہور کے بلاول ہائوس میں میڈیا کے نمائندوں کے سامنے کہا تھا کہ '' یہ سب جھر لو ہے اور آر اوزکا الیکشن ہے‘‘ اورجب عمران خان نے دھرنا دیا تو یہی زرداری صاحب‘ نواز شریف کا ساتھ دیتے رہے اور اب2018ء کے الیکشن میں ہارنے والے بھی آخری چٹان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔